گنگوبائی ہرجیونداس جو کہ گنگوبائی کوتھیوالی یا گنگوبائی کاٹھیا واڑی کے نام سے مشہور تھی 1960 کی دہائی کے دوران ممبئی کے کامتھی پورہ علاقے میں ایک ہندوستانی طوائف اور کوٹھے کی میڈم تھیں۔
پیدائش۔۔۔۔
گنگا ہرجیونداس
کاٹھیاواڑ، برطانوی ہند
(موجودہ گجرات، انڈیا)
وفات۔۔۔
8 ستمبر 1977
ممبئی، مہاراشٹر، انڈیا
دوسرا نام ۔۔۔۔
گنگو بائی کوٹھی والی
گنگو بائی کاٹھیاواڑی
پیشہ۔۔۔
سیکس ورکر میڈم
حالات زندگی۔۔۔۔
گھر سے بمبئی بھاگنے کے بعد اسے اس کے خاوند رمنیک لال نے کم عمری میں ہی جسم فروشی میں فروخت کر دیا تھا۔ وہ کامتھی پورہ کی میڈم کے طور پر شہر میں ایک بااثر دلال ہونے کی وجہ سے مشہور ہوئی جس میں انڈرورلڈ کنکشن، منشیات کی فروخت اور قتل کا حکم دیا گیا۔ بعد میں زندگی میں (غالباً 1947-64 کے درمیان)، اس نے جواہر لعل نہرو سے ملاقات کی تاکہ جنسی کارکنوں کی حالت زار پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور ان کے حالات زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
حسین زیدی کی مافیا کوئینز آف ممبئی (2011) ممبئی کو متاثر کرنے والی تیرہ خواتین کی زندگیوں کے بارے میں معلومات پر مشتمل ہے۔ اس میں زیدی گنگو بائی کے بارے میں بھی معلومات دیتے ہیں۔ اس کے مطابق گنگوبائی کا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا اور انہیں فلموں میں کام کرنے کا جنون تھا۔ 16 سالہ گنگو بائی اور اس کے شوہر 28 سالہ رمنیک لال نے ممبئی بھاگ کر شادی کر لی۔ شادی کے چند دنوں کے اندر، اس کے شوہر نے اسے 500 روپے میں کنتن خانہ (کوٹھے) میں بیچ دیا۔ ہچکچاتے ہوئے، گنگو بائی نے طوائف کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں گنگو بائی کچھ کنتن خانوں کی سربراہ بن گئی۔ شوکت خان پٹھان نامی غنڈے نے اس کا مالی اور جسمانی استحصال شروع کر دیا۔ گنگوبائی اس وقت کے انڈر ورلڈ ڈان کریم لالہ کے پاس پٹھان کی شکایت کرنے گئی۔ لالہ نے اسے مدد کا یقین دلایا اور بدلے میں اسے راکھی باندھ دی گئی۔ اس کے بعد لالہ نے شوکت خان کو تنبیہ کی اور اسے بہت تکلیف دی کہ وہ آگے سے ایسا نہ کرے ۔۔۔
تب سے، 1960 کی دہائی میں کریم لالہ کی بہن کے طور پر گنگوبائی کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ اسی دوران کامٹھی پورہ میں سینٹ انتھونی گرلز ہائی اسکول قائم ہوا۔ اس کی وجہ سے کوٹھے کو منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔ گنگوبائی نے اس کی شدید مخالفت کی اور مؤثر طریقے سے اپنا مقدمہ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے سامنے پیش کیا اور اس کے نتیجے میں کوٹھے کو منتقل نہیں کیا گیا۔جواہر لال نہرو سے بات کرتے دوران وہ ایک جسم فروش نہیں بلکہ ایک عورت ایک ماں ایک رہنما کے طور پر روئی کہ اسے اس کے جیسی عورتوں کو مکمل حق دئیے جائیں ۔۔۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جواہر لال نہرو اس کی باتوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے کوٹ پر لگے گلاب کے پھول کو اپنے ہاتھوں سے اتارا اور اور گنگو بائی تو پیش کیا ۔۔۔۔
اس دوران گنگو بائی جسم فروشی کے کاروبار میں یتیموں اور خواتین کے مختلف مسائل کے لیے بھی کام کر رہی تھیں۔اس نے بچوں کو سکول میں تعلیم دلوائی ۔اس نے ان عورتوں کو ایک سماجی حثیت سے جینا سیکھایا جو جسم فروشی کی وجہ سے بدنام تھیں۔ گنگوبائی نے بہت سی نوجوان خواتین کو مشورہ دیا اور واپس بھیج دیا، جو فلموں میں کام کرنے کے لیے اپنے گھروں سے بھاگ گئی تھیں اور جسم فروشی میں پھنس گئیں۔ اسی وجہ سے ہر کوئی گنگوبائی گنگا ماں (ماں) کے نام سے پکارتا تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کی تصاویر اور مجسمے علاقے کے کوٹھوں میں لگائے گئے تھے۔وہ خود جس شہر میں ہیروئن بننے کے لیے بھاگی تھی اسے کیا پتہ وہ کتنوں کی اور کن جیسوں کی ہیروئن بنے گی ۔۔۔اور سارا تھیٹر ہی اپنے نام کر لے گی ۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...