۔محمد صابر عطاء تھہیم ’’بارش تیز ہوئی تو میں نے اپنی موٹر سائیکل مسافر خانے میں کھڑی کی اور ساتھ والے حمام میں چلا گیا ۔اندر داخل ہوا تو ایک عجیب سماں تھا ۔کوئی 23سالہ نوجوان دونوں پائوں کے بھار بیٹھا گردن جھکائے جوتے بھی پالش کیے جا رہا ہے اور دردناک انداز میں گیت بھی گائے جا رہا ہے ۔ ’’کدی بھال کرم دیاں اکھیاں ۔۔۔ڈُکھ ٹال غریباں دے ‘‘ ’’میڈا سوہنڑا سُنڑدا تاں ہوسی ۔۔کہڑے حال غریباں دے ‘‘ اتنی پُر سوز آواز ،اتنی مہارت کے ساتھ سماعتوں کو پُر لُطف بنائے جا رہی تھی۔
اچانک کسی شناسا نے فقرہ کس دیا ۔حضور ’’ہر خبر پر تو نظر ہے ‘‘ذرہ اس ٹیلنٹ پر بھی نظر دوڑائیے ۔میں تو پہلے ہی اس نوجوان کی آواز سے متاثر ہوا ہی کھڑا تھا لیکن اس چہرہ شناس کے جملے نے تو مجھے بس پھر ہِلنے ہی نہیں دیا ۔ اس کی آواز نے عجب سماں باندھا رکھا تھا ، ہر کوئی آواز کے سحر میں گم دکھائی دیتا تھا ،اور بڑے ذوق و شوق سے گیت بھی گائے جا رہا تھا اس نوجوان کی پُر سوز آواز نے سب کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا۔
لوگ اس سے گیت بھی سنتے اور ساتھ ساتھ جوتے بھی پالش کرواتے جاتے تھے۔ جوتوں کو چمکا کر اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے والا محمد پرویز بھٹی 1992ء کو ضلع لیہ کے صحرائی علاقے چوبارہ میں محمد نواز بھٹی کے گھر دو بہنوں کے بعد پیدا ہوا ۔ محمد نواز بھٹی چوبارہ کے لق و دق صحراؤں میں سفر کرنے والے تھلوچیوں کے جوتے مرمت کر کے رزقِ حلا ل کماتا ۔ دو بیٹیوں کے بعد اللہ پاک نے بیٹا دیا تو اس کی خوشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔
باپ اور ماں نے بیٹے کے لیے ڈاکٹر ، انجینئر پتہ نہیں کیا کیا خواب دیکھنے شروع کر دیئے ۔ مگر حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ، تیزی سے بھاگتا ہوا وقت کا پہیہ اپنے ساتھ بہت کچھ بدل دیتا ہے ،کچھ ایسا ہے پرویز کے ساتھ بھی ہوا۔ ’’خواب کی تعبیر پانے کی خاطر والدین نے مجھے مقامی گورنمنٹ پرائمری سکول میں داخل کر وا دیا ۔ محنت اور توجہ کے سبب پانچویں تک اول پو زیشن لیتا رہا ۔ پھر مجھے ہائی سکول میں داخل کر وا دیا گیا ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ علاقہ خشک سالی کی لپیٹ میں آگیا ۔ والد کا کام رک گیا ۔ بہنیں جوان ہو چکی تھیں ۔ اور باپ ان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر کے انھیں اگلے گھر سدھار نا چاہتا تھا ۔گھر میں غربت اور کام کی تنگی نے باپ کے خوابوں کو بالآخر ادھورا رہنے پر مجبور کر دیا ۔ اس طرح ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے خوابوں کی تعبیر یں ادھوری چھوڑ کر مجھے مقامی ہوٹل میں بیرا بننا پڑا ۔ جہاں مجھے 100روپے روزانہ 16 گھنٹے کام کے بعد ملتے تھے ۔ اتنا کم معاوضہ اور اتنی لمبی ڈیوٹی، ان پیسوں سے ہمارے گھر کا کچن بھی نہیں چلتا ، باپ اور ماں کی دوائی کے پیسے کہاں سے آئیں گے ؟ تب میں نے ایک اہم فیصلہ کیا۔‘‘
