اس وقت ہمارا سماج ایک نئی قسم کی بیگانگی کا شکار نظر آتا ہے۔اسے گروہی بیگانگی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ہم سب وجودیت کی شخصی بیگانگی اور اشتراکیت کی سماجی بیگانگی سے واقف ہیں۔اشتراکی بیگانگی میں فرد خود سے ، اپنے کام سے اور سماج سے بیگانہ ہوجاتا ہے ؛ وہ اپنے لیے سوچنے کی صلاحیت سے محروم کردیاجاتا ہے۔ وہ سرمایہ دار اشرافی جماعت کے لیےشے بن کر رہ جاتا ہے۔ وجودی بیگانگی ،تخلیقی تھی کیوں کہ وہ تخلیق کارکو اپنے اور کائنات کے درمیان جس ازلی دوری اور اجنبیت کا یقین دلاتی تھی ،اس سے تخلیق کار کا تخیل بھڑک اٹھتا تھا۔ وہ اتنی قوت سے چیختا تھا اور اس یقین سے کہ اس کی آواز کائنات کی آخری سرحدوں سے جا ٹکرائے گی،حالاں کہ اس کی آواز خود اسی تک پلٹ آتی تھی ، اور اسے وہ کبھی کائنات کی طرف سے اپنی چیخ کا جواب سمجھتا تھا یا کائنات میں بھی اپنی ہی طرح تنہائی اور بیگانگی کو پاتا تھا۔
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے (شکیب جلالی)
ایک خلا، ایک لاانتہا اور میں
کتنے تنہا ہیں میرا خدا اور میں (افتخارمغل)
دوسری طرف ’گروہی بیگانگی‘ میں کوئی تخلیقی عنصر نہیں۔ یہ ایک سماجی عارضہ ہے ۔ ’گروہی بیگانگی ‘ اپنا اظہار’’ہم ‘‘ اور ’’وہ‘‘ کی تفریق اور ثنویت میں کرتی ہے۔ ’’ہم ‘‘ کا گروہ جن بنیادوں پر اپنی شناخت قائم کرتا ہے ، وہ سراسر دوسرے گروہ یعنی ’’وہ‘‘ کی بنیادوں کی نفی کرتی ہیں، اور اسی مسلسل نفی کے عالم میں اپنا اثبات کرتی ہے۔ یہ محض آقا و غلام یا عورت و مرد، یا سفید فام و سیاہ فام ، یا مغرب و مشرق ، یا مذہب و سائنس یا جمہوریت و ملوکیت ،یا ترقی پسندی وجدیدیت والی تفریق اور ثنویت نہیں ہے۔ یہ سب بھی پاکستانی سماج اور ادب کی تاریخ کا حصہ ہیں،لیکن اس وقت جس ’گروہی بیگانگی ‘ کا شکار پاکستانی سماج ہے ، وہ ایک نئی انتہا ہے۔ یہ صرف مذہبی ، مسلکی اور سیاسی تقسیم میں ظاہر نہیں ہورہی ، بلکہ ادب اور آرٹ میں بھی نمایاں ہے ،اور کئی صورتوں میں۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہمارا ادیب ، آرٹ کے دوسرے شعبوں سے لاتعلق ہے ؛اسے معاصر پاکستانی مصوری، موسیقی، رقص، مجسمہ سازی ، فلم سے کوئی دل چسپی نہیں اور آرٹ کے شعبوں کو معاصر اردو ادب سے تعلق نہیں۔معاصر ارود ادب کا بڑا حصہ خود میں سمٹتا ہو ا محسوس ہوتا ہے ۔چند ایک مستثنیات ہیں،مگر مجموعی طور پراردو ادیب ، آرٹ کے دیگر شعبوں سےبیگانہ ہیں۔ایک زمانہ تھا ، اردو کے ادبی رسائل میں آرٹ پر مضامین خود اردو ادیب لکھا کرتے تھے ۔اب ایسا نہیں ہے۔زبیر رضوی کا" ذہن جدید" آخری اردو رسالہ تھا جس میں ادب وآرٹ یکجا تھے۔ ’میر‘ اور منٹو پر فلموں نے ادب اور فلم کے آرٹ کو قریب لانے کی کوشش کی ،جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
اردو کا عام ادیب معاصر پاکستانی انگریزی فکشن سے کم ہی دل چسپی رکھتاہے،اور معاصر انگریزی فکشن معاصر اردو ادب سے دور دور رہتا ہے۔ انگریزی اوراردو کے پاکستانی ادیب دوالگ جزیروں کے باسی محسوس ہوتے ہیں اور دونوں جس پاکستان کو پیش کرتے ہیں،وہ بھی ایک نہیں ہے۔یہی نہیں ،پاکستان کی دیگر زبانوں کے ادب کے لیے اردو ادیب کے یہاں وہ گرم جوشی دکھائی نہیں دیتی، جس کا مظاہرہ وہ مغربی ، لاطینی امریکی اورافریقی ادب کے سلسلے میں کرتا ہے۔ باہر کا ادب ضرور پڑھا جانا چاہیے لیکن جس ادب میں یہاں کے سماج اور اس کے باسیوں کی روح دھڑکتی ہے ، اس سے اردو ادیب کی عمومی بیگانگی —یا بے نیازی—کئی سوال پید اکرتی ہے۔یہ درست کہ پنجابی، بلوچی، سندھی ، سرائیکی ، پشتو، براہوی ، شینا، کھوار، بلتی اور دوسری پاکستانی زبانوں سے مسلسل اور معیاری تراجم نہیں ہوتے، لیکن جو ہوتے ہیں ، ان کا اثر یا حوالہ ارودادب میں برائے نام ہے۔ اس لیے ،اردو اور دوسری زبانوں میں پیش ہونے والا پاکستان بھی کوئی ایک خطہ ،ایک جیسے مسائل اور ثقافت کا حامل وطن دکھائی نہیں دیتا۔
