ان میں کوئی بھی تھری پیس یا ٹُو پیس سُوٹ پہنے ہوئے نہیں تھا۔ کسی نے نیلی شلوار قمیض پر نیلی واسکٹ (جواب متکبر سیاست دانوں کے ساتھ مختص ہو چکی ہے) ملبوس نہیں کی ہوئی تھی۔ کسی کے چہرے پر رعونت نہیں تھی‘ اسی لئے جب ظہرانہ شروع ہونے کا اعلان ہوا تو کوئی پلیٹ ہاتھ میں لیکر دوڑانہ کسی نے کسی کو دھکا دیا۔ یہ ایک گائوں تھا۔ محرومیوں اور عُسرت کا شکار گائوں! لیکن دعوتِ ولیمہ کے شرکا تہذیب کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ اکثریت آرام سے بیٹھی رہی اور جو اُٹھے وہ قطار میں کھڑے ہو کر کھانا لیتے رہے۔ اور جنہوں نے کھانا لیا‘ اُنکی پلیٹیں اور پیٹ دیکھ کر ایک اور شہر یاد آیا نہ ایک اور برادری جو دونوں چیزوں کے لئے بدنامی کی حد تک ’’مشہور‘‘ ہے!
میرا عقیدہ ہے اور اس پر میرے شہری دوستوں نے ہمیشہ مجھے لعن طعن کی ہے اور کئی بار مارنے کُٹنے کا عزم کیا ہے کہ تہذیب ہمیشہ دیہات میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ وہیں سے اسکے سوتے پھُوٹتے ہیں اور جو کوئی بھی استفادہ کرتا ہے‘ انہیں سوتوں سے کرتا ہے۔ اب اگر تہذیب سے کوئی مبہوت کرنیوالی عمارتیں‘ مرمر‘ فانوس اور بیش قیمت سواریاں مراد لیتا ہے تو اسکی اپنی ہمتِ فکر ہے‘ لیکن تہذیب کا مطلب تو یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے بات کس طرح کرتا ہے‘ مہمان نواز کتنا ہے‘ مخلص کتنا ہے‘ جھوٹ کتنا کم بولتا ہے اور منافقت سے کتنا احتراز کرتا ہے۔ اہلِ دیہہ کو اس حقیقت پر ناز کرنا چاہئے کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رضاعت کیلئے شہر سے گائوں بھیجا گیا تھا
!
گائوں جانے کا ایک لازمی جزو قبرستان کی زیارت بھی ہے!
میرے کُہستاں تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
ایک زمانہ تھا کہ ہر قبرستان میں ایک راکھا ہوتا تھا۔ اس کی وہاں اپنی جھونپڑی ہوتی تھی جس میں وہ مستقل رہائش رکھتا تھا۔ خود رَو گھاس صاف کرتا تھا اور ہمیشہ یہ احساس دلاتا تھا کہ مُردوں کا زندوں سے تعلق کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے لیکن اب گائوں کے باشندے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے راکھے کا معاوضہ برداشت نہیں کر سکتے۔ شہروں میں دیہاڑی پر زیادہ رقم کی مزدوریاں مل جاتی ہیں چنانچہ قبرستان ڈرائونے ہو گئے ہیں‘ خود رَو گھاس قبروں کے کتبوں تک پہنچ گئی ہے۔
وہ گھاس اُگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہار
نہ جانے آرزوئیں اپنی دفن کی تھیں کہاں
کپڑے کانٹوں سے اَٹ جاتے ہیں جو گھنٹوں چبھتے رہتے ہیں۔ قبروں کے اندر جانے کیا ہو رہا ہے‘ لیکن کم از کم باہر کا ماحول تو خوفزدہ کرنے والا نہ ہو!
لیکن بات اور ہو رہی تھی۔ یہ قبریں اپنے سے دور نہیں جانے دیتیں‘ گائوں کے کئی گھروں کو مستقل قُفل لگ گئے ہیں۔ مکین شہروں میں جا کر بَس گئے ہیں لیکن یہ قبریں انہیں بلاتی رہتی ہیں۔ وہ ہر عید پر‘ ہر تہوار پر اور ہر موقع پر آ کر اُن کی قبروں پر ضرور جاتے ہیں جو زندگی میں بھی اُنکے منتظر رہتے تھے۔ ہاں! اُن کی بات اور ہے جو سمندروں کو پار کر کے دُور کے دیاروں میں آباد ہو گئے۔ انکا انتظار کرنیوالے انتظار کرتے کرتے قبروں میں جا لیٹے اور اُن سے یوں انتقام لیا کہ وہ جب دوسرے ملکوں اور دوسرے براعظموں سے پہنچے تو ان کیلئے صرف قبریں تھیں۔ لیکن یہ مکمل انتقام نہیں۔ موت کے بستروں پر لیٹ کر جب وہ آنیوالوں کا انتظار کرینگے‘ تو پتہ نہیں کیا ہو گا۔ ضروری نہیں کہ اُسی شہر میں رہنے کے باوجود آنیوالے آ پائیں۔ پتہ نہیں سانپ اور اونٹ انتقام کے حوالے سے کیوں ’’مشہور‘‘ ہیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ قبروں کے انتقام پر بھی غور کریں!