اس نے جوتے پالش کرتے ہوئے گفتگو جاری رکھی ’’میں نے سوچا کہ باپ کے کام کو آگے بڑھاتا ہوں ۔ لیکن اُس طرح نہیںکروں گا جیسے میرے والد کیا کرتے تھے ۔ میں نے ایک تھیلہ کاندھے پہ لٹکایا ۔ اس میں پالش کی دو ڈبیاں، دو برش رکھے اور چل پڑا ۔ پہلے پہل تو مجھے مشکل کا سامنا کرنا پڑا ۔ لوگوں کے عجیب رویے دیکھنے کو ملے ۔ لوگ پالش نہیں کرواتے تھے ۔ بالآخر دماغ نے سائنس لڑائی تو میں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گیت گانے شروع کر دیے ۔ بازار میں اونچی آواز میں گیت شروع کر دیتا۔ لوگ توجہ دیتے تو میں ان سے جوتے پالش کرنے کا کہہ دیتا جس سے لوگ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے ، گانا بھی سنتے ہیں اور جوتے بھی پالش کراتے۔ ‘‘
گانے کے حوالے سے بتایا کہ سکول کے زمانے میں وہ بزمِ ادب کے پیریڈ میں نعتیں ، حمد باری تعالیٰ اورعارفانہ کلام سنایا کرتا تھا، اس کی آواز اچھی تھی، اساتذہ بھی فارغ وقت میں اسے بلا کر عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کے گیت سنا کرتے تھے ۔ آج بھی لوگ عطاء اللہ کے گیت مزے سے سنتے ہیں ۔ وہ گیت بھی گاتا ہے اور جوتے بھی پالش کرتا ہے ۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ محنت مزدوری کرنے والوں کے ساتھ لوگوں کا رویہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہوتا، اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگا ’’ لوگوں کے رویے میں تضاد دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، لوگ جوتے پالش کروانے کے لیے کسی تھڑے والے دستکار کے پاس چل کر جاتے ہیں اور وہاں انتظار بھی کرتے ہیں اور انہیں منہ مانگی رقم یعنی 20 روپے دیتے ہیں ۔ لیکن میں اورمیری طرح دیگر چل پھر کر جوتے پالش کرنے والے جب ان کے پاس جاتے ہیں تو دکاندار بھائی ہم سے بھاؤ طے کرنے لگ جاتے ہیں ۔
کوئی پانچ روپے دینے کی بات کرتا ہے تو کوئی دس روپے میں جوتے پالش کرنے کا تقاضا کرتا ہے ۔ مجھے اس رویے سے بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن پھر عطاء اللہ کے گیت سے کتھارسز ہو جاتا ہے۔ ‘‘ محمد پرویز کا کہنا تھا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے، 3 بچے ہیں اس کی خواہش ہے کہ وہ پڑھ لکھ جائیں، چاہے وہ بھی جوتے ہی کیوں نہ پالش کریں ۔ سب کو پتہ ہے کہ غریبوں کے بچے تعلیم مشکل سے ہی حاصل کر سکتے ہیں، انہیں نوکری کون دلائے گا ۔ مہنگائی سے شکوہ کناں محمد پرویز کہنے لگا کہ وہ روزانہ چوبارہ سے چوک اعظم کا دو طرفہ 60 کلو میٹر سفر کرتا ہے اور اس کی اس مسافت سے اللہ پاک اس کے سات افراد کے خاندان کو شام کو حق حلا ل کی روٹی نصیب کر دیتا ہے اور فکروں سے آزاد نیند بھی بخشتا ہے ۔ اس نے بتایا ’’ روزانہ دس روپے الگ رکھ دیتا ہوں اور ہر تین ماہ بعد ایک ہزار روپے شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کرتا ہوں ۔ ہوٹل پہ کام کرتا تھا تو اخبار پڑھنے کی عادت پڑ گئی ۔ یہ عادت آج بھی ساتھ ہے ۔ اخبار کا روزانہ مطالعہ کرتا ہوں ۔ صبح اخبار بھی خریدتا ہوں ۔ دوپہر کو جب کھانا کھاتا ہوں تو اخبار پڑھ لیتا ہوں ۔ وہی اخبار شام کو بچوں کو بھی پڑھنے کے لئے دیتا ہوں ۔‘‘ مطالعے کے بارے میں مزید پوچھا کہ اخبار کے علاوہ بھی مطالعہ کرتے ہو؟ توکہنے لگا کہ فرصت نہیں ملتی لیکن دل کرتا ہے۔کچھ عرصہ عمران سیریز پڑھی ۔