ادب و آرٹ کی روح اپنے اندر سمٹنے سے نہیں، باہر کی طرف پھیلنے سے عبارت ہے۔ادب ،فرد کی تنہائی سے جنم ضرور لیتا ہے مگر وہ تنہا و بیگانہ ہونے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ہر تخلیق اگر نئی زبان ، نئی بصیرت ، نئے رشتے ، نئی ہم آہنگی اور نئی دنیا کی تلاش کو لازم سمجھتی ہے تو اس کے لیے تنہائی شرط ہے ۔ تنہائی میں تخلیق کی روح پرجوش ہوتی ہے ، باہر کی دنیا سے مخاطب ہونے کے لیے پرجوش!گروہی بیگانگی کا شکار ہوکر ادب ، اپنی روح سے دور ہوجاتا ہے۔
بیگانگی میں مبتلا ہر گروہ ،ہم خیال وہم مسلک لوگوں کا مجموعہ ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ اس یقین کے ساتھ جڑے ہیں کہ ان میں ایک چیز مشترک ہے: وہ حق پر ہیں اور دوسرے حق سے بیگانہ ہیں اور گمراہی کا شکار ہیں۔جس گروہ کو اپنے حق پر ہونے کا یقین جتنا گہرا اوراٹل ہوتا ہے، اس کی اصطلاحات اتنی ہی مطلق اور مقدس ہوتی چلی جاتی ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ایسی اصطلاحات کو مسلسل تائید و توثیق کی ضرورت رہتی ہے اور وہ ’شخصی ،تنقیدی استفہام ‘ (Critical introspection) سے ماورا سمجھی جانے لگتی ہیں۔اس کے نتیجے میں گروہ کے افراد ایک "مرکز" سے جس قدر جذباتی طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں،اسی قدر دوسرے گروہوں سےان کی بیگانگی —اور بالآخر دشمنی بڑھتی جاتی ہے۔
کسی گروہ کے خود کو حق پر سمجھنے میں بجاے خود کوئی عیب نہیں بشرطیکہ یہ گروہ دوسرے گروہوں کے اسی قسم کے حق کو بھی تسلیم کرے ۔یہ حق اسی صورت میں تسلیم کیا جاسکتا ہے ،جب ہر گروہ اپنے تصوریا نظریے کے لیے تنقیدی استفہام کا راستہ کھلا رکھے؛ یہ تسلیم کرے کہ اس کا نظریہ ایک شخص کی عقل سے ماورا ہوسکتا ہے، انسانی فہم سے نہیں؛اس کے پاس انسانی فہم کی تحسین کے جذبات وافر ہوں ۔ مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جہاںکوئی گروہ خود کو کسی عظیم طاقت کا منتخب کردہ سمجھنے لگتا ہے اور اپنے نظریے کو دنیا کی آخری مستند سچائی سمجھ کر اس کو منوانے اور اس کے نفاذ کی سعی میں اپنی ہستی کے معنی دیکھنے لگتا ہے۔اس کا نشانہ دوسرے سب گروہ تو بنتے ہی ہیں، اپنے گروہ کے وہ افراد بھی بنتے ہیں جو اختلاف کی جسارت کرتے ہیں ۔اس کےنتیجے میں گروہ مزید سختی سے منظم ہوتا ہے اوراپنی آرا میں اتنا ہی شدت پسند ہوتاہے اور اتنا ہی دوسرے گروہوں سے بیگانہ اور دور ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بیگانہ گروہوں کے درمیان کوئی رابطہ اور مکالمہ قائم نہیں ہوتا، بس ایک دوسرے پر زبانی طنزیہ حملوں سے لے کر حقیقی تشدد نظر آتاہے۔ اس صورت حال کو’ مکالمے کی موت ‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس کی جڑیں ہماری تاریخ ، تاریخ نویسی ، سماج کی اکالوجی اور طاقت و اقتدار کی کش مکش میں ہیں۔جمال احسانی نے کہا تھا:
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے سے آیا ہے
اس گروہی بیگانگی کو ادب و آرٹ ہی ،اپنی حقیقی روح–جوباہر کی طرف پرجوش انداز میں پھیلنے اور سب انسانوں کو امتیازات سے بالاتر ہوکر شریک کرنے سے عبارت ہے—کی مددسے ختم نہ سہی ، کم کرنے میں ضرور مدد دے سکتے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...