2013 میں ایک فلم آئی تھی” راجکمار”…اس کا ایک گانا”گندی بات” بڑا ہٹ ہوا تھا۔تب میرے چھوٹے پوتے کو یہ گانا بہت پسند تھا۔میں نے بچے کے شوق اور تربیت دونوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے بول کچھ بدل دیئے ۔”اچھے بچے کبھی نہیں کرتے گندی بات،گندی بات”….آج دس سال پرانی بات یاد آئی تو سوچا کبھی کبھی اچھے الفاظ میں گندی بات کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا۔میں نے اپنی مختلف تحریروں میں نہایت شائستگی کے ساتھ بعض گندی باتیں کر رکھی ہیں ۔ابھی تک ہم اس گروپ میں الہیاتی امور،تصوف،فلسفہ،سائنس،فلم،موسیقی،ادب تک کتنے ہی موضوعات پر اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق باتیں کر چکے ہیں ۔آج سوچا کیوں نہ کچھ ایسی باتیں یہاں شیئر کروں جو ہیں تو گندی باتیں لیکن انہیں اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس وقت اپنی کتاب “کھٹی میٹھی یادیں ” کے صرف ایک باب “اخلاقی قدریں اور ویاگرا ” میں سے چند اقتباس پیش کر رہا ہوں ۔جنہیں یہ سب برا لگے ان سب سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرتا ہوں ۔جنہیں مسکراتے ہوئے برا لگے انہیں سیلوٹ کرتا ہوں اور جنہیں یہ سب زندگی کا حصہ لگے ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔۔۔۔تمام تر ولگیریٹی کے باوجود الفاظ کا چناؤبہر حال سب کو شائستہ اور مہذبانہ لگے گا۔(حیدر قریشی)
” اخلاقیات کی ایک قسم تو عالمی اور دائمی نوعیت کی ہے، جو تمام مذاہب میں قدر مشترک ہے، تاہم کبھی کبھی انفرادی نوعیت کی اخلاقیات اپنا جواز خود لے کر آتی ہے غالباً 1975 ء کی بات ہے، بزم فرید خانپور کی مقامی نوعیت کی ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری تھا تب ہی ریڈیو پاکستان بہاولپور کی ریکارڈنگ ٹیم خانپور آئی نصراللہ خاں ناصر پروڈیوسر تھے ہم نے گورنمنٹ سکول حلقہ نمبر ۲میں ایک چھوٹے سے مشاعرے کا انتظام کیا صدارت کے لئے شیخ فیاض الدین کو مدعو کیا گیا جو خانپور کے تجارتی حلقوں کی معروف شخصیت تھے شاعری کے اچھے قاری اور سامع تھے مشاعرہ بعد از نماز مغرب ہونا تھا سو جیسے ہی مشاعرہ شروع ہونے لگا، شیخ فیاض کے دو ملازم، ایک نوجوان کو اس طرح پکڑے ہوئے اندر لائے کہ صرف قمیص نوجوان کے تن پر تھی اور اس کی دھوتی ایک ملازم کے ہاتھ میں تھی ملازموں نے یہ بتایا کہ یہ بدکار قریب کے ویرانے میں ایک گدھی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا اور وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لائے ہیں نوجوان کے چہرے پر خوف اور شرمندگی کے گہرے اثرات تھے شیخ فیاض نے اس نوجوان سے اس کے دو تین نجی کوائف دریافت کئے کوئی بے حد مفلوک الحال تھا شیخ فیاض نے اپنے ملازمین کو ڈانٹ کر کہا یہ اتنا غریب ہے کہ نہ تو شادی کر سکتا ہے نہ کوٹھے پر جا سکتا ہے ایسے حال میں یہ غلطی کر بیٹھا ہے تو تمہیں اس سے کیا نقصان پہنچا ہے، چلو اس کی دھوتی اسے واپس کر و پھر اس نوجوان سے بڑی ملائمت سے کہا جا بچے جا یہ واقعہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھا لیکن میں جزا، سزا کے جن تصورات کو بے حد اہمیت دیتا تھا، مجھے پہلی دفعہ ان میں معافی کی گنجائش محسوس ہوئی شیخ فیاض کے رویے کا میں کوئی جواز نہیں دینا چاہتا شاید دے ہی نہیں سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ تب سے مجھے شیخ فیاض بحیثیت انسان ہمیشہ اچھے لگے”
