بارشوں کے موسم کتنے سہانے لگتے ہیں ،کمرے کی کھڑکی یا کوریڈور میں کھڑے بارش کی تیز اور آہستہ ہوتی رم جھم کتنی پر سکون ہوتی ہے اور کڑکتے بادلوں کی آواز بھی موسیقی لگتی ہے ،تیز آندھیوں کے جھکڑ آسمان سے زمین کا رخ کرتے ہیں تو ہم اپنی محفوظ چھتوں اور چاۓ یا کافی کی چسکیوں میں ملکی سیاست کے اتار چڑھاٶ پر غصہ نکالتے ہوۓ کہتے ہیں ”چھوڑو یار یہ سب ایک ہی حمام کے چٹھے بٹے ہیں تم دیکھو آج موسم کتنا زبرد ست ہے “پھر موضوع بدل جاتا ہے، مگر ان سب لوازمات کی موجودگی میں ہمیں کبھی وہ محنت کش کسان یاد نہیں آتا جس کی نگاہیں بار بار آسمان کو اٹھتی ہیں اور وہ جھولی پھیلا کر کھڑا ہے کہ ”اے رب کاٸنات آج بارش نہ کرنا میری سال بھر کی محنت زمین سے سر اٹھاۓ کھڑی ہے اور تری رحمت میری مری محنت کو بہا کر لے جاۓ گی“اس کی فریاد صرف اپنے مالک کے سامنے ہوتی ہے کوئی دوسرا اس کیفیت کو سمجھ ہی نہیں سکتا ،کھڑی فصلوں اور کھلے آسمان تل جب بارش کا مزہ لیا جاۓ تو کسی کے لیۓ بننے والی رحمت کسی دوسرے کے لیۓ زحمت کیسے بنتی ہے اندازہ ہوجاتا ہے ،تیز آندھیاں کسان کی فصلوں کو کیسے تہہ برد کر دیتی ہیں یہ بھی صرف محنت کش کسان کو بارش اور طوفان کے گزر جانے کے بعد پتہ لگتا ہے ،بند شیشوں میں بھاپ اڑاتے پکوان اس دھرتی پر ہرکسی کا نصیب نہیں ہوتے ، اس لیۓ قدرت ان سب نعمتوں سے نوازے تو گرم گرم کھانوں اور خوش گپیوں میں سے کچھ لمحے رب تعالی کی شکر گزاری کے لیۓ ضرور وقف کرنے چاہیں کہ اس نے اپنے بے شمار نعمتوں سے نوازا اور کھلے میدانوں میں محنت کی بجاۓ پھل کھانے واگوں میں شامل کیا