گلیلیو نے 7 جنوری 1610 میں اپنی ٹیلیسکوپ کا رخ مشتری کو کیا اور اس کے ساتھ تین چھوٹے نقطے دیکھے جسے وہ ستارے سمجھا۔ اگلے روز پھر دیکھا تو ان کی جگہ تبدیل ہو گئی تھے۔ اگلے کچھ ہفتے تک روز ان کو دیکھتا اور ان کی جگہ کو نوٹ بک میں لکھتا۔ ان کو گلیلیو نے میڈیسین ستاروں کا نام دیا جو مشتری کے چاند ہیں۔ گلیلیو نے مشتری اور زہرہ کے جو مشاہدات کئے انہوں نے تو کائنات کے بارے میں ہمارے تصورات کو جس طرح تبدیل کیا، وہ لمبی کہانی ہے لیکن ابھی صرف تصاویر میں۔
پہلی تصویر گلیلیو کی ہے اور اس کے ساتھ وہ ٹیلی سکوپ جن سے یہ مشاہدہ کیا۔
دوسری تصویر گلیلیو کی نوٹ بک کی۔ اس کے نیچے وہ تصویر ہے جو گلیلیو کو نظر آیا ہو گا۔
تیسری تصویر اکیسویں صدی میں مشتری کی ایک امیچور ٹیلیسکوپ سے لی گئی ہے۔
چوتھی تصویر مشتری کی ہبل ٹیلی سکوپ سے۔
لیکن مشاہدے کے لئے یہ حد نہیں اور آنکھ سے دکھائی دینے والے آسمان سے کہیں زیادہ معلومات ہمیں آنکھ سے پوشیدہ سپیکٹرم سے ملتی ہے۔
پانچویں تصویر اس پورے سپیکٹرم کی جس میں سے یہ دکھائی دینے والا کس قدر کم ہے، اس کو نمایاں کیا گیا ہے۔
اس پوشیدہ سپیکٹرم سے آنے والی معلومات سے کائنات کو جاننے کے لئے فلکیات میں ہر حصے کی اپنی تکنیک ہے۔ ریڈیو، مائیکروویو، انفراریڈ، الٹراوائلٹ، ایکس ریز اور گاما ریز میں معلومات اکٹھا کرنے کی اپنی اپنی طرز کے آلات ہیں۔
اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اب ہم نیوٹرینو اور ثقلی ویوز سے بھی کائناتی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ رات کو جب سورج غروب ہوتا ہے، اس وقت میں اس کا مشاہدہ نیوٹرینو کے ذریعے کر کے اس کی تصویر بھی 1998 میں بنائی جا چکی ہے۔ یہ ذرات ہماری پوری زمین سے گزر جاتے ہیں اور مشکل سے ہاتھ آتے ہیں لیکن ان کے ذریعے بھی آسٹرونومی کی رصد گاہیں کام کر رہی ہیں اور یہ تصویر اسی معلومات کے ذریعے حاصل کی گئی تھی۔ رات کے سورج کی تصویر اور یہ معلومات کیسے اکٹھی کی گئی، یہ اب آپ خود ڈھونڈیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