لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔
موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ قریب کے قصبے میں ملازمت کرتے ہیں جہاں اس کی اماں بھی رہتی ہیں۔ اس کی ساری کائنات بستی کے درمیان سے گزرتی گلی تھی۔ اس گلی کے دونوں طرف واقع اُس کی حویلیاں تھیں۔ ایک میں مہمان ٹھہرتے تھے‘ ایک صرف مویشیوں کے لیے تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ابّا اور اماں کہاں رہتے ہیں۔ وہ رات کو دادی کے پاس سوتا‘ صبح اٹھ کر دہی کھاتا‘ تھوڑی دیر بعد میٹھی لسّی پیتا‘ پھر اس کے دوست آ جاتے‘ اسی کی طرح چھوٹے چھوٹے‘ سارا دن گلیوں میں دھماچوکڑی مچاتے۔ بارش ہوتی اور گلی میں کاغذ اور تنکے بہتے تو وہ ان کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ مسجد کے غسل خانے میں اس کے دادا مٹی کے کوزوں میں پانی بھر کر اُسے نہلاتے اور پھر دھوئے ہوئے کپڑے پہناتے جنہیں کبھی استری نہیں کیا گیا تھا۔
جب سے یہ کائنات بنی ہے‘ کچھ سوالوں کے جواب انسان کو آج تک نہیں ملے۔ مثلاً یہ کہ ناشاعر کو شاعر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یا کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انسانی تعلیم و تعلم کی پوری تاریخ میں کوئی مکتب‘ کوئی مدرسہ‘ کوئی سکول ایسا نہیں بنا جو شاعری کرنا سکھائے۔ شاعر اپنی شاعری کو استاد کے قدموں میں بیٹھ کر صیقل کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ شاعر پہلے سے ہو۔ طالب علموں کو مضمون یا کہانی لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ نظم لکھنے کے لیے نہیں۔ مثلاً یہ کہ بیٹی کو بیٹے سے کم تر سمجھنے والے دماغی اعتبار سے ناقص کیوں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بیوی کو طعنہ دینے والے کہ اس نے بیٹی جنم دی ہے‘ وحشی چوپایوں سے کتنے بدتر ہوتے ہیں‘ دس گنا یا ہزار گنا یا لاکھ گنا؟ مثلاً یہ کہ جس کا پوتا یا نواسی نہ ہو‘ اُسے کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹی یا بیٹے کے بچوں کے ساتھ تعلق ناقابلِ بیان ہے۔ اسے سمجھایا جا سکتا ہے نہ الفاظ میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان خواب دیکھے تو اس کی پوری کیفیت کبھی کسی دوسرے کو ابلاغ نہیں کر سکتا۔ جیسے بڑے سے بڑا ادبی فن پارہ‘ مصوری کا عظیم سے عظیم شہکار‘ دل میں برپا خوشی یا درد کا مکمل آئینہ دار نہیں ہو سکتا‘ محض ایک کوشش ہو سکتا ہے۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ صبح میٹھی لسّی پینے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسے لینے آئے ہیں‘ اس کی اماں اس کے لیے بے قرار ہے اور یہ کہ یہاں تو وہ محض چند دنوں کے لیے آیا تھا‘ رہنا تو اسے اپنے ابّا اماں کے ساتھ قصبے ہی میں ہے۔ ساڑھے تین چار سال کے بچے کو یاد ہی کیا رہ جاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ یاد رہا کہ اسے دُھلا ہوا کُرتا اور شلوار پہناتے وقت دادی چپ تھی۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ پھر اسے چپل پہنائی گئی جسے وہاں کھیڑ (یا کھیڑی) کہتے تھے۔ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر ایک دبیز گدی رکھی ہوئی تھی یا باندھی گئی تھی۔ اس پر بٹھایا گیا‘ اس زمانے میں سائیکل بہت بڑی سواری ہوتی تھی۔ بس کے انتظار میں تو پہروں بیٹھنا پڑتا تھا۔ جس کے پاس سائیکل ہوتا تھا وہ بے فکر ہو جاتا تھا۔ اپنے والد سے ابّا نے جانے کی اجازت مانگی‘ پھر دعا مانگی گئی جو ہر سفر سے پہلے جانے والے اور رخصت کرنے والے سب مانگا کرتے۔ دادی نے دیر تک پیار کیا۔ ابھی تک وہ نارمل تھا‘ لیکن جیسے ہی ابّا نے سائیکل پر بیٹھ کر پیڈل چلائے‘ سائیکل گھر کے دروازے سے دور ہوئی اور چند گز ہی کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے رونا شروع کردیا۔ ’’میں نے دادی کے پاس جانا ہے‘‘۔ ابّا نے سنی ان سنی کی۔ بچے روتے ہی ہیں۔ لمبی بڑی گلی نصف طے ہونے تک رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ابّا نے پہلے چمکارا‘ پھر ڈانٹا‘ مشرقی سرے پر واقع سرکاری پختہ تالاب تک پہنچتے پہنچتے جسمانی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچہ نیچے گرنے کی کوشش کرتا۔ ابّا ایک ہاتھ سے سائیکل چلا رہے تھے‘ دوسرے ہاتھ سے اُسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ بڑے درخت کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے تھے۔ وہ سب اٹھے اور آ کر ملنے لگے۔ اب بچے کی جدوجہد عروج پر تھی۔ وہ اس قدر زور سے چیخ رہا تھا کہ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ’’دادی کے پاس‘ دادی کے پاس‘‘۔ پھر اس نے پورا زور لگایا اور ڈنڈے سے نیچے گر گیا۔ اب چارپائیوں سے اٹھنے والے سب لوگ کہنے لگے، ’’اسے چھوڑ دیں جی۔ نہ لے کر جائیں‘ یہ نہیں جانا چاہتا۔ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ؟‘‘ ابّا غصّے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ’’اس کی ماں کئی دن سے اس کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ پھر وہ ہار گئے اور کہا، ’’اچھا چلے جائو‘ دادی کے پاس‘‘۔ سائیکل پر سوار ہو کر وہ چلے گئے۔ گرنے کی جدوجہد میں پائوں سے کھیڑ اتر گئی تھی۔ بچے نے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑے اور سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ گلی سے گزرتے مویشیوں کے گلّوں کو پار کرتا‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دوڑتا‘ کھڑاک کے ساتھ گھر کے دونوں دروازے کھولے اور بھاگ کر دودھ رڑکتی دادی کے ساتھ لگ گیا۔ دادی نے چمٹایا اور ایک ہی جملہ کہا، ’’اچھا کیا‘ میرے بچے نے جو واپس آگیا‘‘۔
یہ چھ عشرے پہلے کا قصہ ہے۔ سائیکلیں غائب ہو گئیں۔ حویلیاں کچھ مقفل ہیں اور کچھ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں۔ تالاب اَٹ چکا۔ بڑا درخت کب کا کٹ گیا۔
یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے بیوی سے سیر کو چلنے کے لیے کہا۔ نکلنے لگے تو ساڑھے تین سالہ پوتے نے کہا مجھے ساتھ چلنا ہے‘ تینوں خراماں خراماں پارک میں چل رہے تھے۔ اس کے بیٹے کا فون آیا ’’ابو ہم ایک دوست کی تیمارداری کے لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم حمزہ کو ساتھ لے چلیں‘ ورنہ یہ آپ کو واک نہیں کرنے دے گا‘‘۔
گاڑی قریب آ کر رُکی۔ بچے کو کار کی عقبی نشست پر بندھی کار سیٹ میں بٹھایا گیا۔ اُس نے بیٹھتے ہی کہا، میرے ساتھ دادو بیٹھیں گی۔ ’’نہیں بیٹے‘ آپ گاڑی میں جائیں‘ دادو نے واک کرنی ہے‘‘۔ دونوں ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ پچھلا دروازہ کھلا تھا۔ بچہ چیخ رہا تھا۔ باپ اُسے سیٹ پر بٹھا کر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بچہ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے‘ سیٹ سے اچھل کر باہر آ جاتا تھا۔ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ چیخ رہا تھا۔
’’بیٹے‘ اسے نہ لے جائو‘ اسے واپس آنے دو‘‘۔ دادی نے کہا۔
بچہ جیسے ہی گاڑی سے اتارا گیا‘ اس نے ناقابلِ یقین تیز رفتاری سے دوڑ لگائی‘ اس میں بجلی بھر گئی تھی یا کوئی اور قوت۔ چھوٹے چھوٹے پیروں سے دوڑتا آیا اور دادو کے ساتھ لگ گیا۔
