آٹھ سالہ ریڈ، شان چی اوپرا کے ایک طائفے کی رکن تھی اور مرکزی گلوکارہ کا کردار ادا کرنے کی ماہر تھی۔
ریڈ نے آٹھ سال کی عمر سے ہیروئین کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اس نے تقریباً تیس، چالیس کردار ادا کیے تھے مگر ڈرامہ "سرخ لالٹین کی داستان" جو "ثقافتی انقلاب" کے دوران بیجنگ اوپیرا میں دکھا یا گیا تھا، میں اس کا "لی تائی می" کا کردار اس کی پہچان بن گیا تھا۔ وزارتِ طباعت نے اس کردار کے میک اپ میں اس کی تصویر کو "جشنِ بہاراں" کی تقریبات کی نمائندہ تصویر کے طور پر چھاپنے کے لیے منتخب کیا تھا۔ بہت سارے لوگوں نے یہ تصویر اپنے گھروں میں آویزاں کی ہوئی تھی۔
آج کل ریڈ ریٹائر ہوچکی تھی اور اپنے گھر میں ہی رہتی ہے۔ اس کی تنی ہوئی جلد اور دُودھیا نرم رنگت اب ڈھل چکی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اپنی باقی ماندہ شہرت کی مدد سے بچوں کے لیے ڈرامہ کلاس کا آغاز کرے اور پُرامید ہے کہ اسے اس کام کے لیے مالی امداد مل جائے گی۔
مگر اب اس کی ٹانگیں پہلے کی طرح رقص کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اس کا چہرہ بھی پہلے جیسا دلکش نہیں رہا۔ اب تک وہ ایک پائی بھی جمع نہیں کرسکی۔
ریڈ کی پوتی، جو کالج میں پڑھتی تھی، نے انٹرنیٹ پر کوئی خبر بنا کر لگائی تھی۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ریڈ گھر میں آرام سے بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو ایک روایتی کاروباری شخص کی شبیہ نمودار ہوئی۔ جب وہ شخص اندر آیا تو کچھ لمحوں کے لیے اس کی آنکھیں ریڈ پر جم کر رہ گئیں۔ اپنی آمد کا مقصد بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ بچوں کے ڈرامہ سکول کے لیے اپنا تعاون پیش کرنے کے لیے آیا تھا۔
ظاہر ہے کہ ریڈ یہ سن کر بہت خوشی ہوئی اور اس نے مہمان کو زیادہ تپاک کے ساتھ خوش آمدید کہا ۔ آدمی نے اپنے بازو کے نیچے سے چمڑے کی تھیلی برآمد کی۔ اس کی زپ کھولی، نوٹوں کی ایک بڑی سی گڈی نکالی اور قرینے سے میز پر دھر دی۔
"یہ ایک لاکھ یوآن ہیں" اس نے ریڈ سے کہا "یہ میرے عطیے کی پہلی قسط ہے ۔ باقی کے دو لاکھ یوآن میں کچھ اقساط میں دوں گا"
یہ صرف اور صرف خواب ہے" ریڈ نے نوٹوں کا ڈھیر اتھایا اور ان کا معائنہ کرنے کے لیے عینک لگالی۔
"گھبرائیں مت یہ جعلی نہیں ہیں" آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
اس نے آدمی کا نام پوچھا ۔ اس نے ہنستے ہوئے جواب "اس کے بارے میں فکر مند نہ ہوں ۔ میں ایک عام آدمی ہوں"
"اچھا! تو پھر تم شاب چی اوپیرا کے بہت بڑے مداح ہوگے" حیران کن طور پر اس نے اس کے جواب میں بھی انکار میں سر ہلا دیا۔
"تو پھر تم یہ سب کیوں کررہے ہو؟ اگر تم مجھے اس کی وجہ نہیں بتا سکتے تو پھر میں معزرت خواہ ہوں کہ میں یہ رقم قبول نہیں کرسکتی ۔"
آدمی کے چہرے پر پریشانی کے آثار پھیل گئے۔
