دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا تھا اور چُوں بھی کوئی نہیں کرتا تھا۔ آمو سے لیکر فرات تک بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ تھا جسے تاتاری ہانکتے تھے اور جدھر چاہتے تھے لے جاتے تھے۔
سات صدیاں اور پچاس برس اُوپر ہوگئے ہیں اور آج اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریاں پھر ہانکی جارہی ہیں۔اب کے ہانکا لگانے والے تاتاری نہیں، بھارتی نہیں، امریکی بھی نہیں، ان بھیڑ بکریوں کے اپنے ملازم ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں ان ملازموں کو تنخواہیں دیتی ہیں۔تعیشات سے جگمگاتے محلات عطا کرتی ہیں۔پوشاکیں بخشتی ہیں۔ ان ملازموں کے خانوادوں کو مزے مزے کے راتب مہیا کرتی ہیں۔ پھر یہ ملازم ان بھیڑ بکریوں کو ہانکتے ہیں ان کی پیٹھوں پر کوڑے برساتے ہیں۔ انہیں پتھر مارتے ہیں ۔ان پر کتے چھوڑتے ہیں ، انہیں یوں مخاطب کرتے ہیں
…’’
اوئے چتکبری، اوئے کالی کھال، اوئے سفید رنگ، تیرا گوشت کھائوں، تیری ہڈیاں ٹوکے سے ٹکڑے ٹکڑے کروں، تیری کھال کے جوتے بنائوں، تیری اُون سے کمبل بُنوں، اوئے چتکبری، اوئے کالی، اوئے تو شام سے پہلے مرے‘‘۔
دُور کیوں جاتے ہیں۔ دارالحکومت ہی کو دیکھ لیجئے۔ آپ راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتے ہیں چند گز کے بعد گاڑیوں کی طویل قطار کے پیچھے آپ کی گاڑی بھی رُک جاتی ہے۔ پانچ منٹ، پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ! جس رفتار سے بھی گاڑیاں حرکت کر رہی ہیں، چیونٹی اُس رفتار پر قہقہہ لگا دے۔ ان رُکی ہوئی گاڑیوں میں دل کے مریض بھی ہیں، ایمبولینسیں بھی ہیں، حاملہ عورتیں بھی ہیں جوموت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں اور ہسپتال پہنچنا چاہتی ہیں۔ ایسے طالب علم ہیں جنہوں نے کمرۂ امتحان میں وقت پر حاضر ہونا ہے۔ شاہراہ بند کردی گئی ہے۔ رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ صرف اتنی جگہ خالی ہے جس میں سے ایک گاڑی مشکل سے گذر سکتی ہے۔ پولیس کا سپاہی کھڑا ہے اور صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ گاڑیاں رینگ رینگ کر چلیں اگر رات کا وقت ہے تو وہ گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہروں پر ٹارچ کی روشنی پھینکتا ہے۔ ان میں خواتین بھی ہیں۔ مرد دیکھ رہے ہیں کہ انکی عورتوں کے چہروں پر روشنی پھینکی جارہی ہے لیکن یہ کیسے مرد ہیں؟ خاموش،راضی برضا، زنخے!…نہیں، زنخے تو اب اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے لگے ہیں، الماس بوبی اپنے گروہ کی نمائندگی بھرپور انداز میں کرتی ہے یا کرتا ہے۔ یہ لوگ جو گاڑیوں میں بیٹھے بے کسی اور بے بسی کی مجسم تصویریں بنی ہوئی ہیں یہ تو بھیڑ بکریاں ہیں۔
گاڑیاں رکاوٹوں سے نکلتی ہیں۔ زیرو پوائنٹ کراس کرتی ہیں، آگے پھر رکاوٹیں ہیں، پھر گاڑیاں رُک جاتی ہیں، دارالحکومت کے ہر موڑ پر، ہر شاہراہ پر، ہر حصے میں رکاوٹیں ہیں، کئی رکاوٹوں پر پولیس کے سپاہی موجود ہی نہیں، لیکن بھیڑ بکریاں پھر بھی رکی ہوئی ہیں،
گاڑیاں روکی جاتی ہیں،
گاڑیاں رینگتی ہیں،
گاڑیاں ہانکی جاتی ہیں،
آج تک ایسا نہیں ہوا کہ رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی دہشت گرد پکڑا گیا ہو، بم بلاسٹ ہورہے ہیں، خود کش دھماکے بھی جاری ہیں لیکن دارالحکومت کی بھیڑ بکریوں کو قدم قدم پر ،جگہ جگہ، ہر موڑ پر، ہر شاہراہ پر روکنا ضروری ہے۔ ہاں ایک کسر باقی ہے کہ پیشانیوں پر مُہریں نہیں لگائی جارہیں۔
بھیڑ بکریوں کے اس شہر میں جسے دارالحکومت کہا جاتا ہے اور جہاں رہائشی زمین کا نرخ تین کروڑ روپے فی کنال یا اس سے بھی زیادہ ہے ہاں! بھیڑ بکریوں کے اس قیمتی شہر میں ہر گلی میں پانی بہہ رہا ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب قرطبہ اور غرناطہ کی گلیاں صاف ستھری تھیں، لندن اور پیرس کی گلیوں میں ٹخنوں تک پانی کھڑا رہتا تھا، آج لندن اور پیرس کی گلیاں صاف ستھری ہیں اور وہ ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا،اُس ملک کا دارالحکومت گندگی کا ڈھیر ہے۔’’ صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ لیکن دارالحکومت میںنہیں، کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنے والے ترقیاتی ادارے میں بیٹھے جُہلا کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہر گھر کے پورچ میں ایک گاڑی کھڑی ہے۔اس گاڑی کو ہر روز دھویا جاتا ہے۔ ہزاروں گاڑیوں کو دھونے کیلئے لاکھوں گیلن پانی ہر روز بہایا جاتا ہے اور اس پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں، یہ لاکھوں گیلن پانی پورچوں سے نکلتا ہے اور گلیوں اور سڑکوں میں بہنے لگتا ہے، پیدل چلنے والے پائنچے اُوپر چڑھا لیتے ہیں۔ گاڑیاں چھینٹے اُڑاتی ہیں، چھوٹے بچے گرتے ہیں گندے پانی میںلت پت ہوجاتے ہیں، لیکن بھیڑ بکریاں اُف تک نہیں کرتیں، ترقیاتی ادارے کو ٹیکس دئیے جارہی ہیں، صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔
گندی گلیاں!
رکاوٹوں سے بھرپور شاہراہیں!
دفتروں میں بیٹھے ہوئے فرعون صفت اہلکار!
رشوت لینے والے اژدہے! ۔…؎
ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
موروثی سیاست دانوں کو مژدہ ہو کہ ان بھیڑ بکریوں میں سکت ہے نہ ہمت، چوہدری ہیں یا شریف ، اے این پی پر حکومت کرنے والا خاندان ہے یا ڈیرے کے مولوی، بھٹو خاندان ہے یا بگتی اور مری سردار، کھوسے ہیں یا لغاری، گیلانی ہیں یا قریشی، پیر ہیں یا مخدوم، سب کو مژدہ ہو کہ بھیڑ بکریوں پر مشتمل اٹھارہ کروڑ کا یہ ریوڑ سر جھکا کر چلتا رہے گا، خانوادے سلامت رہیں گے،
بلاول آئے گا پھر اُس کا نورِ نظر،
مونس الٰہی حکومت کرے گا پھر اُس کا خلف الرشید،
حمزہ شہباز تخت پر جلوہ افروز ہوگا پھر اُس کا لختِ جگر، طلال بگتی کے بعد شاہ زین ، پھر اُس کا وارث،
ایک احسن اقبال پر کیا گلہ اور ایک مشاہد حسین سے کیا شکوہ! کیا کوئی ایک بھی ہے جو اٹھ کہ کہہ دے کہ آخر ہم بھیڑ بکریوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
کوئی احتجاج نہیں ۔کوئی شکایت نہیں۔احساس تک نہیں۔ یہ تو بجلی ،گیس اور پٹرول کا معاملہ ہے۔خدا کی قسم آکسیجن بھی بند کر دیں تو بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ میں کوئی اضطراب نہیں پیدا ہو گا۔ اسی لیے تو پولیس کے ہزاروں ملازم اپنی کئی رہائش گاہوں پر مامور کرنے والا وزیر اعلی ا خونی انقلاب کا مژدہ سناتا ہے اس لیے کہ مذاق کرنا وزیر اعلی ا کا بھی حق ہے۔ کیسا خونی انقلاب ؟ یہاں خون ہے نہ انقلاب۔ دس رائے ونڈ اور بنا دیں۔ ایک ""جاتی عمرہ "" نہیں بھارت سے بیس نام درآمد کر لیں ۔ افرادی قوّت تک وہاں سے لے آئیں، ہلکا سا ارتعاش بھی نہیں پیدا ہو گا۔
فرغانہ کی مسجد میں نمازی سر بسجود تھے۔ روسی جرنیل نے ایک طرف سے گردنوں پر پائوں رکھ کر چلنا شروع کیا اور گردنوں پر پائوں رکھتا، صف کے آخر تک پہنچ گیا، آج اٹھارہ کروڑ افراد کی گردنوں پر ایک درجن (یا کم و بیش) خانوادوں کے پائوں ہیں اور اُف تک کی آواز نہیں آرہی۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں گردنیں اس بوجھ سے آزاد ہوجائیں گی تو وہ اپنی بصارت اور بصیرت د ونوں کا علاج کرائے۔