"وہ ماما ہے تیرا، بـے غیرت، میرا سگا بھائی، کون بھرتا ہے تیرے کان؟ کتنی گندی سوچ ہے تیری اس عمر میں" امی کی آنکھیں خون اگل رہی تھیں اور میں بغیر کسی جرم کے مجرم بنی کھڑی رو رہی تھی…
"اپنی یہ غلیظ سوچ اپنے اندر ہی رکھ، آئندہ یہ بات سوچی بھی تو ادھیڑ کے رکھ دوں گی" میں پھر جیسے گونگی ہو گئی..
میں بچپن سے ہی گول مٹول تھی.. گھر کا ہر بڑا میرے گال ضرور کھینچتا تھا.. میرے ابا مجھے" گونگلو"کہا کرتے تھے.. مجھے ہمیشہ پیار ملا اور بہت ملا… چاچو، پھپھو، خالائیں سبھی مجھے بہت پیار کرتے تھے، مگر ماموں کی گود….
ماموں مجاہد، بہت کم آتے تھے ہمارے گھر، مگر جب بھی آتے مجھے زبردستی گود میں لے کے بیٹھے رہتے… مجھے شروع میں سمجھ نہیں آئی مگر آہستہ آہستہ میں سب محسوس کرنے لگی.. ان کا ہاتھ میرے گالوں سے گردن، بازوؤں سے پیٹھ پہ چلتا پھرتا رہتا تھا… اور اس سے بھی زیادہ وہ گود جہاں ہاتھ کی انگلیوں کے ساتھ بڑھتا ارتعاش مجھے برداشت نہیں ہوتا تھا اور کبھی کبھار بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی اور کبھی ماموں، امی سے شکایت کرتے اور مجھے امی کی ڈانٹ سننے کے بعد بھی اسی ارتعاشی گود میں بیٹھنا پڑتا…
پھر اس دن امی سے یہ بات کرنے کے بعد میں امی کی نظر میں ایک "گندی لڑکی" بن چکی تھی .. مجھے امی حتی الامکان نہ بلاتی تھیں نہ کام کے علاوہ کوئی بات کرتی تھیں.. جیسے میں کوئی ناپاک کپڑا ہوں..
مگر اس سارے وقت میں، مجھے اس گود کے عذاب سے گزرنا پڑتا رہا…
وہ عید کا دن تھا اور ہم سب خالا کشور کے گھر اکٹھے تھے… کھانوں کی خوشبو سے زیادہ میرے لیے کزنز کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملنا اہم تھا.. ہم چھپن چھپائی کھیل رہے تھے اور میں چھپنے کے لیے چھت پہ بنی گمٹی کی داہنی دیوار کے ساتھ چپک رہی..
تبھی میرے منہ پہ کسی نے ہاتھ رکھا اور کان میں ماموں مجاھد کی آواز گونجی "آواز نہ آئے" اور مجھے بازوؤں میں بھینچ کے دیوار سے لگ گئے… میں نے بہت کوشش کی مگر اتنے بڑے بازوؤں میں میں دبی تھی اور ماموں کی بھاری سانسیں میرے کانوں میں آندھیوں کی طرح چل رہی تھیں.. ماموں کا دوڑتا دل میری پیٹھ پہ دھڑا دھڑ بج رہا تھا اور اُسی ارتعاش کی زد میں، میں مچل رہی تھی… ماموں نے میرا بازو مروڑا اور ہاتھ پیچھے کی طرف موڑا، میں درد سے کراہ اٹھی.. مگر انھیں اس کی ذرا بھی پرواہ نہ ہوئی اور اچانک میرے ہاتھ میں جیسے گرم گوشت کا ٹکڑا تھما دیا..