"میں بیس سے تیس سال کی عمر کے درمیان مزدور کیمپ میں اصلاع کے لیے قید رہا، تمہاری وجہ سے۔ یہ تیس سال پرانی بات ہےـ تب میں ایک کارخانے میں مزدور تھا، تمہیں یاد ہے وہ پوسٹر جو تم نے "لی تای می" کے روپ میں بنوایا تھا؟ وہ پوسٹر ہماری مشترکہ خواب گاہ میں آویزاں تھا، تب تم بالکل جوان تھی ۔"
اس نے ایک نظر ریڈ کو دیکھا جو بوڑھی اور کمزور ہوچکی تھی ۔ پھر آہ بھرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی "اس کمرے کے مکین ہم آٹھوں تمہارے مداح بل کہ پرستار تھے۔ مگر تمہیں سب سے زیادہ پسند کرنے والا میں تھا، لیکن ایک دن میں نے ایک احمقانہ حرکت کردی،آج بھی جس کے بارے میں سوچ کر میرا چہرہ سُرخ ہوجاتا ہے"
مہمان نے توقف کیا، پھر بات جاری رکھی "روز جب ہم کام پر روانہ ہوتے تو میں کمرے سے نکلنے والا آخری فرد ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں تمہیں خدا حافظ کہنا چاہتا تھا۔ میری الوداعی رسم تمہارے ہونٹوں کا بوسہ ہوتی، ظاہر ہے میں تمہارے پوسٹر کے ہونٹوں پر بوسہ دیتا۔ بعد ازاں میرے دوستوں نے سب کو میری اس حرکت کے بارے میں میں بتا دیا۔ میں کئی سال تک ان ہونٹوں کو اتنی مرتبہ چوم چکا تھا کہ ان کا رنگ دھندلا گیا اور اس سے انہیں شک ہوا۔ بالآخر ایک دن جب میں انہیں بوسہ دے رہا تھا تو دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ کھل گیا اور مجھے فوراً حراست میں لے لیا گیا،مجھ پر بد کرداری کا مقدمہ چلا اور سزا ہوئی ۔"
کتنی عجیب بات ہے "پھر مزدوری کے کیمپ میں تم نے محنت کی اور تم امیر ہوگئے ۔" ریڈ نے کہا " جیسے مونٹی کر سٹوکر کا نواب ہوا تھا ۔ پھر تم نے ایک کمپنی بنالی اور جب آزاد ہوئے تو کاروبار شروع کر دیا"
آدمی ہنسا "مونٹی کرسٹو کے نواب کو اتفاقاً دولت مل گئی تھی، ایسی بات کوئی ناول نگار ہی سوچ سکتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے اپنی قسمت سنوار نے کے لیے رہائی کا انتظار کرنا پڑا ۔ میری نوکری تو چلی گئی تھی اس لیے مجھے سمندر پر روانہ ہونا پڑا، اور میں تھوڑا تھوڑا کر کے ساری کمائی کی"
ریڈ نے اپنی مداح کا عطیہ قبول کرلیا اور کچھ ہی دنوں میں ریڈ کے فنون لطیفہ کے سکول نے جوان ہوگئی تھی ۔ بعد ازاں جس دو لاکھ یوآن کی امداد کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا وہ دو قسطوں میں سکول کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرادی گئی۔
اس دن اس آدمی کے جانے سے پہلے کچھ ہوا تھا، اس نے ریڈ کو بوسہ دیا تھا۔ ریڈ کو اپنی پاؤں کے ناخنوں تک اس کا احساس ہوا تھا۔ جب اسے سیڑھیوں سے اوپر آتے ہوئے قدموں کی آواز آئی تو وہ اس خواب سے نکل آئی اور مہمان کو پیچھے دھکیل دیا۔ "میری پوتی آرہی ہے"اس نے کہا "جاؤ، جلدی!"
پھر وہ کمرے میں جاکر اپنے بستر میں لیٹ گئی اور رونے لگی۔ـ
مشمولہ:
کتاب: معاصر چینی افسانے
انتخاب و ترجمہ : منیر فیاض
پبلیشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد