کم و بیش دو ہزار افراد کی بستی پر مشتمل ایک قصبہ یاس نگر دو حصوں پر مشتمل تھا جو بیک وقت ایک تصویر کے دو رخ پیش
کرتا تھا ۔اس کا عقبی حصہ سر سبز درخت ، فصلوں اور کچے مکانوں کی صورت گاؤں کا منظر پیش کرتا تھا اورلب سڑک ایک حصہ کمرشل سہولیات سے مزین شہر کا نمونہ تھا۔بنیادی ضروریات زندگی کا حصول باآسانی ممکن تھا۔ اس قصبے پر ایک فرعون صفت خاندان اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے تھا۔لوگ اپنے اپنے گھروں میں اپنی محنت مزدوری تو کرتے لیکن زندگی گزارنے کی آزادی نہ تھی۔لوگ کہتے کہ ان کے قریب رہنا تو درکنا ر قبر بھی نہیں ہونی چاہیے۔کسی کے گھر مہمان آ جاتے تو مہمانوں کے سامنے گھر والوں کی عزت دو کوڑی کی نہ چھوڑتے،ایک جگہ کو کئی کئی مرتبہ بیچ کر لوگوں سے طاقت کے بل بوتے پر پیسے بٹورنا ان کا شیوہ تھا۔کبھی لوگوں کے گٹر وں سے آنے والے پانی کی نکاسی بند کر دینا تو کبھی بیچ چوراہے گریبان سے پکڑنا ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔لوگ ان کے ظلم و ستم اور ناروا سلوک سے تنگ آ چکے تھے لیکن ان سے ٹکر لینے کی جرٰات کوئی نہ کرسکتا تھا۔
اتوار کی صبح نیلے فلک پر کالی گھٹائیں محو رقصاں تھیں۔ سہانی ٹھنڈی ہوا بہت مخمور کر رہی تھی۔ موسم کی دلفریبی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جلد ہی ابر کرم برسنے کو ہے۔ میں آنکھیں بند کیے ٹیرس پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے موسم سے لطف اندوزہو رہی تھی کہ گلی میں اچانک شوروغل سنائی دینے لگا۔اسی اثنا میں سکینہ خالہ نے بتایا کہ خالدہ اور اس کے خاوند کو بری طرح پیٹا جا رہا ہے اور پیٹنے والے وہی روایتی کردار نام نہاد چوہدری برادران تھے۔ چوہدری کرم دین اور چوہدری فضل دین دونوں بھائی تھے ۔کاش اسم بامسمیٰ ہوتے۔لیکن افسوس کہ کرم اور فضل کی بجائے ظلم و ستم، زمینوں پر ناجائز قبضہ، گالم گلوچ،لوگوں کو حقیر سمجھنے کا جادوسرچڑھ کر بول رہا تھا۔چوہدری کرم دین سفید لٹھے کا سوٹ پہن کر ،سر پر پگڑی باندھے، پاؤں میں گولڈن رنگ کا سنہرا نوک دار کھسہ پہنے، حقہ پینے میں مصروف رہتا اور دائیں بائیں چار آدمیوں کو بٹھائے خوشامد کروانا اس کا معمول تھا ۔ کوئی چوہدری صاحب کے بازو دباتا تو کوئی ٹانگیں دبا کر نمک حلالی کا ثبوت دیتا۔ کچھ شیطان صفت کارندے گاؤں بھر کی خبریں لا کر دیتے اور نتیجے میں لوگ چوہدری صاحب کے غیظ و غضب کا شکار بنتے۔ وسیع و عریض جائیداد وں کے مالکوں کو کچھ فرق نہ پڑتا کہ زندگی عارضی ہے اور سب مادی چیزوں کو ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ان کا ظلم و ستم روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ صاحب جی! رحیما آج کل بڑا اکڑاکڑ کر چلنے لگا ہے ، اس کی اوقات کیا ہے؟ وہ تو کبھی سرکار آپ کی خدمت میں حاضرہی نہیں ہوا۔ بشیرا رحیمے سےبدلہ لینے کے لیے اسے مروانا چاہتا تھا۔ بس پھر کیا تھا ، چوہدری صاحب ! عالم پناہ نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، رحیمے کو بلا بھیجا۔کیوں بھائی رحیمے! اوئے کیا چیز ہے تو؟ اوقات ہے کیا تیری؟