اس کا جواب اسکالر پروفیسر اشتیاق احمد یوں دیتے ہیں:
سب انسان انسان ہی ہوتے ہیں۔ ان سے غلطیاں اورعظیم خطائیں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ گاندھی واقعی مہاتما کیوں تھا۔۔ حالانکہ وہ انٹی جدیدیت تھا، اور سیاسی غلطیاں بھی اس سے سرزد ہوئی۔ ہم سب جانتے ہیں، گاندھی نے جناح سے بہت ترلا منت کیا کہ وہ تقسیم کی حمائت نہ کریں، کیونکہ اس سے بہت دوررس بحران اور تناو پیدا ہونگے، جن کا ہم تصور نہیں کرسکتے، اس کا کہنا تھا کہ ہم مسلمان اور ہندو ایک ہزار سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ اور برطانیہ کے جانے بعد بھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن جناح صاحب اپنی بات پراڑے رہے۔ نتیجہ ایک خون ریز بٹوارا ہوا ہے۔ جس میں دس لاکھ ہندو، مسلمان ، سکھ قتل ہوتے ہیں۔ ان گنت عورتیں اغواہ اور ریپ ہوتی ہیں۔ عورتوں کے جنسی اعضا کو نیزوں سے چیرا گیا، اور بچوں، بوڑھوں خواتین کو بے رحمی سے مار دیا گیا۔
مہاتما گاندھی نے ہزاروں مسلمانوں کواس وقت کلکتہ میں فسادات میں بچایا، جب کہ دہلی میں 15 اگست 1947 کی آزادی کی تقریبات ہورہی تھی۔۔ گاندھی کو جونہی کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کا علم ہوا، وہ وہاں جاتا ہے، ہندو مسلم ہجوم کے درمیان بیٹھ جاتا ہے۔۔ کہ ایک دوسرے کو مارنے سے پہلے مجھے مارو۔۔ اور یوں مسلمانوں کا بڑا قتل عام گاندھی نے اپنی ذاتی مداخلت سے روک لیا۔۔۔
پھر وہ کلکتہ سے جلدی میں دہلی آتا ہے، جہاں پر بھی مسلمانوں پر حملے ہوررہے تھے۔ اور مسلمان ہمایوں بادشاہ کے مزار میں پناہ لے رہے تھے۔ وہ ہندو اور سکھ جن کو مغربی پنجاب سے زبردستی نکالا گیا تھا، انہوں نے دھمکی دی کہ وہ مسلمان عورتوں کا ریپ کریں گے۔۔ اگر انہوں نے اپنے گھروں کو خالی نہ کیا اور پاکستان نہ بھاگے۔۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جو وفاقی وزیرتعلیم بھی رہ چکے ہیں۔۔ لکھتے ہیں۔ کہ انہوں نے اور دیگر دہلی کے مسلم عمائدین نے گاندھی کے پاس جا کرالتجا کی، کہ مسلمانوں کو بچائیں۔۔ چنانچہ گاندھی نے سرتوڑ کوشش کی کہ دہلی میں مسلمان محفوظ رہیں اور جو بھارت میں رہنا چاہتے ہیں، ان کو کوئی زبردستی نہ نکالے۔۔
گاندھی کا بیٹا رام داس ایک خط میں اپنے باپ پر الزام لگاتا ہے۔ کہ آپ مسلمانوں کو بچا رہے ہیں۔۔ جب کہ مسلمان ہندووں اور سکھوں کا قتل عام کررہے ہیں۔۔ بیٹا رام داس باقاعدہ اپنے باپ کو ہندووں کے لئے قابل نفرین قرار دیتا ہے۔
حالانکہ انڈیا تقسیم ہوچکا تھا۔۔۔ گاندھی اپنے مشن میں ہار چکا تھا۔۔ لیکن گاندھی نے اپنے دل میں کوئی زہر نہیں آنے دیا۔۔ وہ اپنے اصولوں پرڈٹا رہا۔۔ انڈین گورنمنٹ نے اپنے خزانے سے پاکستان کا حصہ 55 کروڑ روپے دینا تھا۔۔ جسے سردار پٹیل نے یہ کہہ کرانکار کردیا۔۔کہ پاکستان اس پیسے سے اسلحہ لے انڈیا کے خلاف جہاد کرواے گا۔۔ (پاکستان نے کشمیر پرحملہ بھی کروا دیا تھا)۔۔ پٹیل کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو اس وقت پیسا دیں گے۔ جب پاکستان ہندوستان کے ساتھ اپنی دشمنی کا خاتمہ کرے گا۔۔
لیکن گاندھی پھر اس پر ڈٹ گیا۔۔ کہ پیسے پاکستان کا حق ہے، لہذا اس کی ادائیگی میں کوئی شرط نہیں لگائی جا سکتی۔۔ حتی کہ گاندھی نے مرنے تک بھوک ہڑتال کردی۔۔۔ اور اس نے وہ بھوک ہڑتال اس وقت جھوڑی۔۔ جب انڈین حکومت نے پاکستان کو پیسے ادا کردیئے۔۔۔
گاندھی کی 'پرو مسلم' ان کوششوں کی وجہ سے۔۔ انتہا پسند ہندوں گاندھی کے دشمن ہوگے۔۔۔ 30 جنوری 1948 کو ایک ہندو انتہا پسند نے گاندھی کو گولی ماردی۔۔ یہ کہہ کرکہ تم ۔۔ مسلمانوں اور پاکستان کے ایجنٹ ہو۔۔۔ تم کو ہندووں اور ہندوستان کی کوئی فکر نہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ پاکستانیوں اپنے ضمیر کو تھوڑا سا جگاو۔۔۔ تم لوگوں نے کبھی گاندھی کے بارے ایک لفظ اچھائی میں لکھا یا بولا ہو۔۔۔۔۔ ہم ہندو دشمنی میں کتنے احسان کش، جانبدار اور متعصب ہو چکے ہیں۔