“چند سال پہلے بخش لائلپوری لندن سے جرمنی آئے میرے ہاں مقیم تھے ان سے جو باتیں ہوئیں ، ان میں ایک قصہ بے حد مزے کا تھا مغرب میں جنسی آزادی ( بے راہروی ) کا مغرب والوں کا اپنا الگ سا تصور ہے بچوں کے لئے طرح طرح کی گڑیائیں بنانے والوں نے بڑوں کے لئے بھی گڑیائیں بنا دی ہیں مارکیٹ میں ربڑ کی ایسی گڑیائیں دستیاب ہیں جن میں ہوا بھر دیں تو وہ پوری عورت بن جائے پاکستان سے ایک ادیب لندن گئے تو سیرو سیاحت کے ساتھ ربڑ کی گڑیا بھی خریدی پھر وطن چلے گئے چند دن کے بعد بخش لائلپوری کے نام ان کا خط آیا کہ وہ ربڑ کی گڑیا پنکچر ہو گئی ہے، تم جانتے ہو میں ایک معزز آدمی ہوں اس لئے کسی دوکان پر پنکچر لگوانے کے لئے نہیں جا سکتا تم مہربانی کرو اور ربڑ کی ایک اور گڑیا لے کر مجھے بھیج دو چنانچہ بخش لائل پوری نے ان کی فرمائش پوری کر دی تاہم بخش لائل پوری نے گڑیا کے پنکچر ہو جانے کا قصہ ایسے انداز سے سنایا کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے میں نے انہیں کہا آپ اس معزز ادیب کی فرمائش پوری کرنے کی بجائے اسے لکھتے کہ پہلے سائیکلوں کی مرمت کرنے والے کسی کاری گر کے شاگرد بنو، وہاں سے پنکچر لگانے کی تربیت حاصل کرو اور پھر خود ہی اپنے کئے ہوئے پنکچر ٹھیک کرتے رہو
ایک اور مزے کا واقعہ اکبر بابر ایڈو وکیٹ خانپور کے ممتاز وکلاء میں شمار ہوتے تھے اپنے ہی موڈ کے آدمی تھے شیخ فیاض الدین کی اور ان کی گہری دوستی تھی ان دنوں شیخ فیاض بلدیہ خانپور کے چیئر مین تھے اکبر بابر کا موڈ خوشگوار تھا، اپنی موج میں باتیں کر رہے تھے، اسی لہر میں کہنے لگے بلدیہ خانپور کے سارے کونسلرز Gayہیں ، سوائے ایک کونسلر کے ( انہوں نے Gay کی جگہ گاف سے شروع ہونے والا ایک سلیس سا لفظ کہا تھا جو اردو پنجابی اور سرائیکی تینوں زبانوں میں یکساں مستعمل ہے ) میں نے پوچھا جو کونسلر Gayنہیں ہے، کیا وہ شیخ فیاض ہیں ؟ کہنے لگے ہرگز نہیں وہ بھی گے ہے میں نے پوچھا کیا ثبوت ہے ؟ کہنے لگے میں خود ثبوت ہوں ۔ اس کے بعد میں ان سے کیا پوچھتا لیکن پھر خیال آیا اور میں نے آہستہ سے پوچھ ہی لیا کہ وہ خوش نصیب کونسلر کون ہے جو آپ کے بقول گے نہیں ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے چہکتے ہوئے کہا لیڈی کونسلر
ڈاکٹر وزیر آغا ایک بار اپنے صاحبزادے سلیم آغا کے ساتھ لندن کی سیاحت کیلئے گئے تھے ان کی واپسی پر میں اور ڈاکٹر پرویز پروازی ان سے ملنے کے لئے ان کے گاؤں وزیر کوٹ گئے وزیر آغا اور سلیم لندن کے احوال بتا رہے تھے پرویز پروازی،ڈاکٹر وزیر آغا کے ایج گروپ کے ہیں ، ان کے دوست بھی ہیں ، سو سلیم آغا ان کا بزرگوں کی طرح احترام کرتے ہیں یکایک پرویز پروازی نے سلیم آغا سے ایک شریر سا سوال پوچھ لیا سنا ہے کہ اصل انگلش نسل خواتین کا Bottom بندر کے Bottomجیسا ہوتا ہے آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے ٍ؟ سلیم آغا کا مزاج اس انداز کی باتوں والا نہیں ہے، چنانچہ اس اچانک اور بے باک سوال پر وہ شرما کر رہ گئے لیکن ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی ہی برجستہ معصومیت کے ساتھ کہاجس نے بندر کا Bottomہی کبھی نہیں دیکھا، وہ اس بارے میں کیا بتا سکتا ہے”