آج کل گنے کی سفید مکھی نے پنجاب کے کئی ایک اضلاع میں کاشتکاروں کو خاصا پریشان کر رکھا ہے اور کماد کی فصل کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے. ویسے تو کپاس پر بھی سفید مکھی حملہ آور ہوتی ہے لیکن گنے کی سفید مکھی، کپاس کی سفید مکھی سے بالکل مختلف ہے۔
کاشتکار امیڈا سے لے کر کلوری تک ہر طرح کے ٹوٹکے آزما چکے ہیں لیکن مکھی ہے کہ جان نہیں چھوڑتی. پچھلے سال جن کاشتکاروں کی فصل پر گنے کی سفید مکھی کا حملہ ہوا تھا وہ بتاتے ہیں کہ حملے کی وجہ سے ان کی گنے کی پیداوار متاثر ہوئی اور گڑ بھی اچھی کوالٹی کا نہیں بنا. گزشتہ روز گنے کے ایک کاشتکار نے اپنی متاثرہ فصل کی یہ تصویریں بھیجی ہیں. آپ بھی ان تصویروں کو غور سے دیکھ لیں.

اس تصویر میں یہ جو سفید سفید نشان سے نظر آ رہے ہیں یہ گنے کی سفید مکھی کے بچے ہیں جو بالکل ملی بگ کی طرح نظر آتے ہیں. جب آپ حملہ شدہ پتے پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو آپ کے ہاتھوں کو سفید سا سفوف لگ جاتا ہے. حملے کی صورت میں پتے پیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پتوں کے کناروں گلابی یا آتشی آتشی نظر آتے ہیں.

اس دوسری تصویر کو اگر آپ غور سے دیکھیں تو گنے کی سفید مکھی کے بچوں نے ایک لیس دار سا مادہ خارج کر رکھا ہے جو ذائقے میں چینی کی طرح میٹھا ہوتا ہے. اگر آپ دیکھیں تو یہ شربتی مادہ تھوڑا تھوڑا چمک بھی رہا ہے. اس شربتی مادے پر پھپھوندی (سُوٹی مولڈ) آ کر پرورش پانا شروع کر دیتی ہے. سُوٹی مولڈ پھپھوندی کا رنگ کالا ہوتا جس کی وجہ سے پتا بھی کالا سا ہونا شروع ہو جاتا ہے.

اگر آپ اوپر والی تصویر کو دیکھیں تو اس میں پھپھوندی نے پتے کو کالا کر رکھا ہے.
لہذا اگر آپ کے ہاں گنے کی فصل پر بھی اسی طرح کی علامات ہیں تو پھر سمجھ لیں کہ یہ گنے کی سفید مکھی کا ہی حملہ ہے.
گنے کی سفید مکھی کماد کا اہم کیڑا نہیں تھا لیکن مجموعی نمی میں اضافے کے باعث حالیہ سالوں کے دوران جولائی سےستمبر کے درمیان اس کا حملہ زیادہ شدت کے ساتھ ہونے لگ گیا ہے۔ تا ہم اس کا حملہ یکساں نہیں بلکہ ٹکڑیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کماد کی فصل گھنی ہو تو حملہ کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ حملے کی صورت میں اوپر والے پتوں کی نچلی سائیڈ پر نہ صرف گول نشان بن جاتے ہیں بلکہ اس شدید حملے کے نتیجے میں ستمبر اکتوبر میں کماد کے پتوں پر اُلّی لگ جاتی ہے اور پتے کالے ہو جاتے ہیں۔ بعض اقسام مثلا” یو ایس 658، ایچ ایس ایف 240 اور ایچ ایس ایف 248 اور سی پی ایف 243 پر اس کا حملہ کم ہوتا ہے جبکہ سی پی ایف 247اور213 پر زیادہ ہوتا ہے۔ حملے کی شدت کا انحصار اگرچہ گنے کی اقسام اور موسمی حالات پر زیادہ ہوتا ہےلیکن یوریاکھاد زیادہ تاخیر سے ڈالی جائے تو سفید مکھی کا حملہ زیادہ شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔
بہتر حل:
اس کا بہتر حل تو یہی ہے کہ کماد پر رس چوسنے والے کیڑوں کو مارنے والی کوئی بھی زہر سپرے کر دی جائے۔ لیکن اس مرحلے پر کماد چونکہ بڑا ہو چکا ہوتا ہے اس لئے اس پر سپرے کرنا کافی دشوار ہوجاتا ہے اس لئے مختلف تدابیر کر کے اسے کنٹرول کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔
پہلا حل:
کپاس کی مکھی کونفیڈارسے تلف نہیں ہوتی لیکن گنے کی مکھی سے بچاو کے لئے بوم سپرئیر کی مدد سے کوننفیڈار یا لانسر گولڈ یا اس کے متبادل زہر کماد کے ارد گرد یا پورے کھیت میں سپرے کی جا سکتی ہے۔ اگست ستمبر میں ٹریکٹر کے بغیر سپرے کا عمل انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بجائی کے وقت ہی ہر چار چار کنال کے بعد ٹریکٹر گزرنے کے لئے جگہیں چھوڑی جائیں۔
دوسرا حل:
اگر دو لٹر لارسبین (کلور پائری فاس) کے ساتھ فینائل کی 50 یا ڈیٹیا گیس (ایلومینیم فاسفائڈ) کی 30 گولیاں ایک ڈرم میں ڈال کر دوپہر کے وقت آبپاشی کے ساتھ فلڈ کی جائیں تو سفید مکھی سے کافی حد تک نجات مل جاتی ہے۔
تیسرا حل:
بعض کاشتکار ایک لٹر کیوراکران، 250 ملی لٹر سائپر میتھرین یا ڈیلٹا میتھرین اور 600 ملی لٹر ٹرائی ایزوفاس ملا کر فلڈ کرتے ہیں۔ بعض کاشتکار 800 گرام لانسز گولڈ (ICI) دوپہر کے وقت آبپاشی کے ساتھ فلڈ کر کے سفید مکھی سے نجات حاصل کرتے ہیں۔
چوتھا حل:
اگست یا ستمبر کے دوران شام کے وقت 15 کلو گرام تھائمٹ (سوات ایگرو ) 200 لٹر پانی میں حل کر کے آبپاشی کے ساتھ فلڈ کر دی جائے۔ اگلے دن یہ زہر دھوپ نکلنے پر بخارات چھوڑتی ہے جس سے سفید مکھی، گھوڑا مکھی تلف کرنے کے ساتھ ساتھ چوہے بھی مر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ زہر دھوپ میں استعمال کرنے سے انسانی جان کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لئے جب بھی استعمال کی جائے پوری احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ کی جائے۔
تحریر و سفارشات
محمد عاشق، ماہر زراعت، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ، فیصل آباد
تحریر و تصاویر
ڈاکٹر شوکت علی، ماہر توسیع زراعت، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد