گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئئ!
پنجابی اور پٹھان ساگ کا فرق!
پالک ایک عام ساگ ہے لیکن غذائیت سے بھرپور، معدہ اور جگر کی اصلاح کرکے خون صالح پیدا کرتا ہے۔ اس کا سالن مرغ، گوشت اور دالوں اور پنیر کی آمیزش سے بھی پکتا اور لذیذ ہوتا ہے۔
سویا میتھی کا ساگ قیمے کے ہمراہ پکتا ہے اور شمالی ہند میں شوق سے کھایا جاتا ہے۔ میسور کے شاہی مطبخ میں پالک اور سویا کا ساگ اس قدر عمدگی سے پکایا جاتا ہے کہ کھانے والا انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔
ہرے ہرے دھنیے کی نازک پتیاں اور مہکتا پودینہ کھانوں کو سجانے اور مہکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہر کھانے میں ان کا بڑا ساتھ ہے ان کی بنی چٹنی مزدور کا من و سلوی ہے۔
آپ نے ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں وہ مقبول عام پنجابی گیت تو سنا ہی ہوگا-
گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئ
لہائ آں میں سجنا دے لئی
پنجاب کی اصل پہچان سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی سے بہتر اور کوئی نہیں،
تاریخ کے مطابق سرسوں کا ساگ پنجاب کے دیہاتیوں کی غذا تھا- اس پر گھر کے بنے مکھن کا تڑکا پنجاب کے زرخیز کھیتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لئے غذائیت سے بھرپور بہترین کھانا تھا- وہ دیسی گھی، دیسی مکھن، لسی، دیسی پنیر اور چھاچھ کی اتنی تشہیر کرتے کہ رفتہ رفتہ شہر پنجاب نے بھی اسے اپنانا شروع کردیا-
گندلاں دا ساگ بھی سرسوں کا ساگ ہی ہوتا ہے لیکن اس کا تنا موٹا ہوتا ہے اور اگر موٹا ڈنٹھل نہ ہو صرف پتے ہوں تو پھر سرسوں کا ساگ ہی ہوتا ہے۔
سرسوں کے ساگ کی دیسی پنجابیوں میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پردیس میں رہنے والوں کے لئے مچلز والے باقاعدہ ٹن پیک سرسوں کا ساگ تیار کرتے ہیں جس میں سرسوں کا ساگ پالک اور نمک وغیرہ شامل کر کے ٹن پیک کیا جاتا ہے- لیکن اس کی لذت تازہ سرسوں کے ساگ جیسی تو نہیں ہوتی-
کراچی میں سردی کے موسم میں بہت افراط سے ملتا ہے- سبزی والوں کے پاس بھی اور ہفتہ بازاروں میں بھی-
لیکن اس کو دو طریقوں سے پکایا جاتا ہے
پنجابی طریقے میں تو اس میں کچھ پالک اور سویا شامل کر کے لسی کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور خوب گھوٹ کر سموتھی جیسا کرلیا جاتا ہے- پھر اس میں دیسی گھی یا مکھن کے ساتھ لہسن کا بگھار بھی لگایا جاتا ہے-
روایتی طور پر سرسوں کے ساگ میں مسالے نہیں ڈالے جاتے بس ہلکا سا نمک، ادرک، پالک، ہری مرچ، سرسوں کا ساگ، میتھی اور بتھوے کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے۔ عموماً اسے ہلکی آنچ پر پانی میں پکاتے ہیں۔ سرسوں کا ساگ پکاتے وقت اسے اس وقت تک ہاتھ سے چلایا جاتا ہے جب تک اس میں مطلوبہ لطافت نہ پیدا ہو جائے۔اترپردیش میں لوگ ساگ کو پہلے ہلکا سا تلتے ہیں پھر اس میں ٹماٹر اور دہی ڈال کر پکاتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کا تیز چٹپٹا اور تلخ ذائقہ کم ہو جاتا ہے۔
جبکہ جو سرسوں کا ساگ مجھے پسند ہے اور میں خود ہی بناتا بھی ہوں وہ طریقہ یہ ہے کہ کچا کچا سا تازہ سرسوں کا ساگ ایک کلو لے کر اس کے موٹے ڈنٹھل کاٹ کر الگ کیجئے- یہ کم مقدار میں ہی زیادہ مزیدار بنتا ہے- ساگ کو کتر لیجئے- (کچھ لوگ اس میں ایک گڈی پالک اور میتھی بھی شامل کرتے ہیں لیکن مجھے پسند نہیں- ) اب ایک عدد بڑی پیاز بھی کتر لیجئے- کڑاہی یا بڑے فرائنگ پین میں تیل کڑکڑائیے اور اس میں پالک اور پیاز چھونک دیجئے- اب اس میں دو ٹیبل اسپون پسا ہوا لہسن ادرک کا پیسٹ ایک ٹیبل اسپون کٹی ہوئ مرچ اور نمک حسب ذائقہ ڈال کر اچھی طرح چلاتے جائیے- کچھ دیر میڈیم آنچ پر ڈھک کر ساگ کو اسی کے پانی میں گلنے دیجئے پھر ڈھکن ھٹا کر ہلکی آنچ پر بھونئے- مستقل چلانا ہے- کچھ دیر میں ساگ بھن کر تیار ہوجائے گا- اس کو گرما گرم دیسی گھی یا مکھن چپڑی روٹی سے کھائیے- مجھے تو یہی ساگ پسند ہے- سرسوں کا ساگ اگر آپ سردیوں میں ہر ہفتے کھائیں تو چہرہ لال کردیتا ہے- آئرن بہت ہوتا ہے-
ہماری لاہور کی ایک فرینڈ ہیں شہنا علی- بہت نفیس اور رکھ رکھائو والی خاتون ہیں- جب ہم نے ان سے سرسوں کے ساگ کی ترکیب پوچھی تو انہوں نے پنجابی اسٹائل ساگ پکانے کی ایسی لمبی چوڑی اور لوازمات سے بھری لمبی ترکیب بتائ کہ جس کو بنانے کے لئے تقریبا” پائے بنانے جتنا وقت درکار تھا- ان کا کہنا تھا کہ وہ پانچ کلو سے کم ساگ نہیں بناتیں کیونکہ پھر وہ بڑے اہتمام سے پڑوسیوں اور دوستوں کو بھی بھیجا جاتا ہے-
جب میں نے ان کو اپنی ترکیب بتائ تو کہنے لگیں کہ ہاں پٹھان ایسے ہی بناتے ہیں—