تو سمجھتا کیا ہے خود کو، اوئے! کس چیز کی خماری ہے تجھے اور تیرے بیٹوں کو ۔ نہیں سرکار! غریبوں کی کیا مجال! جوآپ کے حضور بے ادبی کریں۔ ہم تومحنت مشقت کر کےزندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ، پھر بھی اگر کوئی بھول چوک ہو گئی ہو تو معاف کر دیں۔ سرکار بڑی مہربانی ہو گی۔التجائیہ الفاظ سننے کے بعد بھی چوہدری صاحب کو تسکین نہ ہو سکی اور ایک زوردار تھپڑ رسید کر کے اپنی اعلیٰ ظرفی اور مردانگی کا ثبوت دیا۔ رحیما خود سے لڑتا بھڑتا گھر واپس آ رہا تھاکہ راستے میں کتے نے دائیں ٹانگ پر کاٹ لیا۔
گھر پہنچتےہی بیوی بچوں نے پوچھا کہ خیریت تو ہے آپ کی آنکھیں لال کیوں ہو رہی ہیں؟یہ جملہ ابھی پورا نہ ہو پایا تھا کہ رحیما گڑگڑا کر رونے لگا، کیا ہم انسان ہیں ؟ کیا ہم آج کے دور میں بھی آزاد انسان ہیں؟ کیا ہماری کوئی عزت نہیں؟ ہم محنت مشقت کر کے روکھی سوکھی اپنے گھر سے کھاتے ہیں، ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، تو پھر ہمارے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیوں؟ کیوں ہمیں سب کے سامنے گالی گلوچ اور تھپڑ مارے جاتے ہیں۔ اسی دل گیر جملے کے ساتھ ہی رحیما بےہوش ہو گیا۔
خالدہ ایک صابر شاکر عورت تھی، شادی کی رات گرم چادر کا تخفہ منہ دکھائی میں ملنے پر بڑی نہال ہوئی اور اسی کو اپنا سائبان سمجھتی تھی۔دو کچے کمروں پر مشتمل چھوٹے سے گھر میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی، تن پر مانگے کے کپڑے پہن کر اور فاقوں میں بھی اللہ پر توکل کرنا اس کا شیوہ تھا۔ رحیمے کو بے ہوش دیکھ کر رونے لگی اور بیٹوں سے کہا! مراد اور یوسف تمہارے ابا کو کتے نے کاٹ لیا ہے ، اور سنا ہے کہ کتے کا کاٹا بڑا خطرناک ہوتا ہے، کتے کا زہر جسم میں پھیل جائے تو انسان مر بھی جاتا ہے۔ اماں اس کا کوئی علاج نہیں؟ بارہ سالہ مراد نے پوچھا تو روتی بلکتی خالدہ نے کہا ! بیٹا کتے کے کاٹے کو چودہ ٹیکے ناف کے نیچے لگوانے سے زہر نہیں پھیلتا ۔ اماں! ابا کو سرکاری ہسپتا ل لے چلو۔مراد بیٹا! اب تو رات کے سات بج رہے ہیں اب توگاڑی بھی نہ ملے گی۔ کل سویرے لے چلیں گے، گھر میں اتنے پیسے نہ تھے کہ رحیمے کو پرائیویٹ ہسپتال لے جایا جاتا ۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے سے رحیمے کو ہوش آ گیا۔ خالدہ نے ہلدی اور روئی گرم کر کے زخم پر باندھی۔ مراد اور یوسف کم سن بچے تھے۔ گھر کا سارا نظام رحیمے کی مزدوری سے چلتا تھا اور اب وہ بھی چارپائی پر پڑ گیا۔ خالدہ نے کہا سرتاج اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے روزی روٹی کا بندوبست کر لوں ،میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ، دکھ سکھ کے ساتھی۔ زخم بھرنے میں وقت لگے گا۔ اور نوبت فاقوں تک پہنچ جائے گی۔ نہیں خالدہ نہیں ! ابھی میں زندہ ہوں ، تم میری عزت ہو ،میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ میرے گھر کی ملکہ دوسروں کے گھر کی نوکرانی کہلائے۔خالدہ ایک تابع فرمان بیوی کی طرح خاموش ہوکر رحیمے کی ٹانگیں دبانے لگی۔ گھر کے ٹوٹکوں سے ہی دوا دارو چل رہا تھا۔ ہمسائے اپنی زندگیوں میں خوش باش اور بے خبری کا شکار تھے۔ کوئی نہ جانتا تھا کہ تین دن گزرنے کے بعد زہریلے کتے کا زہر اس کےپورے جسم میں بھرچکا تھا۔ کہ اچانک اس نے کتے کی طرح بھونکنا شروع کر دیا ۔ اپنے ہاتھ دانتوں سے کاٹ کاٹ کر زخمی کر دیے تھے۔ اگر کسی انسان کو کاٹ لیتا تو وہ بھی مر جاتا ۔ خالدہ، مراد اور یوسف یہ منظر دیکھ کر سہم گئے اور ہمسائے میں رہنے والے معتبر شرفا تشریف لائے اور رحیمے کو ایک کمرے میں بند کر دیا ۔ وہ کمرے کی کھڑکی کی سلاخوں پر سر پٹکتا ، کتے کی آوازوں میں بھونکتا اور پانی مانگتا، پانی میں اسے اپنا آپ کتے کی مانند دکھائی دیتا تو زور زور سے چلاتا ، خالدہ اپنے شوہر کو اس اذیت ناک حالت میں دیکھ کر بےبسی کا شکار تھی۔ مراد اور یوسف اپنے عزیزاز جان باپ کو اس حالت میں دیکھ کر روتےبلکتے ، اس حالت میں رحیمے کے بھائی کریمے نے اس پر پانی کا ڈول انڈیل دیا، اور پانی پڑتے ہی اس کی روح راہی عدم سدھار گئی۔
پورے گاؤں میں اس دلخراش واقعہ کی خبر جنگل میں آگ کی مانند پھیل گئی۔۔ کسی نے آٹا ، کسی نے تھوڑے بہت پیسےخیرات کیے اور اپنی دریا دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمدردی کے رسمی جملے ادا کرتے ہوئے چلتے بنے۔خالدہ ایک غیرت مند شوہر کی بیوہ بن چکی تھی ۔ اپنی غریبی پر نوحہ کناں اور بے بسی پر ماتم کناں تھی ۔ کسی نے کوئی فتویٰ جاری کیا کہ عدت کرو ، اسلام میں عدت کا بہت ثواب ہے۔ کسی کو یہ احساس تک نہ ہو رہا تھا کہ گھر کا سربراہ مر گیا ہے، بچے بھوکے ہیں ، عدت بیٹھوں گی تو بچوں کی کفالت کون کرے گا ۔ آٹے کا تھیلا بھی ختم ہونے والا تھا ۔ رحیمے کا لایا ہوا راشن بھی منہ بسور رہا تھا۔لیکن توکل و قناعت کی مٹی میں گندھی خالدہ کے چہرے پر اطمینان تھا ۔ من ہی من میں گویا ہوئی۔ رازق اوپر بیٹھا ہے ، بے شک وہ سب جانتا ہے۔
مراد اور یوسف نے اپنی ماں کے آنچل سے آنسو پونچھے،تسلی دی ،اور کہا اماں ! رو مت ہم پڑھائی نہیں ،اب کام کریں گے اور زندگی کی گاڑی چلائیں گے۔ بیٹا میری بہت خواہش ہے کہ تم دونوں خوب پڑھو اور پھر بڑے افسر بن جاؤ۔ شائد پھر ہی عزت ہمارا مقدر بن سکے اور تو کوئی صورت نظر نہیں آتی ، تمہارا باپ بھی ذلت کی زندگی گزار کر قبر کی زینت بن گیا ۔ نہ جانے ہمارا حال کیا ہو گا۔ ابھی فرعون صفت چوہدریوں کے ہاتھوں نہ جانے کتنا ذلیل ہونا پڑے گا ۔
رحیمے کی موت سے بشیرا پشیمان دکھائی دینے لگا ۔لیکن نفرت کا جو بیج وہ چوہدری کے دل میں رحیمے کے خلاف بو چکا تھا۔وہ تنا ور درخت بنتا جا رہا تھا۔ بےحس چوہدری فضل دین اور چوہدری کرم دین نے تعزیت کا ایک جملہ تک نہ کہا ۔
کم سن بچوں نے محنت کر کے گھر کی دال روٹی چلانا شروع کر دی ۔ ماں اپنے لخت جگر مراد اور یوسف کے ننھے ہاتھوں پر چھالے دیکھ کر روتی اور سو سو دفعہ چومتی ، خدا خدا کر کے خالدہ کی عدت ختم ہو گئی۔ شوہر کی قبر پر جا کے پھول چڑھائے اور دُعا مانگی۔ خالدہ اپنے بیٹوں اور شوہر کے سہارے زندگی بسر کر رہی تھی۔ سارا دن نماز قرآن اور گھریلو کاموں میں مصروف رہتی ۔ باتونی عورتوں سے گریز کرتی جن کا کام سارا دن چغلیاں کرنا ہوتا ۔
