چند روز قبل کراچی سے ایک خبر آئی کہ ایک عورت کو ڈکیتی کی واردات کے دوران گرفتار کر لیا گیا ہے وہ عورت مردانہ لباس میں تھی اور ابھی کراچی سے ہی ایک تازہ خبر آئی ہے کہ ایک ڈاکو کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ اس طرح کی خبریں پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں آئے روز پڑھنے کو اور نیوز چینلز پر دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ نہ جانے کیوں میں جب بھی اس طرح کی خبریں پڑھتا اور تصاویر دیکھتا ہوں تو میں کانپ جاتا ہوں ایک سرد آہ بھر کر رہ جاتا ہوں ۔ گو کہ چوری ہو یا رہزنی اور ڈکیتی یہ بہت برے اور قابل مذمت عمل ہیں لیکن میری ہمدردیاں ان " ڈاکو اور چوروں " کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ لوگ خوشی سے چور اور ڈاکو نہیں بنتے ان کو ان کے معاشی اور گھریلو حالات چور اور ڈاکو بننے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان کے گھر میں بھوک و افلاس اور فاقہ کشی کا راج ہوتا ہے ۔ کسی کی ماں کسی کا باپ کسی کی بہن کسی کی بیٹی بھوک سے نڈھال ہوتی ہے یا بیمار پڑی رہتی ہے جس کی بھوک مٹانے اور علاج و معالجہ کے لئے رقم دستیاب نہیں ہوتی ۔ جب یہ لوگ مرد ہوں یا عورت اپنے خون کے رشتوں اور اپنے پیاروں کو بھوک اور بیماری میں دیکھنا برداشت نہیں کرتے تو پھر یہ غریب لوگ چوری کرنے اور ڈاکہ ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ جب یہ غربت کے مارے چوری اور ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں پہلے تو پولیس کے " مقابلے " میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور اس کارنامے پر پولیس کو پروموشن ملتا ہے اگر پولیس مقابلے سے بچ جائیں تو یہ عام شہریوں کے تشدد سے مر جاتے ہیں اگر یہ موت سے بچ بھی جائیں تو پھر عمر بھر جیلوں میں رہ کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ان کی ضمانت تک نہیں ہوتی ۔ یہ غربت ہی ہے جس کی وجہ سے لوگ چور، ڈاکو، دہشت گرد، طوائف اور رہزن بن جاتے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات پر کتا بھی بھوک سے مر جائے تو قیامت کے دن میں اس کے لئے جوابدہ ہوں گا لیکن ہمارے یہاں حکمران اور اشرافیہ طبقہ ہی اپنے شہریوں کا استحصال کر کے ان کو چور اور ڈاکو بننے پر مجبور کرتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں کتنا تضاد ہے کہ اگر کوئی سیاستدان، جج، جرنیل جرنلسٹ ، بیورو کریٹ، نواب، جاگیردار، سردار ،تاجر اور سرمایہ دار کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کرے تو وہ نہ چور کہلاتا ہے اور نہ ڈاکو بلکہ وہ لیڈر اور ہیرو کے طور پر مشہور اور معزز بن جاتا ہے ۔ اس کے لئے خصوصی عدالتیں لگتی ہیں اس کی ضمانت ہو جاتی ہے پولیس اس کی حفاظت کرتی ہے وہ کچھ عرصہ بعد معزز عدالت سے باعزت بری ہو جاتا ہے ۔ بہت سے سیاستدان اور بیوروکریٹس وغیرہ گرفتار بھی نہیں ہوتے وہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں یا ان کو بیرون ملک بھیجتا جاتا ہے وہ وہاں پر کرپشن کی حرام دولت پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اگر کوئی کچھ روز کے لیے گرفتار ہو بھی جائے تو ان کو جیل میں ہر طرح کی سہولیات اور خدمت گار بھی میسر ہوتے ہیں ۔ ایسا سب کچھ ناانصافی کی وجہ سے ہوتا ہے اگر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں تو کوئی چور، ڈاکو اور قاتل نہیں بنے گا ۔ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا وہاں غریب اپنے پیٹ کی آگ بجھانے اور علاج و معالجہ کے لئے چوری کے اقدام میں چور اور ڈاکو کہلاتے رہیں گے اور سزائیں پاتے رہیں گے جبکہ حکمران اور اشرافیہ طبقہ اربوں اور کھربوں روپے کی کرپشن کرنے کے باوجود لیڈر اور ہیرو کہلاتے رہیں گے ۔