اسلم بہت دنوں سے اپنے ابا سے نئے جوتوں کی فرماش کررہا تھا مگر جمیل ہر بار اسے ٹال رہا تھا ۔جمیل ایک دفتر میں معمولی ملازم تھا ۔بینک سے قرض لے کر بڑی مشکل سے چھت میسر ہوئی تھی ۔ہر ماہ بپنک کی قسط اسے مہاجن کی یاد دلاتی ،فرق صرف اتنا تھا کہ مہاجن گھر آکر سود سمیت اصل وصول کرتا جبکہ اسے خود بینک جاکر قسط ادا کرنی پڑتی ۔۔ورنہ مکان کی قرقی کا خدشہ اور اس سے بڑھ کر اڑوس پڑوس میں جو عزت بنائے رکھی تھی اس کے جانے کا خوف۔
حسب سابق آج بھی تنخواہ ملی تو سب سے پہلے جدید مہاجن کا قرضہ ،مختلف بلوں کا بوجھ اور قلیل آمدنی کے باوجود سرکار کا حصہ الگ کیا ۔۔ضروریات زندگی کا تخمینہ لگانے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ ۔۔اب کی بار ۔۔جوتوں کی مار ۔۔نہیں ہوگی لہٰذا اُس نے اپنے بیٹے اسلم کو مژدہ سنایا کہ ۔۔،،بیٹا ! چلو شام میں تمہیں نئے جوتے دلاتے ہیں ،،
اسلم کا دل بلیوں اچھلنے لگا ۔وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگا کہ دوستوں کے درمیان نئے جوتے پہن اکڑ کر چل رہا ہے ۔۔۔۔منظر بدلا ۔۔ایک شادی کی تقریب میں اس کے دوستوں کی نظر اس کے چہرے سے زیادہ اس کے جوتوں پر گڑی ہوئی ہیں ۔۔اسے احساس برتری ہونے لگا ۔۔ہائے ! احساس بھی کیا چیز ہے !! پیروں سے زمین چھوڑ دیتا ہے ۔
سر شام اپنے ابا کے ساتھ جوتوں کی دکان میں داخل ہوا ۔دکاندار اسے مختلف جوتے دکھاتا رہا مگر اس کی نظر میں کوئی جچتا ہی نہیں تھا ۔۔دراصل دیرینہ خواہش پوری ہو تو اس میں بہتر کو عنصر شامل ہو جاتا ہے ۔۔یہی کیفیت اسلم کی تھی مگر جمیل کی مجبوری اس کا محدود بجٹ۔۔مہنگا جوتا دلانے سے وہ معذور تھا ۔اسلم نے ایک مہنگا جوتا پسند کیا مگر جمیل نے سختی سے اسے رد کر دیا ۔
اپنے لایعنی خوابوں کی تکمیل یوں منتشر دیکھتے اسلم منھ بسورے کاؤنٹر سے لگ کر باہر سڑک پر دیکھنے لگا ۔۔اس کی نظر فٹ پاتھ پر دوڑتی تھکی ماندی زندگی کی جوتیوں پر پڑی ۔۔ہر قسم کے جوتے ،چپل ۔۔سیاہ ،سرخ ،زردی مائل ،چاکلیٹی۔۔قیمتی ،اوسط درجے کے ،نئے پرانے ۔۔کچھ ایسے بھی تھے جو ریٹائر ہونے کے باوجود ریٹائر نہیں ہوئے یا نہیں کیے گئے ۔دفعتاً ایک کار سامنے کے فٹ پاتھ سے آلگی۔۔کار کی پچھلی سیٹ سے دو خوش جمال بچے اترے ۔۔۔آسودگی ان کے چہروں سے جھلک رہی تھی ۔آٹھ دس سال کی عمریں چند جستوں میں دکان کے کاؤنٹر سے لگ کر کھڑی ہوگئیں ۔۔ڈرائیونگ سیٹ سے ایک با رعب شخصیت اتر کر بچوں کے پاس آ کھڑی ہوئی ۔۔کچھ ہی دیر میں دکاندار مہنگے جوتے پیک کر رہا تھا ۔اسلم نے ایک عجیب بات دیکھی۔۔دونوں بچے خوش خوش جوتے خریدنے میں منہمک تھے جبکہ کار کی اگلی سیٹ پر ایک بارہ سالہ لڑکی حسرت و یاس سے دکان کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔اس کی آنکھوں سے احساس محرومی جھلکتا تھا ۔اسلم سے رہا نا گیا وہ تیز قدموں سے چلتا اس کے قریب آیا ۔۔
،،کیا بات ہے ؟۔۔تم دکان میں نہیں آئیں ؟؟،،
وہ اس کا منہ تکنے لگی ۔
،،کیا تمہیں اس دکان کے جوتے پسند نہیں ؟،،اسلم نے فوراً دوسرا سوال جڑدیا۔
وہ رنجور لڑکی اس کا جواب دینے کی بجائے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگی ۔
اسلم نے کھڑکی میں سے جھانک کر اس کے پیروں کی طرف دیکھا تو اس کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی ۔۔
لڑکی کے دونوں پیر گھٹنوں سے نیچے کٹے ہوئے تھے ۔!!