30۔ جنوری1971 کودو کشمیری نوجوانوں۔ ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے انڈین ائیر لائن کا طیارہ گنگا جوسری نگرسے جموں جارہا تھا کواغواکرکے اسے لاہورائیرپورٹ پراترنے پرمجبورکردیا تھا۔ جنرل یحی خان کی حکومت تھی۔ فوجی حکومت اورشیخ مجیب الرحمن اوربھٹو کےمابین اقتدارکی منتقلی کے لئے سہ فریقی مذاکرات چل رہے تھے۔ گنگا اغوا نے ان مذاکرات سے یکا یک توجہ ہٹا کر اسے کشمیر کی آزادی کی طرف موڑ دیا تھا۔ لاہورمیں جہاں یہ اغوا شدہ طیارہ اتارا گیا تھا اغوا کاروں کے حق میں بہت زیادہ جوش و خروش تھا۔سیاسی اورسماجی تنظیمیں سڑکوں پرجلسے جلوس نکال کراغوا کاروں کی بہادری اورشجاعت کی داد دے رہی تھیں۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی مقبولیت عروج پرتھی وہ بھارت مخالف نعرے بالخصوص پنجاب کی حد تک لگانے میں پیش پیش تھے۔بھٹو نے ائیر پورٹ پر گنگا کے اغواکاروں سے ملاقات کی اورطیارہ اغوا کرنے پر ان کی تحسین کی تھی۔
اغواکاروں نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بھارت کی جیلوں میں قید کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جو بھارت سرکار نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستانی حکام اوراغواکاروں کے مذاکرات کے نتیجے میں جہازکےمسافر رہاکردیئے گئے تھے لیکن ہاشم قریشی اوراشرف قریشی نے جہاز کو آگ لگادی۔ جہاز کے آگ لگانے کے واقعہ کو پریس میں بہت زیادہ کوریج دی گئی اورعوام نے اغواکاروں کے اس فعل کو بہت زیادہ سراہا تھا۔
بھارت نے گنگا اغوا کیس کا الزام پاکستان پر لگا کر اپنی فضائی حدود سے پاکستانی طیاروں کی اڑانوں کے گذرنے پر پابندی کردی اوریوں مغربی اورمشرقی پاکستان کے مابین فضائی روابط کو بہت حدتک محمدودکردیا۔ اب پاکستان جہازوں کو مشرقی پاکستان جانے کے لئے بھارت کی بجائےسری لنکا کی فضائی حدود استعمال کرنا پڑتی تھی جس سےایندھن اور وقت زیادہ لگتا تھا۔جب مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 میں پاکستان کی فوج نے فوجی ایکشن شروع کیا تھا تو فوجی سازو سامان اورفوجیوں کو وہاں پہنچانے میں بھارت کی فضائی حدود پروازوں کے لئے بند ہونے سے پتہ چلا کہ گنگا جہاز کے جلانے کے نتایئج پاکستان کی سالمیت کے لئے کس قدر سنگین تھے۔
گنگا اغوا کیس کے بعد کچھ ہفتوں تک دونوں اغواکار اوران کے ہینڈلرزپاکستان عوام کے ہیرو بنے رہے تھے لیکن جلد ہی پاکستانی حکام خواب غفلت سے جاگے اور انھیں اس اغوا سے سازش کی بو آنے لگی چنانچہ جسٹس نورالعارفین کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس نے گنگا اغوا کو سازش قرار دیا تھا۔ انکوائری کمشین کی سفارشات کی روشنی میں کشمیری کارکنوں کی پاکستان بھر میں گرفتاریاں ہوئیں اور سات ارکان جن میں مقبول بٹ بھی شامل تھا کو گنگا جہاز کے اغوا کا ملزم قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ عدالت نے چھ ملزموں کو ریا کردیا لیکن ہاشم قریشی کو سات سال کی سزا سنادی تھی دل چسپ امر یہ ہے کہ اشرف قریشی جو اس کا ہمراہی ملزم تھا اس کو بری کردیا تھا۔ ہاشم قریشی رہا ہونے کے بعد ہالینڈ چلا گیا اور اشرف قریشی پاکستان میں رہا اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کشمیر سٹڈیز میں پڑھاتا رہا اورکچھ عرصہ یہیں فوت ہوا تھا
گنگا اغوا کی یہ ساری کہانی بیان کرنےکا مقصد ہے کہ ہماری ریاستی پالیساں زمینی حقایق کی بجائے واہموں،خواہشات اورجذبات پر استوار ہوتی ہیں۔ ہمیں کچھ عرصہ بعد چلتا ہے کہ وہ تو سازش تھی۔
اب ذرا گنگا اغوا کے واقعہ اور کلبوشن کیس کا موازنہ کرتے ہیں۔ 2016 میں ہمارے سکیورٹی اداروں نے کلبوشن یادیو کو بلوچستان میں بھارت کے لئے جاسوسی اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوئی اور اسے بھارت کے خلاف ایک عظیم کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ کلبوشن یادیو کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اسے سزائے موت سنائی گئی۔ بھارت بین الاقوامی عدالت انصاف میں گیا۔پاکستان کی حکومت نے کروڑوں روپے فیس دے کر وہاں وکلا بھیجے لیکن غیر جابندار حلقوں کے مطابق قانونی محاذ پر پاکستان کی کامیابی مشکوک تھی۔ عدالت نے پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ یادیو کا مقدمہ شفاف انداز میں چلائے اور اسے سول عدالت میں اپنے دفاع کا حق دے۔ اس دفاع کے حق کے لئے صدر مملکت نے آرڈیننس جاری کیا لیکن یادیو نے یہ حق استعمال کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اب پاکستان مشکل میں پھنس گیا ہے بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے تو ہوم گراونڈ اس کے خلاف جاتی ہے اور اگر ہوم گراونڈ میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے بین الاقوامی میدان میں شکست اس کی منتظر ہے۔
اب کلبوش یادیو پاکستان کے لئے گلے میں پھنسی ہڈی بن چکا ہے نہ پاکستام اسے نگل سکتا ہے اور نہ ہی اسے اگل سکتا ہے۔ یادیو کی پھانسی بین الاقوامی سطح پر مسائل اورمشکلات کا باعث بنے گی اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہت زیادہ پیچیدہ ہوجائیں گے اور پھانسی نہ دینے کی صورت میں پاکستانی عوام کے سامنے حکومت اور ریاستی سکیورٹی ادارے ایکسپوز ہوں گے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...