بشیرا مراد اور یوسف کو دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتاا رہتا اور خود کو رحیمے کی موت کا ذمہ دار سمجھتا، لیکن سب کے سامنے اعتراف جرم کی جرات نہ تھی۔
چوہدری فضل دین نے بڑے بھائی کرم دین کو تجویز پیش کی کہ،کوٹھی بنانے کے لیے اراضی بہت ہے ہمارے پاس ۔ لیکن ایک گڑ بڑ ہے ، وہ کیا ؟ فضل بتاؤ، بھائی صاحب ! کوٹھی کی تعمیر میں رحیمے کا 5 مرلے کا مکان بہت بڑی رکاوٹ ہے وہ گرا کر کوٹھی میں شامل کر لیا جائے تو بہترین لان بن جائے گا ۔
سفاک چوہدری فضل دین نے آن کی آن میں فیصلہ صادر کر دیا کہ نکال باہر کرو رحیمے کی بیوہ اور بیٹوں کو۔ اور اس کام میں دیر نہیں ہونی چاہئے ۔ زہر آلود قہقہہ لگاتے ہوئے چار چار محافظوں کو توڑ پھوڑ کرنے بھیج دیا ۔ چوہدری کے کارندوں نے بے سرو سامانی کی حالت میں رحیمے کی بیوہ اور بیٹوں کو دھکے دے کر گھر سے نکا ل باہر کیا۔
رحیمے کے آشیانے کا تنکہ تنکہ بکھیر دیا۔ پل بھر میں دیواریں مسمار کر دیں ۔ اور خالدہ یہ تازیانہ اپنی روح پر محسوس کر رہی تھی ۔ بےجان لاش کی مانند بیٹوں کے ساتھ فٹ پاتھ کے کنارے رات بسر کی۔ خالدہ جو رحیمے کے گھر کی مالکن اور اس کی غیرت تھی۔ کسی کے گھر کام کی اجازت نہ دی کہ میرے دل کی رانی دوسروں کے گھر جھاڑو لگائے گی،برتن مانجھے گی۔میری غیرت گوارہ نہیں کرتی۔اور آج رحیمے کی ملکہ اور اس کے گھر کی مالکن لا وارثوں کی طرح سڑک کے کنارے اپنے بیٹوں کےساتھ برستی بارش اور جاڑے کی سردی میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔
گھر کی زمین پر قبضہ کیا جا چکا تھا ۔ خدا کے سہارے کے سوا اور کوئی بھی سہارا نہ تھا۔ شادی کی رات منہ دکھائی میں شوہر سے ملنے والی گرم اونی چادرسے سرڈھانپے خالدہ اپنے شوہر کا لمس محسوس کرتی ،خود کو ہمت دلاتی ،آنکھوں میں بیتے دنوں کی یاد کے اشک لیے مراد اور یوسف کو بھی اس میں لپیٹ رکھا تھا ۔رات کی تاریکی چھٹ گئی ، اور صبح نور کی روشنی دکھائی دی تو خالدہ نے پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کیا اور نماز ادا کر کے اللہ سے مدد کی دعا مانگی۔
دن کے طلوع ہوتے اجالےمیں راہگیروں کی متجسس نظروں نے خالدہ کو کوفت میں مبتلا کر دیا۔وہ اپنے تن کو ڈھانپتی ، چادر میں خود کو سمیٹ رہی تھی۔ ایک نیک سیرت بزرگ نے خالدہ کے سر پرمشفقانہ ہاتھ رکھا اور کہا، بیٹی! یہاں کیوں بیٹھی ہو ؟ خالدہ نے روتے ہوئے بےبسی اور بربادی کی کہانی سنائی ۔ خوف خدا رکھنے والے بزرگ نے ازراہ ہمدردی خالدہ اور اس کے بچوں کو اپنا ایک چھوٹا سا مکان رہنے کو دے دیا۔ خالدہ بڑے میاں کی بہت ممنون تھی کہ رہنے کو چھت تو ملی۔
چوہدری برادران کو رحیمے کے خاندان کی بربادی کر کے بھی تسلی نہ ہوئی، کہ کل کو وہ جگہ کے دعویدار بن کر نہ آجائیں انہوں نے مراد اور یوسف کو قتل کروا دیا۔ واحد سہارا بھی چھینا جا چکا تھا۔خالدہ اس صدمے سےاپنا ذہنی توازن کھو چکی تھی ۔ وہ ہر وقت گلی گلی بےیارومددگار پھرتی رہتی تھی۔ پھٹے حالوں خود سے باتیں کرتی، کبھی ہنستی،کبھی روتی، ایک ہی سوال کرتی، میری گرم چادر دیکھی ہے، کہاں ہے میری گرم چادر؟ دو میری گرم چادر۔