ایک عورت مر گئی!
نہیں معلوم، خود مری یا مار ڈالی گئی!
گلے کا پھندا سسکیاں بھرتا ہے، گواہی نہیں دیتا!
کوئی نئی بات نہیں ہر روز ہزاروں عورتیں مرتی ہیں۔ کیوں غم کریں؟ بے وقعت، پاؤں کی جوتی، جوتی چٹوانے کے قابل، ہے ہی جوتی، جب چاہے بدل لو۔
خیر اہالیان شہر نے اس جواں مرگ پہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کیوں؟ کیسے؟ کس لیے؟ کس کے لیے؟
بے شمار شکوک و ابہام نے عورت کی لاش کے گرد جالا بن دیا جس میں ہزاروں مکڑیاں عورت کے متعلق کہی ان کہی سناتی تھیں۔ سگریٹ پیتی تھی، مردوں کے ساتھ گھومتی پھرتی تھی، طلاق شدہ تھی۔ سب پڑھا، دل پہ ہاتھ پڑا لیکن ایک جملہ بازی لے گیا۔
اس جیسی عورت کا انجام یہی ہونا ”تھا“
اس جیسی عورت؟
آنسوؤں نے سوال کیا، کیسی عورت؟
چلیے سراغ لگاتے ہیں کہ عورت کتنی قسم کی ہوتی ہے؟
پہلی قسم ؛
یہ وہ عورتیں ہیں جنہیں پیدا کرنے والے کچھ برس پال پوس کر اگلے مالک کے حوالے کر دیتے ہیں اس تاکید کے ساتھ، جا تو رہی ہو ڈولی میں، ڈولے میں نکلنا۔ سمجھو آج سے ہم مر گئے، ہمارا تمہارا ساتھ بس اتنا ہی۔
ان بد قسمت عورتوں کو حاکم کیسا ہی ملے، وہ سر جھکائے سب سہنے پر مجبور ہیں کہ بھیجی ہی اسی شرط پہ گئی ہیں کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ورنہ پتھر کی ہو جاؤ گی۔ شوہر صاحب کی سرگرمیاں چاہے رنگین ہوں یا سنگین، لب سی کر ہی گزارہ کرنا ہے کہ سب دروازے بند ہیں۔ ہاتھ میں نہ ہنر ہے، نہ ہمت کہ پنجرہ توڑ سکیں۔
جی جناب، آئی جناب، کیا لاؤں جناب، کیا پکاؤں جناب، گندے موزے اور انڈرویئر کہاں ہیں جناب؟ ٹانگیں دبا دوں سرکار، سر میں تیل ڈال دوں سرکار، جو آپ کہیں سرکار، جی سرکار، ہاں سرکار، بستر پہ جب بلائیں سرکار، کوئی مسئلہ نہیں سرکار۔
تھپڑ پڑے یا لات تب بھی آنسو پونچھ کر، ہاں جناب، جی جناب، بہتر جناب!
دوسری قسم؛
پیدا کرنے والوں نے تخلیق کار کی بنائی زبان نہ ترشوائی ہے نہ بیٹی پہ علم و ہنر کے دروازے بند کیے ہیں۔ سو پہچان یہ بنی کہ حاکم سے سوال کرنا جانتی ہے آنکھ میں آنکھ ڈال کر۔ منہ میں زبان رکھنے کے علاوہ معاشرتی نا انصافیوں پہ آواز بلند کرنے کا بھی حوصلہ ہے اس کے پاس۔ اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کی خواہش اور ذہنی، جسمانی، جذباتی اور مالی تشدد پہ بھرپور مزاحمت۔ جو مرد کا گریبان پکڑتے ہوئے یہ پوچھنے کی جرات رکھتی ہے کہ کہ اس زندگی کا ضابطہ اور اصول تمہارے لیے اور میرے لیے مختلف کیوں؟ تم حاکم کس خوشی میں بنے بیٹھے ہو؟ پیٹ کی روٹی اور سر پہ چھت کے عوض چوبیس گھنٹے ایک خادمہ کی سی زندگی، جاؤ ہمیں نہیں منظور یہ کھیل۔
یہی تو ہے پدرسری نظام کا جبر کہ شوہر جو چاہے کرے، جنگل کا بادشاہ، انڈا دے یا بچہ، اس کی مرضی۔ لیکن بیوی نامی خادمہ کے لیے شوہر اور بچوں کے سوا دنیا میں کچھ اور نہیں ہونا چاہیے۔ اس خادمہ کی اپنی ذات کے لیے کوئی بھی سرگرمی شوہر کی انا کو مجروح کرتی ہے۔ کنیز خاص کی یہ جرات کہ شوہر کے علاوہ کسی اور سے بات کرے، ملے یا دیکھے۔ کر بیٹھے تو تمغہ ملتا ہے، اس جیسی عورت!
