گاؤں کے لوگوں نے فیصلہ کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
گاؤں کے موجودہ نمبردار اور سابقہ نمبر دار میں ٹسل چلتی رہتی تھی۔ گاؤں کے لوگ بھی اسکے عادی تھے۔ دونوں نے کبھی گاؤں کے لوگوں کی کسی بھلائی میں کوئی کام نہیں کیا تھا، مگر ایک دوسرے پر رعب رکھنے کو بہتیرے کام تھے۔ ایک نے گاؤں کے مزار پر چادر چڑھائی تو دوسرے نے سونے کے پانی سے نہلا دیا۔ ایک نے چار دیواری بنائی تو دوسرے نے گنبد بنوا دیا۔ گاؤں کے لوگ دونوں کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے کہ پیروں کی قبروں کے رکھوالے ہیں۔
پھر ایک تیسرا دعویدار آ گیا۔ اس نے گاؤں میں ایک پکا مکان بنوایا اور لوگوں کو کہا کہ نمبردار وہ ہوتا ہے جو گاؤں کا رکھوالا ہوتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کے کام آتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کی ساری فصلیں خود نہیں کھاتا، بلکہ گاؤں کے بھلائی پر خرچ کرتا ہے۔ کچھ لوگ اسکی باتوں میں آ گئے۔ کچھ نے اس کو بھی اگلا نمبردار سمجھنا شروع کردیا۔
پھر میلہ آ گیا۔ نمبرداروں کے کھیل مقابلے شروع ہو گئے۔ گاؤں کے سارے لوگ اس بات کے قائل تھے کہ جس نمبردار کے گھوڑے اور کتے بازی لے جائیں گے وہی انکا بھی مالک و مختار ہوگا۔ تیسرے دعویدار کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھی پر امید نظروں سے اپنے "ہونے والے نمبردار" کا منہ تک رہے تھے۔ اس نئے امیدوار کو پہلی بار احساس ہوا کہ گاؤں کے لوگ اسی کو نمبردار مانتے ہیں جس کے پاس گھوڑے اور کتے ہوں۔ وہ مایوس میلے سے واپس آ گیا۔
گاؤں کے باقی دو نمبرداروں کے پاس سو سو گھوڑے اور سو سو کتے تھے۔ نئے امیدوار نے ایک ایک کر کے انکے گھوڑوں اور کتوں کی بولی لگانا شروع کردی۔ اگلے میلے سے پہلے اس کے پاس بھی گھوڑے اور کتے جمع ہونا شروع ہو گئے۔
نیا امیدوار اب خؤش تھا کہ اس کے ساتھی گاؤں والوں کی مصیبت کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ انکی زندگیوں کو بہتر کرنے کی آخری شرط بھی وہ پوری کرنے والا تھا۔ اسکو بس اگلے میلے کا انتظار تھا۔
مگر یہ کیا؟ جیسے ہی اگلے میلے کا بگل بجا۔ اور نئے امیدوار نے اپنے گھوڑے اور کتے نکالے۔ اسکے ساتھی گاؤں والوں کو اپنے دکھ یاد آ گئے۔ کسی کو یاد آیا کہ فلاں گھوڑے نے اسکو دولتی ماری تھی۔ دوسرے کو یاد آیا کہ بھورے کتے نے اسکی بکری کا بچہ پھاڑ کھایا تھا۔ تیسرے نے بتایا کہ نئے خریدے گئے بولی نے تب اس کی ٹانگ پر کاٹا تھا جب وہ دوسرے نمبردار کا چہیتا تھا۔
نیا امیدوار حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ وہ گاؤں کے لوگوں کی ذہنیت پر پریشان تھا۔ جن گھوڑوں اور کتوں کو اس نے خریدا تھا وہ وہی تھے جن کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اس کو نمبردار ماننے پر راضی نہیں تھے۔ اب جبکہ وہی گھوڑے اور کتے اس کے پاس ہیں تو یہ لوگ شاکی ہیں۔
اس نے گاؤں کے لوگوں کے سامنے سوال رکھ دیا۔ یا تو وہ اپنا نمبردار گھوڑوں اور کتوں کی بنیاد پر چننا بند کردیں۔ یا پھر اس کے اصطبل میں گھوڑوں اور کتوں کو آنے دیں، اور اس پر یقین رکھیں کہ باقی نمبرداروں کی طرح وہ اپنے کتے غریبوں پر نہیں چھوڑے گا۔
گاؤں والے بھی پریشان ہیں۔ وہ اپنی غلطی تو نہیں مان رہے۔ مگر انکو اسکا بھی یقین نہیں کہ کتے اپنا کتا پن پچھلے مالک کے پاس چھوڑ آئے ہونگے۔ کتے تو کتے ہوتے ہیں۔
گاؤں والوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ نئے نمبردار کے ساتھ پرانے کتوں کو قبول کریں، یا پرانے نمبرداروں میں سے کسی کو اپنی بکریاں اور فصلیں کھانے کی قیمت پر اپنے گاؤں کا مالک بنا دیں۔
٭تمثیل قطعاً غیر سیاسی ہے ، کسی کتے سے مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“