گر تو برا نہ مانے
" کسی سے نہ کہنا"
" سن یار ، کسی کو بتانا مت، بڑی ہاٹ نیوز ہے"
" کیا ہوا" میں سرتاپا سوال بنا ہوا تھا۔
" تجھے پتہ ہے، شیراز اور فمی میں سیپریشن ہوگئی ہے!!!"
" اوہ ، نہیں یار، سچ بتا"
" یس۔ پکی بات ہے، لیکن تو کسی سے اس کا ذکر نہ کریں"
جمی کے جاتے ہی میں نے فرقان کو فون گھمایا
" اوئے تجھ کچھ خبر بھی ہے" میری آواز میں وہی ارتعاش تھا جوٹی وی پر " بریکنگ نیوز" دینے والوں کی آواز میں ہوتا ہے، جس میں یہ فخرکہ " سب سے پہلے ہم نے یہ خبر بریک کی" چھپائے نہیں چھپتا،
" یار کچھ بتا بھی کی پہیلیاں ہی بھجوائے گا؟"
" ابے کسی کو بتائیو مت۔۔۔۔شیراز اور فمی میں بریک اپ ہوگیا ہے۔ یار تجھے قسم ہے کسی سے ذکر نہ کرنا۔ زرینہ کو تو بالکل نہ بتانا۔ وہ اور فمی بہت کلوز ہیں۔ اسے بہت دکھ ہوگا۔
اور کچھ ہی دیر بعد زرینہ ، فریدہ کو کہ رہی تھی " ارے فری سنا تم نے؟؟ لیکن پلیز کسی کو مت بتانا۔۔۔فمی اور شیری۔۔۔۔۔۔
جمی نے جب مجھے یہ بتایا تو اس سے پہلے شاید کسی اور نے اسی وعدے کے ساتھ یہ خبر نشر کی تھی کہ " کسی سے نہ کہنا" تو اس کا مطلب اور مقصد سو فی صد یہ تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ خبر ہر ایک تک پہنچ جائے۔
ہماری مجلسی زندگی کی ساری عمارت اسی گپ شپ، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، پیٹھ پیچھے بات کرنے ، عیب جوئی، افواہ سازی اور غیبت پر قائم ہے۔
ایک دوسرے کے بارے میں کھوج، کرید، تجسس، شبہ، بدگمانی، بدظنی، غیبت اور ایسی ہی ساری بیماریوں کے بارے میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کیا کہتے ہیں، وہ میں ہرگز بیان نہیں کروں کہ پھر کوئی اس بات کو سنتا نہیں ہے اور یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ہمیں بتارہےہو؟ ہم سب جانتے ہیں۔
اور یہ بھی سچ ہے کہ سب ہی جانتے ہیں لیکن ان باتوں میں سو بوتلوں کا نشہ ہوتا ہے۔ بقول یوسفی صاحب مونگ پھلی اور غیبت کے بارے میں سمجھ نہیں آتا کہ ختم کہاں کی جائے۔ میری ایک فلپائنی ساتھی اکثر کہتی ہے کہ ان کے ہاں کہا جاتا ہے کہ آپ دریا کو تو بہنے سے روک سکتے ہیں ، غیبت اور پیٹھ پیچھے بات کرنے کو نہیں۔
۔ اور میرا گورا دوست کہتا ہے کہ یہ شیطان کا ریڈیو اسٹیشن ہے اور ہم سب اس کے اناؤنسر ہیں۔
غیبت اگر غذا ہوتی تو یقین جانئیے ہمیں اپنے وزن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا۔
منہ سے پھیلنے والی سب بیماریوں سے خطرناک یہ بیماری ہے۔ کوئی اگر لڑکھڑا جائے تو دوبارہ قدموں پر کھڑا ہوسکتا ہے، لیکن زبان لڑکھڑا جائے تو اس سے نکلے لفظوں کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ ہم لاکھ تاویلیں پیش کریں ، لیکن سچ وہی بات ہوتی ہے جو پہلی بار زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اور یہ ہم دن رات دیکھتے ہیں، ہمارے لیڈر اور دوسرے مشہور لوگ آئے دن صفائیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ پھٹیچر کہنے سے میرا مطلب یہ تھا یا فلاں کو میچ کون جتوارہا ہے کہنے سے میرا مطلب یوں تھا،
لیکن اس پہلے ان کے منہ سے نکلے ہوئے شبدھ اپنا کام دکھا چکے ہوتے ہیں۔ یہی بات جب پہلی بار کہی جاتی ہے تو حاضرین کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا جاتا ہے اس وقت بالکل یہی مطلب ہوتا ہے جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔
یہ دو روگ یعنی، غیبت اور بات کو بنا سوچے سمجھے آگے بڑھا دینا، تمام معاشرتی بیماریوں کی جڑ ہیں، لوگوں کے دلوں میں کدورت، نفرت اور بغض پھیلانے میں ہمارے اسی قومی مشغلے کا ہاتھ ہوتا ہے جس میں ہم سب دامے، سخنے حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔
حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کیا پتے کی بات کہی کہ جو آپ کے بارے میں بات کرتا ہے، وہ دراصل آپ کے خلاف بات کرتا ہے،جو کہانیاں آپ سے منسوب کرتا ہے، وہی کہانیاں دوسروں کو سناتا ہےاور جب آپ سے خوش ہوتو وہ باتیں کہتا ہے جو آپ میں نہیں ہیں، اور آپ سے ناراض ہو تو آپ کے بارے میں وہ کچھ کہے گاجو آپ میں نہیں ہیں ۔
شاید ایسا ہے کہ ہم اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ، اسی لئے دوسروں کی وہ باتیں کرتے ہیں جو ہم میں نہیں لیکن اسے برا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یا شاید دوسرے کے معیار تک نہ پہنچ پانے کی بھڑاس اس طرح نکالتے ہیں۔ یا ہم میں وہ کچھ نہیں ہے جو دوسروں میں ہے اور ہم اس طرز زندگی کو اپنانا چاہتے ہیں۔
جو مجھ سے کسی کی بات کررہا ہے یقیناً وہ کسی اور سے بھی میرے بارے میں یہی کچھ کہہ رہا ہوگا۔ جسے وہ یا ہم کمتر ثابت کرنا چاہتے ہیں دراصل ہم اسے اہمیت دے رہے ہوتے ہیں اور یقیناً اس میں کوئی ایسی خوبی ہے جو ہمیں چبھ رہی ہے۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کے جس کے پیچھے ہم بات کررہے ہیں ، ہم اس کے پیچھے ہی ہیں اور وہ یقیناً آگے ہی ہے۔ مجھے بھی وہ لوگ بھلے لگتے ہیں جو میرے پیچھے بات کرتے ہیں کم از کم یہاں میں ان سے آگے ہی ہوتا ہوں۔ لیکن میں اپنے آپ کو اس وقت کم تر بنا لیتا ہوں جب کسی اور کے پیچھے اس کی بات کرتا ہوں۔
اگر میں کسی کو نیچا دکھانے کی بات کررہاہوں تو وہ چاہے جواب دے یا نہ دے، میں اپنے آپ کو نیچا ثابت کر ہی چکا ہوں۔
میں نہیں سمجھتا کہ پیٹھ پیچھے کی جانے والی باتوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔ جو یہ کرتے ہیں دراصل اپنی شخصیت کا اصلی روپ دکھا رہے ہوتے ہیں۔
یہ غیبت تین لوگوں کو نقصان پہنچاتی ہے، غیبت کرنے والے کو ( سب سے زیادہ) سننے والے کو اور جس کی برائی کی جارہی ہو۔ یہ عیب جوئی چوری سے بھی بدتر ہےجو کسی کی ساکھ، عزت اور نیک نامی بھی چوری کرلیتے ہے۔ اگر کسی کے بارے میں کوئی اچھی بات کی گئی ہے تو کئی سوالات کریں گے، لیکن جیسے ہی بری بات کہی جائے گی فوراً یقین کرلیں گے۔
پہلے یہ سب کچھ محدود تھا اور صرف بالمشافہ اور نجی گفتگو میں ہی یہ سب کچھ ہوتا تھا۔ اب اللہ کے فضل سے ہم اندھوں کے ہاتھ بٹیر یعنی سوشل میڈیا لگ گیا ہے جہاں ہر کوئی میری طرح بقراط بنا کسی نہ کسی کو لتاڑ رہا ہوگا یا پھر جیسے ہی کوئی ایسی ویسی بات سننے میں آئے اسے فورا آگے بڑھانے کے لئے اسی طرح بے چین نظر آئے گا کہ " دیکھا، سب سے پہلے ہم نے خبر دی " یا پھر آپ سے کہے گا ذرا ' ان باکس میں آنا"
" تم نے سنا؟ ۔ لیکن خبردار کسی سے نہ کہنا!"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