لیکن اس بات پہ روئیں یا ہنسیں کہ اس جیسی عورت کو صلیب پہ چڑھانے والے گھر سے باہر ایسی ہی عورت سے بات کرنے کی ہڑک میں مرے جاتے ہیں۔ برابری کی سطح پہ آ کر بات کرنے والی، بنا کسی خوف کے قہقہہ لگانے والی، شرم، ڈر لحاظ، گھبراہٹ، کچھ بھی نہیں۔ اگر ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ بھی ہو تو کیا ہی کہنے؟
سگریٹ کا ذکر آیا تو ان کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہا جو سگریٹ پیتی عورت کو آوارگی کا سرٹیفیکٹ عطا کرتے ہیں۔ سگریٹ اگر مرد پیے تو کوئی سوال نہیں اور اگر عورت پیے تو آوارہ؟ ایک سا کش اور ایک سا دھواں، تمہارا شوق اور اس کی آوارگی۔ واہ صاحب واہ تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو۔ دیہات میں رہنے والی عورت دن بھر محنت کرنے کے بعد جب حقہ گڑگڑاتی ہے تو کیا حقہ اس کی آوارگی کے قصے کہتا ہے؟
لیکن صاحب گھر رکھی ملکیت کو ایسی عورت بننے کی اجازت تو نہیں دی جا سکتی نا۔ گھر میں تو وہی چلے گی مصالحوں اور پسینے کی بو میں بسی ہوئی، عاجز اور مودب، حاضر جناب۔
گھر صرف ایک ہی فارمولے پہ چل سکتا ہے مرد کے نزدیک۔ عورت ایسی ہو جسے کوئی بھی ”اس جیسی“ کے حوالے سے نہ یاد کرے۔
جس کم نصیب نے اس جیسی بننے کا سوچا، دی ایک چھمک۔ مداری اور بندریا کا کھیل شروع۔
اگر عورت اسے کھیلنے سے انکار کر دے تو مرد کی انا ایسی مجروح کہ کبھی بچے چھین کر عورت کو مزا چکھاتا ہے اور کبھی فاقہ کشی پہ مجبور کر کے۔ کہیے کتنی داستانیں سناؤں؟
اپنی عزت نفس کی پروا کرنے والی اپنی مرضی کی مالک عورت دنیا بھر میں پٹتی ہے، امریکہ ہو یا افریقہ۔ دنیا بھر میں مرد تشدد کے سارے حربے استعمال کرتا ہے اور اگر کوئی اس کے جال سے نکل بھی جائے تب بھی وہ اس کی زندگی کو گھن لگا سکتا ہے۔ مردوں کا معاشرہ ہے بھئی۔ جونی ڈیپ نے امبر کا جو حال کیا وہ سب جانتے ہی ہیں اور ہوا کیا؟ امبر ہی قصور وار ٹھہری، جونی میاں himpathy کا سہارا لے کر نکل لیے۔
کتابیں وغیرہ تو مرد حضرات کم ہی پڑھتے ہیں سو کہاں علم ہو گا Himpathy کے بارے میں۔ چلیے بتائے دیتے ہیں۔ کورنل یونی ورسٹی کی پروفیسر کیٹ نے یہ اصطلاح خواہ مخواہ کی اس ہمدردی کے لیے استعمال کی ہے جو معاشرہ ”بے چارے مردوں“ کے لیے محسوس کرتا ہے۔
کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں نہ صرف عورت کی اقسام پر روشنی ڈالی ہے بلکہ ساتھ میں کچھ ان جیسے مردوں کا حال بھی لکھا ہے۔
”پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے سوچا سنیہ کا جسم کتنا خوب صورت ہے۔
اس کا دماغ کس قدر کھوکھلا ہے۔ اسے پر مغز عورتیں بالکل پسند نہ تھیں۔
جب دیکھو اشتراکیت، سامراجیت اور مارکسیت پر بحث کر رہی ہیں۔ آزادی تعلیم نسواں، نوکری، یہ نئی عورت، عورت نہیں فلسفے کی کتاب ہے۔ بھئی ایسی عورت سے ملنے یا شادی کرنے کی بجائے تو یہی بہتر ہے کہ آدمی ارسطو پڑھا کرے ”
( کرشن چندر۔ افسانہ۔ ان داتا)
”دوسرا شوہر ایک اینگلو انڈین تھا۔ وہ ہر وقت شراب میں دھت رہتا تھا اور کبھی کبھی اسے پیٹتا بھی تھا۔ کبھی کبھی مرد پیٹے تو بڑا مزا آتا ہے۔ پام نے میگی کو سرگوشی میں بتایا کیونکہ اس کے بعد مرد پر پچھتاوے کا ایک شدید دورہ پڑتا ہے اس میں وہ عورت سے بڑی احمقانہ باتیں کرتا ہے، روتا ہے۔ ہاتھ جوڑتا ہے، پاؤں پڑتا ہے۔ کبھی کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر نیا فراک تک سلوا دیتا ہے“
(کرشن چندر افسانہ کنواری)
کہیے اب کچھ، کرشن چندر کی سجھائی عورت کی مثالوں کی روشنی میں مرنے والی اس جیسی تھیں یا ایسی ویسی!
( سیمیں درانی کی یاد میں )
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...