بچپن میں بڑوں سے کہانی سنتے تھے کہ چند طوطے ایک جنگل میں رہتے تھے۔ اُن میں سے ایک طوطا پردیسی تھا! وہ اکثر ٹھنڈی سانس بھرتا اور کہتا… ہائے میرا پیارا وطن! پھر وہ اپنے وطن کی شان میں ایسی اثر انگیز گفتگو کرتا کہ سُننے والے طوطوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ ایک دن تنگ آ کر طوطوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں اپنا وطن دکھائو۔ طوطا انہیں لے گیا۔ ایک گائوں سے باہر… ویرانے میں… ایک تالاب تھا۔ پانی سے لبالب بھرا ہوا۔ اُسکے کنارے پر ایک چھوٹا سا درخت تھا جس کی سب سے نچلی شاخ پر طوطے کا گھونسلا تھا۔ جب بھی تیز ہوا چلتی‘ شاخ ہلتی اور گھونسلے کا ایک حصہ تالاب کے پانی میں جا لگتا۔ طوطوں نے حیرت اور غُصے کے ملے جلے جذبات کیساتھ پوچھا کہ کیا یہ وہ وطن ہے جس کیلئے تم رات دن آہیں بھرتے تھے؟ طوطے کا سر فخر سے بلند ہوا‘ اسکے سبز گالوں پر سرخی دوڑی اور اس نے مکمل اعتماد سے جواب دیا کہ ’’ہاں! یہی میرا وطن ہے جس کے فراق میں میری ہر سانس پھانس کی طرح ہوتی تھی… اور جس کی یاد میں میں نے اتنے آنسو بہائے ہیں کہ آنکھوں کی روشنی‘ سفیدی میں ڈھلنا شروع ہو گئی ہے اس لئے کہ دنیا کا کوئی شہر‘ کوئی قریہ‘ کوئی جنت نظیر خطہ… میرے وطن کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘
شہروں میں ہر چند مہینے بعد کرائے کا گھر تبدیل کرنیوالی بابو مخلوق کو اُس مٹھاس کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا جو گائوں کے آبائی گھر میں سر سے پائوں تک ذائقے کی لَو دینے لگتی ہے! اب تو وہاں بھی دنیا بدل گئی ہے۔ جہاں صحن کے ایک طرف چھپر تھا‘ اور ریت بچھائی جاتی تھی جس کے اوپر گھڑونچی ہوتی تھی اور سبز گھڑے جن سے پانی رستا رہتا تھا… وہاں اب کچن اور باتھ روم بن گئے ہیں۔ گرمیوں کی دوپہروں میں جب سب سوئے ہوئے ہوتے تھے‘ گیلی ریت پر‘ سبزگھڑوں کے درمیان پڑی ہوئی دودھ کی پتیلی سے بالائی کی موٹی تہہ چُرا کر کھانے میں کتنا مزا تھا! اور یہ چوری چمچ سے نہیں انگلیوں سے کی جاتی تھی! رات کو جب دُودھ‘ دہی بننے کیلئے چاٹی (گَلنی) میں ڈالا جاتا تھا تو نانی یا دادی اس میں بچی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ڈال دیتی تھی‘ صبح دہی کیساتھ وہ روٹی کا ٹکڑا کھانے میں جو بے تابی اور سنسنی ہوتی تھی اس کا بیان کسی ناول یا نظم ہی میں ہو سکتا ہے! آجکل کے بچوں پر ترس آتا ہے جو دن کا آغاز ڈبل روٹی کے ’’سلائس‘‘ سے (جسے میری دادی جھاگ کہتی تھیں) کرتے ہیں۔ اور جن کی عیاشی کی معراج نُوڈل‘ پزا اور سٹیک ہے! انکے چہرے اُس سرسوں کی طرح زرد ہیں جسے انہوں نے دیکھا ہی نہیں! کیکر کے پیلے پھولوں کا تو انہوں نے نام ہی نہیں سُنا۔
میں نے ایک نوجوان سے کہا کہ تم کبھی دوپہر کو خالص گھی اور شکر کے ساتھ بھی روٹی کھا لیا کرو‘ وہ مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میں مریخ سے اُتری ہوئی مخلوق ہوں اور کسی اجنبی زبان میں گفتگو کر رہا ہوں! یہ وہ بچے ہیں جنہیں دیسی مرغی سے ’’بُو‘‘ آتی ہے اور صرف وہ مرغی کھا سکتے ہیں جس کی خوراک (فیڈ) کا اِس ملک میں کوئی کوالٹی کنٹرول نہیں! پورے ملک میں کسی کو معلوم نہیں کہ شیور (فارمی) مرغیوں کی خوراک کے اجزا کیا ہیں؟ مہذب ملکوں میں کیا ہو رہا ہے‘ یہ ایک الگ موضوع ہے‘ اِس وقت تو ہم بچوں کی قسمت پر آنسو بہا رہے ہیں! کڑھا ہوا دودھ اگر کبھی غلطی سے پی لیں اور اس میں بالائی کا ٹکڑا آ جائے تو ’’چھیچھڑا‘‘ کہہ کر ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں! ان میں سے اکثر نے گائیں بھینسیں ٹیلی ویژن پر یا درسی کتابوں کی تصویروں میں دیکھی ہیں۔ انہیں گندم کے ’’درخت‘‘ کی ’’اونچائی‘‘ معلوم ہے نہ یہ پتہ ہے کہ تربوز اور خربوزے کِن ’’پیڑوں‘‘ پر لگتے ہیں؟ کریلوں کا سالن کھانے والوں کو یہ احمق سمجھتے ہیں۔ کڑوی زہر چاکلیٹوں کو مٹھائی سمجھ کر کھانے والے یہ بچے نُگدی سے واقف ہیں نہ انہوں نے بتاشے کھائے نہ مچھلی کی شکل والی سنگتریاں‘ نہ مکھانے اور نہ وہ چنے جو چینی میں ملفوف ہوتے تھے۔ قدرت نے بھی ان کے ساتھ ستم ظریفی کی کہ اب لسوڑے‘ انجیر اور بٹنگیاں اُگنا ہی بند ہو گئی ہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2009_10_01_archive.html
“