پورا ملک پچھلے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ سے جس سیاسی ہیجان کا شکار ہے اس کا ڈراپ سین ہونے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ کیا اپوزیشن اس نام نہاد تبدیلی کو رول بیک کرنے میں کامیاب ہو جائے گی یا وزیراعظم ان تندوتیز سیاسی موجوں کے تھم جانے کے بعد مزید مضبوط ہو کر سامنے آئیں گے؟ یہ ہیں وہ سوالات جو آج کل زبان زد عام ہیں۔ اوائل فروری میں میاں شہباز شریف کی ماڈل ٹاون والی رہائش گاہ پر زرداری صاحب اور چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی شہباز شریف اور دوسرے لیگی رہنماوں سے ہونے والی ملاقات کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر پر بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہونے لگیں، اس ملاقات میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس ملاقات کے بعد سیاسی ملاقاتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومتی اتحادیوں کے تیور بھی بدلے بدلے نظر آنے لگے، اس دوران چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے دس دن پر محیط ملکی تاریخ کے کامیاب ترین لانگ مارچ نے حکومت کی کمزور ہوتی ہوئی بنیاد پر ایک کاری ضرب لگائی اور یہ تاریخی لانگ مارچ سندھ، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہوا جس شاندار انداز میں اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا اس نے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کے ساتھ ہی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کر دی گئی۔
تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے ساتھ ہی اس کی کامیابی اور ناکامی پر تبصرے ہونے لگے اور اندازے لگائے جانے لگے ہیں۔ کچھ لوگ موجودہ وزیراعظم کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کا بی بی شہید کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی لیکن ان تجزیوں میں وہ یہ بنیادی بات اگنور کر جاتے ہیں کہ جب بی بی شہید کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو وہ عوامی مقبولیت کی معراج پر تھیں اور اس وقت بی بی شہید یا پیپلزپارٹی کو چھوڑنے کا مطلب اس رکن اسمبلی کی سیاسی زندگی کا خاتمہ سمجھا جاتا تھا جبکہ موجودہ وزیراعظم اس وقت اپنی حکومت کی بیڈ گورننس اور نااہلی کی باعث اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں جس کا واضح ثبوت ضمنی انتخابات اور خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی بدترین شکست ہے۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی شدید بے چینی اور تذبذب کا شکار ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے جلد ہی اس نااہل ترین حکومت سے کنارہ کشی اختیار نہ کی تو اگلا الیکشن جیتنا تو درکنار ان کے لیے اپنے حلقوں میں جانا اور عوام کا سامنا کرنا ہی مشکل ہو گا۔ یہی صورتحال اتحادی جماعتوں کی بھی ہے وہ بے شک ساڑھے تین سالوں سے اس حکومت کا حصہ ہیں لیکن اب حکومتی کشتی ڈوبنے کے آثار نظر آنے کے ساتھ ہی وہ اس ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں اور حکومت کی ناکامی میں حصہ دار بننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آنا اور کامیابی کے اس قدر قریب پہنچ جانا پیپلزپارٹی کے اس قائدانہ کردار کی بھی جیت ہے جو پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی تشکیل سے لے کر اور پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد بھی مسلسل ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو آج پیپلزپارٹی کے اسی موقف پر واپس آنا پڑا ہے جس موقف کی وجہ سے ان جماعتوں نے پیپلزپارٹی پر پی ڈی ایم کےدروازے بند کر دئیے تھے لیکن تاریخ نے آج ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کے موقف کو درست ثابت کیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اس کی کامیابی کے لیے کلیدی اور قائدانہ کردار اگر کوئی ادا کررہا ہے تو وہ بھی مرد حر آصف علی زرداری ہی ہیں۔ تمام اتحادیوں کو اپوزیشن کیمپ کے نزدیک لانے میں زرداری صاحب نے نہایت دانشمندانہ کردار ادا کیا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے بھی اپنی توپوں کا رخ زرداری صاحب کی جانب کر رکھا ہے اور کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں کہ زرداری صاحب میری بندوق کے نشانے پر ہیں۔
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد حکومت جس قدر بوکھلا چکی ہے اس کے آثار حکومت کی بدحواسی اور وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے لہجوں سے پوری طرح عیاں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی جانب سے جس طرح کی زبان استعمال ہو رہی ہے اور جس طرح کے ارادے ظاہر کئے جا رہے ہیں اس سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ سیاسی کشیدگی ایوانوں سے نکل کر گلی کوچوں اور بازاروں میں نہ پھیل جائے۔ وزیراعظم اپنی تقریروں میں جس طرح کی زبان استعمال کررہے ہیں وہ کسی طور پر بھی ایک وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہے۔ ایسی زبان گلی کے لونڈوں لپاڑوں کی تو ہو سکتی ہے کسی وزیراعظم کی نہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کہنا، غلط ناموں سے پکارنا اور ان کی نقلیں اتارنا ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعظم اعصاب کی جنگ ہار چکے ہیں اور شکست سامنے کھڑی دیکھ کر ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اگرپیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی تاریخی لانگ مارچ کے دوران کی جانے والی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ایک دن میں چھ سات تقریریں کرنے کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے کہیں بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی تقریروں میں سیاسی مخالفین پر کی جانے والی تنقید کو سیاسی ایشوز تک ہی محدود رکھا۔ بظاہر بہت مضبوط اعصاب کا دعوی کرنے والے وزیراعظم کی جانب سے اپنی حکومت جاتی دیکھ کر جس طرح کا رویہ اور لہجہ سامنے آیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے وزیراعظم خود اندر سے کس قدر کمزور اور کھوکھلی شخصیت کے مالک ہیں جو کرسی چھن جانے کے خوف سے شدید گھبراہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور اسی گھبراہٹ کے عالم میں جو کچھ ان کے منہ میں آ رہا ہے بغیر سوچے سمجھےبولے جا رہے ہیں۔
عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں اپوزیشن کے رہنماوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطے کیے ہیں وہاں وزیراعظم بھی اپنے اتحادیوں کے پاس چل کر گئے لیکن کسی بھی اتحادی نے وزیراعظم کو عدم اعتماد کی تحریک پر ساتھ دینے کے لیے مثبت اشارہ نہیں دیا۔ اتحادیوں کے سرد رویے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو اپنی جماعت کے اندر سے بھی بہت بڑی بغاوت کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ تیس سے پینتیس اراکین قومی اسمبلی حکومت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ یہی حال پنجاب اسمبلی کا ہے جہاں جہانگیرترین اور علیم خان ایک بڑے گروپ کی صورت میں حکومت کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ تادم تحریر صورتحال یہ ہے کہ تمام اتحادی جن میں ق لیگ، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور جی ڈی اے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا ذہن بنا چکے ہیں اور کسی بھی وقت پریس کانفرنس کرکے حکومت چھوڑنے اور تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کر سکتے ہیں بلکہ جب تک یہ کالم شائع ہو گا ہو سکتا ہے کہ یہ پریس کانفرنس ہو بھی چکی ہو۔ اتحادیوں کی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکومت کی اکثریت ختم ہوکر رہ جائے گی اور تحریک عدم اعتماد صرف رسمی کاروائی بن کر رہ جائے گی۔
حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے مقرر کیے جانے والے دن سے ایک دن پہلے ڈی چوک میں جلسے کا اعلان کیا گیا ہے، اس کے علاوہ تحریک عدم اعتماد والے دن اپوزیشن کا ساتھ دینے والے حکومتی اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹ کے اندر جانے سے روکنے کے لیے بھی طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں اپوزیشن نے بھی اسی روز ڈی چوک میں جلسے کااعلان کردیا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی وقت میں ڈی چوک میں جلسہ کرتی ہیں یا رائے شماری والے دن ڈی چوک میں اپنے کارکنوں کو کال دے دیتی ہیں تو اس سے بہت بڑے فساد کا خدشہ موجود ہے جس میں ہونے والے نقصان کی پھر تمام تر ذمہ داری حکومت اور وزیرِداخلہ پر ہوگی جو پریس کانفرنس میں بڑے فخر کے ساتھ تحریک انصاف کے کارکنوں کو ڈی چوک میں جمع ہونے کی کال دے رہا تھا۔ حکومت کو اس موقع پر ہوش مندی سے کام لینا چاہئیے اور تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ ایوان کے اندر کرنا چاہئیے اور کسی بھی ایسی سرگرمی سے باز رہنا چاہئیے جس سے لڑائی جھگڑے یا فساد کا اندیشہ ہو کیونکہ امن و امان برقراررکھنا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں وزیراعظم آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اس طرح کا فساد پر مائل رویہ پہلے کسی وزیراعظم کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آیا حالانکہ پہلے وزرائے اعظم کو تو غیر جمہوری طریقوں سے گھروں کوبھیجا جاتا رہا ہے جبکہ موجودہ وزیراعظم کے خلاف سراسر ایک آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو کسی بھی قسم کے فاؤل پلے سے باز رہنا چاہئیے کیونکہ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر حکومت کے اپنے اراکین پارلیمنٹ اور اتحادی ساتھ چھوڑ گئے ہیں تو کسی قسم کا فاؤل پلے حکومت کو بچا نہیں سکے گا۔
اب تک کی صورتحال کے مطابق اور تحریک انصاف کے اندر بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اور اتحادیوں کے رویہ سے تو ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کا تحریک عدم اعتماد کے حملے سے بچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور حکومت کے لیے گیم اوور ہوچکی ہے۔ کھیل ختم ہو چکا ہے اور جی کا جانا ٹھہر گیا ہے آج گیا یا کل گیا۔ اس سارے مرحلے میں سبق ہے ان حکمرانوں کے لیے جواقتدار کے نشے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اقتدار عارضی ہے اسے ایک دن بہرحال ختم ہونا ہے۔ طاقتور سے طاقتور حکمران کو بھی ایک دن اقتدار چھوڑنا ہوتا ہے اور سدا بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ذات کی ہے۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لیکر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے !!!!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...