گاڑی پارک کرنے کے طریقے
راشد صاحب فالودہ کھانے کے بڑے شوقین ہیں۔ کل تپتی دوپہر میرے دفتر پہنچے اور فرمائش ظاہر کی کہ’’انار کلی توں پھلودہ کھان چلنے آں‘‘۔ میں نے جھرجھری لی اور ہاتھ جوڑے کہ حبس اور گرمی بہت زیادہ ہے‘ شام کو چلیں گے۔ انہوں نے قہقہہ لگایا’’گرمی اور حبس کی فکر نہ کرو‘ میری گاڑی میں اے سی موجود ہے ‘‘۔ اس سے ایک بات تو طے ہوگئی کہ گاڑی اُن ہی کی استعمال ہوگی لیکن ہولناک حقیقت یہ تھی کی میں پہلے بھی اُن کی گاڑی میں بیٹھنے کا شرف حاصل کر چکا تھا ۔ اِس گاڑی میں اے سی تو لگا ہوا تھا لیکن بہترین کولنگ اُس وقت کرتا تھا جب گاڑی کے چاروں شیشے کھلے ہوں یا دسمبر کے آخری دن چل رہے ہوں۔بار بارکی التجا کے باوجود راشد صاحب نہیں مانے ۔ آدھے گھنٹے بعد ہم انار کلی میں فالودے والی دوکان کے اردگرد پارکنگ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ ورکنگ ڈے تھا‘ چھوٹی سے چھوٹی جگہ پر بھی کوئی نہ کوئی گاڑی گھسی ہوئی تھی۔ طے پایا کہ فالودے والی دوکان سے کچھ دور گاڑی پارک کی جائے۔ راشد صاحب نے گاڑی آگے بڑھائی لیکن کوئی پارکنگ نہیں ملی۔ وہ مسلسل آہستہ آہستہ گاڑی آگے بڑھاتے رہے۔ اچانک انہوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اور ایک طرف اشارہ کیا جہاں اچھی خاصی پارکنگ موجود تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ وہاں گاڑی پارک کرتے ‘میں نے ان کا کندھا تھپتھپایا اور سامنے والے چوک کی طرف اشارہ کیا’’حضور! فالودے والی دوکان توبہت دور رہ گئی۔۔۔ البتہ وہ رہا میرا دفتر۔۔۔‘‘
اُس روز مزید احساس ہوا کہ پارکنگ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مسائل حل کرنے میں میرا کوئی سوال نہیں لہذا آج بھی کوشش کروں گا کہ آپ کو رش والی جگہ پر گاڑی پارک کرنے کے کچھ ایسے طریقے بتاؤں جن پر عمل کرکے آپ سوتے ہوئے بھی اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھیں۔دوستو بزرگو! عموماً دوکاندار حضرات کسی غیر بندے کو اپنی دوکان کے آگے گاڑی پارک نہیں کرنے دیتے لیکن اگر یہی بندہ اُن کا گاہک ہو تو پھر سو بسم اللہ۔ یقیناًطریقہ آپ کچھ کچھ سمجھ گئے ہوں گے، اطمینان سے گاڑی کسی دوکان کے عین سامنے پارک کیجئے اور بڑی برُدباری سے اُتر کر دوکان کے اندر چلے جائیے۔دو چار ضرورت کی چیزیں خریدیے ‘ گاڑی میں رکھئے اور گاڑی وہیں کھڑی کرکے اپنے اصل مقام کی طرف کھسک جائیے۔ایسی صورتحال میں عموماً واپسی پر دوکاندار آپ کو غصیلی نظروں سے گھور رہا ہوتاہے‘ کوئی مسئلہ نہیں۔ نظریں ملانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
فرض کیا کہ یہ طریقہ آپ سے پہلے کسی اور نے آزما لیا ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سڑک کنارے گاڑی پارک کردیں۔ یقیناًآپ پوچھیں گے کہ یہ کیا طریقہ ہے؟ بھائی صاحب پوری بات تو سن لیں۔ گاڑی سڑک کنارے لگانی ہے اور ایمرجنسی انڈیکیٹر آن کر کے بونٹ کھول دینا ہے۔ دور سے ہی نظر آجائے گا کہ گاڑی خراب ہوگئی ہے۔اب دروازے وغیرہ لاک کیجئے اور اطمینان سے شاپنگ وغیرہ کرآئیے۔دھیان رہے کہ چونکہ بونٹ کھلا ہوگا لہذا گاڑی کسی ایسی جگہ روکیں جہاں لوگوں کی آمدورفت زیادہ ہو ورنہ عین ممکن ہے واپسی پر گاڑی کی بیٹری غائب ہو۔اسی کا ایک اور ضمنی طریقہ بھی ہے‘ تھوڑی سی مشقت ہے لیکن پارکنگ مل جائے گی۔ کسی بھی جگہ گاڑی روک کر جیک لگائیں اور ایک ٹائر نکال کر ڈکی میں رکھ دیں۔ مطلب ‘ گاڑی پنکچر ہوچکی ہے ‘ ایکسٹرا ٹائر کوئی نہیں او رمالک رکشے پر پنکچر لگوانے گیا ہے۔
