گرمی گرمی گرمی ،مگر حل کیا؟
ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق کراچی میں جاری قیامت خیز گرمی کے باعث گزشتہ 2 روز میں مختلف علاقوں میں 65 افراد ہیٹ اسٹروک کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ایدھی فاونڈیشن کے مطابق کورنگی اور سہراب گوٹھ ایدھی سردخانے میں 3 روز کے دوران 114 لاشیں لائی گئیں جن میں سے 65 افراد ہیٹ اسٹروک کے باعث ہلاک ہوئے۔زیادہ تر ہیٹ اسٹروک کا شکار ہونے والوں کا تعلق لانڈھی اور کورنگی سے ہے۔ہیٹ اسٹروک کے باعث زیادہ تر اموات گھروں میں ہوئیں، گھروں میں مرنے والے افراد کو بروقت ہسپتال نہیں پہنچایا جاسکا جس کے باعث ان کی موت ہوئیں جبکہ ہیٹ اسٹروک سے مرنے والوں کی عمریں 6 سے 78 سال کے درمیان ہیں۔کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی سورج آگ برسا رہا ہے اور سندھ کے بالائی اور میدانی علاقوں میں قیامت خیز گرمی پڑرہی ہے۔گرمی سے متاثرہ علاقوں میں حیدرآباد، جامشورو، جیکب آباد، سکھر، میرپور خاص، نواب شاہ، بدین اور سندھ کے دیگر علاقے شامل ہیں، جہاں درجہ حرارت 45 ڈگری سے تجاوز کرگیا تھا۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں گرمی کی حالیہ لہر مزید 2 روز تک جاری رہے گی اور جمعرات کے بعد اس میں کمی کا امکان ہے۔دنیا بھرمیں ہیٹ ویو ایک بہت بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے،چند سال پہلے پیرس میں شدید گرمی کی وجہ سے ہزاروں انسان مر گئے تھے ،اسی طرح کچھ سال پہلے روس میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں تھی۔بھارت کے شہر احمد آباد میں کچھ سال پہلے تین ہزار افراد شدید گرمی کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔دو ہزار پندرہ میں کراچی میں ہیٹ ویو کے نتیجے میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
اس وقت حالت یہ تھی کہ کراچی میں سرد خانے کم پڑ گئے تھے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں 2100 تک قطر ،یو ائے ای ،سعودی عرب ،بحرین ،پاکستان کے کچھ حصوں ،بھارت کے بہت سارے علاقوں میں انسان کا زندہ رہنا ناقابل برداشت ہو جائے گا۔یہ علاقے انسان کی رہائش کے قابل نہیں رہیں گے۔سائنسدانوں کے مطابق 2100 میں سعودی عرب اور بحرین میں ٹمپریچر 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائےگا ۔اور انسان اس شدید درجہ حرارت کی وجہ سے مر جائیں گے۔نواب شاہ میں اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت 52 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ماہ اپریل میں اس قدر درجۂ حرارت اس سے قبل کرہ ارض پر کبھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ہیٹ ویو کی زد میں کیسے آرہا ہے؟نواب شاہ شہر کی آبادی میں گذشتہ ایک دہائی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہاں بڑے پیمانے پر پکے مکانات کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر کی بھی تعمیر ہوئی ہے۔یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے اس علاقے میں ٹمپریچر بڑھا ہے۔عالمی محکمہ موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ عالمی موسمی تبدیلیاں ہیں۔ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جس کے باعث گرمی کے رجحان میں شدت زیادہ ہے۔بلوچستان اور سندھ خشک سالی کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان میں موسم گرما کی مدت بڑھ رہی ہے اور سردیاں کم ہو رہی ہیں، جیسے سندھ میں اپریل میں درجہ حرارت شدید تھا لیکن شمالی علاقوں اور پنجاب میں سرد لہر آئی جس سے درجہ حرارت میں کمی ہوئی۔ یہ تمام عوامل موسمی تبدیلوں کا مظہر ہیں لیکن اس حوالے سے نہ خطے میں اور نہ ہی پاکستان میں اقدامات کیے گئے ہیں۔محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں بننے والے گرمی کے دباؤ کا مرکز سندھ میں ہے، جس میں نواب شاہ، نوشہرو فیروز، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور بلوچستان کے علاقے سبی پر مشتمل ہے جہاں ہوا کا دباؤ کم ہے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی بہت گرمی ہوتی ہے جب نواب شاہ میں 52 سینٹی گریڈ پر درجہ حرارت پہنچا تو آس پاس میں بھی 49 اور 50 سینٹی گریڈ تھا، اب آنے والے سالوں میں نئے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ہیٹ ویو کے دوران شہری حفاظتی تدابیر اپنائیں۔ماہرین صحت کا کہنا ہے شہری ہیٹ ویو سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔دوسری جانب کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کے الیکٹراک کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام پریشان میں مبتلا ہیں۔سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو موسم میں تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے، لیکن کبھی کبھی قدرت سے چھیڑ چھاڑ انسان کو بہت مہنگی پڑجاتی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس شدید موسم میں سکون کا احساس بخشنے والے درخت ہم نے کمائی کے چکر میں یوں کاٹ ڈالے کہ اب سایہ تلاش کرنے پر بھی سایہ نہیں ملتا۔گرمی کی شدت میں اضافے کی اصل میں کیا وجہ ہے؟ تو اس کی ایک بہت عام فہم وجہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانا ہے۔ مثلاًدرختوں کی کٹائی،معدنیات کا بے دریغ استعمال،صنعتوں کی بہتات،اور ماحول دشمن فضلے کا سمندر اور دریاؤں میں بہا دینا۔اب ہم دنیا بھر میں رائج چند کارآمد طریقے آپ کو بتاتے چلیں جس سے ہم ماحولیات کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس شدید گرمی میں دنیا بھر میں ایسے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے اس گلوبل وارمنگ سے بچا جاسکے؟دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں گھروں اور عمارتوں کی بالکونیوں میں پودے لگائے جاتے ہیں، اگر ہم بھی اس فارمولے پر عمل کریں تو ہیٹ ویو سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنی تمام عمارتوں کی بالکونی پر پودے لگانے ہونگے اور ان کی مکمل دیکھ بھال کرنا ہوگی۔پینسلوینیا کے شہر فلا ڈیلفیا کے لوگ گرمی کے موسم میں اپنے چھت پر(وہ حصہ جہاں دھوپ پڑتی ہے) سفید رنگ کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے پورے شہر کا درجہ حرارت موجودہ درجہ حرارت سے 4 سے 6 ڈگری کم ہوجاتا ہے اور گھروں میں مقیم لوگوں کے گھر کے درجہ حرارت میں 6 سے 8 ڈگری درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، جبکہ نیو یارک میں بھی حکومت نے کول روف کے نام سے اس پراجیکٹ پرعمل شروع کردیا ہے۔پاکستان میں سب سے پہلے جنگلات کے کٹاؤ کو فوری طور پر روکنا ہوگا اور درخت کاٹنے کا ایک قانون وضع کرنا ہوگا جسکے تحت ایک محدود رقبے تک درخت کاٹنے کی اجازت دی جائے اور پھر ایک لمبے مخصوص عرصے تک اس جگہ درختوں کو کاٹنا ممنوع ہونا چاہیئے۔یہ وہ طریقے ہیں جو دنیا میں موسم کی شدت کو کم کرنے اور ماحول کا توازن برقرار رکھنے کیلئے رائج ہیں۔اس کے علاوہ اب کچھ ایسے اور فوری طریقے جن پر عمل کرکے ہیٹ اسٹروک سے ممکنہ طور پر محفوظ رہا جاسکے۔گرم موسم میں آپ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ٹھنڈے مشروبات کا استعمال رکھیں۔سفر پر نکلنا ہو تو پانی اپنے ساتھ رکھیں۔دن میں لازمی کم از کم ایک بار نہائیں۔ہیٹ اسٹروک کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔گلوبل وارمنگ کا مطلب گرین ہاؤس افیکٹ میں اضافہ۔ گرین ہاؤس افیکٹ ایک قدرتی عمل ہے جب زمین سورج کی شعاؤں کو منعکس کرنے کی بجائے روک لیتی ہے اور زمین پر بسی مخلوقات کے لیے زندگی کا ساماں کرتی ہے تاہم انسان کی کچھ سرگرمیاں جیسے کہ معدنی ایندھن کا جلنا ، درختوں کی بےجا کٹائی اور فیکٹریوں کے حد سے زیادہ دھواں نے گرین ہاؤس افیکٹ میں اضافہ کردیا ہے۔ کاربن ڈائیاکسائیڈ، میتھین ، نائٹرس اکسائیڈ کی زمین کے گرد تہہ ان شعاؤں کو روکنے کا کام سر انجام دیتی ہے اور یہی گیسز زمین پر بےجا بڑھتے درجہ حرارت اور گلوبل وارمنگ کی وجہ ہے۔گلوبل وارمنگ اس صدی میں لاحق زمین کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔پاکستان معاشی سروے 2017-2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہے۔ کسی علاقے کے طول و عرض میں جنگلات لگانا اس علاقے کے درجہ حرارت کو کم رکھنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹر پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق اگر درختوں اور جنگلات کی کٹائی اسی طریقے سے جاری رہی تو ہم صرف اگلی ایک صدی میں زمین پر موجود تمام جنگلات سے محروم ہوجائیں گے۔دوسری جانب زراعت نہ صرف ماحول کو خوشگوار رکھتی ہے بلکہ کسی علاقے کی غذائی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ ماہرین اب شہری زراعت پر زور دے رہے ہیں جس میں شہروں میں عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر زراعت کی جائے۔اس سے ایک طرف تو اس عمارت کے درجہ حرات میں کمی آئے گی جس سے اس کے توانائی (اے سی، پنکھے) کے اخراجات میں کمی آئے گی دوسری طرف انفرادی طور پر اس عمارت کے رہائشی اپنی غذائی ضروریات کے لیے خود کفیل ہوجائیں گے۔دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جسے روکنے یا اس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زمین سے انسانوں کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔امید ہے پاکستان کی ریاست اور حکومت اس حوالے سے پالیسی بناکر عملی اقدامات اٹھائے گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