اس کا کہنا تھا کہ ریاست اور عوام کا تعلق ماں بیٹے جیسا ہے ۔ بیٹے غلطی بھی کر جائیں تو ماں اسے معاف کر دیتی ہے ۔ ماں کبھی اولاد کو دکھی نہیں دیکھ سکتی ، اسے بھوکا نہیں سونے دیتی لیکن آج کتنے لوگ بھوکے سو رہے ہیں؟ ۔ یہ ماں دھرتی کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی وجہ سے ہے ۔ اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے والے حکمرانوںکو کیا پڑی ہے ہم غریبوں کی ۔ ہر سال غربت کے خاتمے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ایک فی صد بھی غربت کم نہیں ہوئی ، مہنگائی ہے کہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جن دنوں کراچی میں گرمی کی وجہ سے لوگ مرے تھے ان دنوں لوگوں کے پاس اپنے پیاروں کو دفن کرنے کے لیے رقم نہیں تھی لیکن اسی دن ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ طبقہ الگ ہے اور ہم عوام ان کے کچھ نہیں لگتے ۔ اتنی فکر انگیز گفتگو کرنے والا محنت کش محمد پرویز اپنی صبح کا آغاز اپنے بچوں اور والد کے ساتھ نماز پڑھنے سے کرتا ہے۔ تلاوتِ قرآن پاک بھی معمول ہے۔ اس کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ مل کر بچوں کو سکول بھیجنے کی تیاری کرواتا ہے ۔
اپنے خاندان کے ساتھ مل کر ناشتہ کرتا ہے ، بچوں کو سکول چھوڑ کر وہ اپنا تھیلہ اٹھا کر بس اڈے پر آجاتا ہے اور گاؤں سے لاہور سے آنے والی بس میں بیٹھ کر چوک اعظم کی طرف آجاتا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ابتداء میں اس کے پاس کرایہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اپنے سکول کی وردی پہن کر کپڑے تھیلے میں ڈال کر بس میں سوار ہو جاتا اور انہیں اپنی پرانی کتابیں دکھا کر طالب علم بن جاتا اور کرایہ دینے سے بچ جاتا ۔ لیکن پھر اس کے ضمیر نے ملامت کی کہ کب تک ایسا کر کے اپنے رزق کو حرام کرتا رہے گا ،بعد ازاں وہ کرایہ ادا کرکے سفر کرتا ہے ۔ اب اکثر گاڑی والے اسے جانتے ہیں اور اس سے کرایہ نہیں لیتے ۔ غریب آدمی کی حالت زار سے اس کے معاشی حالات از خود عیاں ہوتے ہیں ۔ ایسے میں درد دل رکھنے والے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس حوالے سے کہنے لگا ’’ اکثر لوگ اسے زکوٰۃ یا صدقات دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور بتاتا ہوںکہ میں تو ایسا خود کرتا ہوں ۔‘‘ جوتے پالش کرتے کرتے گفتگو مسائل کی طرف گئی تو وہ جذباتی انداز میں کہنے لگا ’’ اس معاشرے میں چور ڈکیت، بے ایمان ، راہزن اور رسہ گیرکو عزت، روزگار اور حکومت آسانی سے مل جاتی ہے ۔
یہاں غریب پڑھے لکھے کو جاہل ،کمینے کو ذہین اور شاطر کو کامیاب انسان سمجھا جاتا ہے ۔ جب سے لوگوں نے شارٹ کٹ راستے اپنانے شروع کر دیئے ہیں اور اس کے لیے جائزو ناجائز کی تمیز بھول بیٹھے ہیں تب سے رزق میں برکت اُٹھ گئی ہے اور معاشرہ بے برکتی کا شکار ہو کر پریشانیوں کا گھر بن گیا ہے ۔‘‘ محمد پرویز بھٹی کھانوں کا شوقین نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ جن کی عمر فاقوں میں گزرتی ہو ان کو کھانوںکا شوق کہاں ہوتا ہے، بس جو مل جائے خدا کا شکر ادا کر کے کھا لیتا ہوں ، تھل میں بارش کا منظر پسند ہے ۔ موسیقی میں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، میڈم نور جہاں کو سننا پسند کرتا ہوں ۔ جس دن قرآن کی تلاوت نہ کر سکوں دن بھر بے چینی اوراضطراب میں رہتا ہوں۔