ایک اور بڑا شاندار طریقہ ہے۔ تھوڑے پیسے تو لگیں گے لیکن کام بھی اچھا ہوگا اور پارکنگ بھی مل جائے گی۔ گاڑی کو کسی قریبی سروس سٹیشن لے جائیں۔عموماً وہاں چار پانچ گاڑیاں اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ چابی لڑکے کے ہاتھ میں پکڑائیں اور’’واش‘‘ کہہ کر گنگناتے ہوئے نکل جائیں۔اگر آپ کی واپسی جلدی ہوگئی اور آپ کی گاڑی وہیں کھڑی ہوئی تو فوراً برا سا منہ بنا کر لڑکے کو ڈانٹیں کہ اتنی سست سروس میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔اور گاڑی واش کرائے بغیر نکل جائیں۔ لیکن اگر پتا چلے کہ گاڑی واش ہوچکی ہے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ پارکنگ بھی مل گئی اور گاڑی بھی صاف ہوگئی۔
اگر آپ کسی ایسی جگہ پر پارکنگ چاہتے ہیں جہاں نہ دوکانوں کے آگے جگہ خالی ہے‘ نہ سڑک کنارے اور نہ ہی قریب کوئی سروس سٹیشن ۔۔۔تو ایک بار پھر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ویسے یہ طریقہ بتانے کے میں سوا تین سو روپے لیتا ہوں کیونکہ یہ ایسا طریقہ ہے جو میں نے صرف اور صرف اپنی مشکل کے لیے رکھا ہوا ہے لیکن آپ سے چونکہ محبت کا رشتہ ہے اس لیے بتائے دیتا ہوں۔کوئی زور زبردستی نہیں‘ پسند آئے تو اپنی خوشی سے جودینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ ہاں تو طریقہ یہ ہے کہ پہلے ذرا سین ملاحظہ کریں۔۔۔ہر طرف پارکنگ فل ہے‘ ٹریفک بھی شدید ہے‘ اردگرد گاڑی لفٹ کرنے والے اہلکار بھی پھر رہے ہیں۔ اور اسی ہنگامے میں آپ کو اپنی گاڑی بحفاظت پارک کرنی ہے۔ لیجئے غور سے سنئے۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ایک دو تین کہئے اور سیٹ پر ایک طرف ڈھلک جائیے۔ پیچھے والی گاڑیاں ہارن بجائیں گی‘ لائٹیں ماریں گی لیکن آپ نے اطمینان سے آنکھیں بند کیے پڑے رہنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کچھ گاڑیوں کے دروازے کھلنے کی آواز آئے گی‘ غصے سے بھرے ہوئے لوگ آپ کی ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آئیں گے اور پھر آپ کو تین چار چیخیں سنائی دیں گی’’اوہ مائی گاڈ۔۔۔کیا ہوا بھائی صاحب۔۔۔ہیلو۔۔۔ہوش کرو‘‘۔ ہماری روایت ہے کہ بقائمی ہوش و حواس بندہ ہمیں زہر لگتاہے لیکن اگر وہ کسی مصیبت میں ہو تو ہم سے رحمدل کوئی نہیں ہوتا کیونکہ اُس وقت وہ خدا کے بعد ہمارے رحم و کرم پر ہوتاہے۔ آپ نے صرف اتنا ہوش میں آنا ہے جتنا آنا چاہیے۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ کر باہر نکلئے اور پھر آنکھیں بند کرلیجئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے لیے ٹھنڈا پانی بھی آجائے گا‘ آپ کو قریبی گرین بیلٹ میں بھی لٹا دیا جائے گا اوربلاک ٹریفک روکنے کے لیے لفٹر والے آپ کی گاڑی اٹھا کر کسی دوسری طرف لے جائیں گے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔ پانی پیتے ہی گہرے سانس لیجئے‘ لوگوں کا شکریہ ادا کیجئے کہ اب آپ کافی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ دو تین منٹ میں بھیڑ چھٹ جائے گی۔ پھر سکون سے اپنا کام نمٹائیے اور واپسی پر لفٹر والوں کا شکریہ ادا کر کے گاڑی لے جائیے۔ لفٹر والے کچھ پیسے مانگیں تو دینے میں حرج نہیں۔ایک اور بھی طریقہ ہے کہ ڈرائیور بے شک رکھیں نہ رکھیں‘ پارکنگ بوائے ضرور تنخواہ پر رکھ لیں۔ یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ جہاں جانا ہواِسے دو گھنٹے پہلے وہاں بھیج دیں تاکہ ’جگہ مل لے‘۔ ورنہ سڑکوں پر جتنی گاڑیاں بڑھتی جارہی ہے اس سے تو لگتا ہے آئندہ تعمیر شدہ جگہ سے زیادہ قیمتی جگہ وہ ہوگی جو خالی ہوگی۔میرے کچھ دوستوں کا اصرار ہے کہ میں نے یہ کالم خالصتاً مردانہ ذہنیت کو مدنظر رکھ کر لکھا ہے کیونکہ کوئی مشورہ کسی خاتون کو نہیں دیاگیا۔ عرض ہے کہ ایسا میں نے جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ میری معلومات کے مطابق خواتین کی اکثریت کو پارکنگ کی پرابلم ہوہی نہیں سکتی۔وہ جہاں چاہے جب چاہے گاڑی ٹھوک۔۔۔ میرا مطلب ہے پارک کرسکتی ہیں ۔اِنہیں پارکنگ نہ ملے تو گاڑی سیدھی بینک کے اندر بھی لے آتی ہیں۔اللہ دی قسمے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“