فرق صرف یہ تھا کہ اس بچے نے جاگر پہنے ہوئے تھے۔ نیکر اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ دھوپ سے بچائو کے لیے سر پر کپڑے کا ہیٹ تھا جب کہ چھ عشرے پہلے والے گم شدہ بچے کے سر پر سفید کپڑا تھا جس کے کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھ دیا گیا تھا۔ اُس علاقے میں اِسے گَل گِٹی کہتے تھے۔
گَل گِٹی
لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔
موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ قریب کے قصبے میں ملازمت کرتے ہیں جہاں اس کی اماں بھی رہتی ہیں۔ اس کی ساری کائنات بستی کے درمیان سے گزرتی گلی تھی۔ اس گلی کے دونوں طرف واقع اُس کی حویلیاں تھیں۔ ایک میں مہمان ٹھہرتے تھے‘ ایک صرف مویشیوں کے لیے تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ابّا اور اماں کہاں رہتے ہیں۔ وہ رات کو دادی کے پاس سوتا‘ صبح اٹھ کر دہی کھاتا‘ تھوڑی دیر بعد میٹھی لسّی پیتا‘ پھر اس کے دوست آ جاتے‘ اسی کی طرح چھوٹے چھوٹے‘ سارا دن گلیوں میں دھماچوکڑی مچاتے۔ بارش ہوتی اور گلی میں کاغذ اور تنکے بہتے تو وہ ان کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ مسجد کے غسل خانے میں اس کے دادا مٹی کے کوزوں میں پانی بھر کر اُسے نہلاتے اور پھر دھوئے ہوئے کپڑے پہناتے جنہیں کبھی استری نہیں کیا گیا تھا۔
جب سے یہ کائنات بنی ہے‘ کچھ سوالوں کے جواب انسان کو آج تک نہیں ملے۔ مثلاً یہ کہ ناشاعر کو شاعر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یا کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انسانی تعلیم و تعلم کی پوری تاریخ میں کوئی مکتب‘ کوئی مدرسہ‘ کوئی سکول ایسا نہیں بنا جو شاعری کرنا سکھائے۔ شاعر اپنی شاعری کو استاد کے قدموں میں بیٹھ کر صیقل کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ شاعر پہلے سے ہو۔ طالب علموں کو مضمون یا کہانی لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ نظم لکھنے کے لیے نہیں۔ مثلاً یہ کہ بیٹی کو بیٹے سے کم تر سمجھنے والے دماغی اعتبار سے ناقص کیوں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بیوی کو طعنہ دینے والے کہ اس نے بیٹی جنم دی ہے‘ وحشی چوپایوں سے کتنے بدتر ہوتے ہیں‘ دس گنا یا ہزار گنا یا لاکھ گنا؟ مثلاً یہ کہ جس کا پوتا یا نواسی نہ ہو‘ اُسے کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹی یا بیٹے کے بچوں کے ساتھ تعلق ناقابلِ بیان ہے۔ اسے سمجھایا جا سکتا ہے نہ الفاظ میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان خواب دیکھے تو اس کی پوری کیفیت کبھی کسی دوسرے کو ابلاغ نہیں کر سکتا۔ جیسے بڑے سے بڑا ادبی فن پارہ‘ مصوری کا عظیم سے عظیم شہکار‘ دل میں برپا خوشی یا درد کا مکمل آئینہ دار نہیں ہو سکتا‘ محض ایک کوشش ہو سکتا ہے۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ صبح میٹھی لسّی پینے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسے لینے آئے ہیں‘ اس کی اماں اس کے لیے بے قرار ہے اور یہ کہ یہاں تو وہ محض چند دنوں کے لیے آیا تھا‘ رہنا تو اسے اپنے ابّا اماں کے ساتھ قصبے ہی میں ہے۔ ساڑھے تین چار سال کے بچے کو یاد ہی کیا رہ جاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ یاد رہا کہ اسے دُھلا ہوا کُرتا اور شلوار پہناتے وقت دادی چپ تھی۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ پھر اسے چپل پہنائی گئی جسے وہاں کھیڑ (یا کھیڑی) کہتے تھے۔ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر ایک دبیز گدی رکھی ہوئی تھی یا باندھی گئی تھی۔ اس پر بٹھایا گیا‘ اس زمانے میں سائیکل بہت بڑی سواری ہوتی تھی۔ بس کے انتظار میں تو پہروں بیٹھنا پڑتا تھا۔ جس کے پاس سائیکل ہوتا تھا وہ بے فکر ہو جاتا تھا۔ اپنے والد سے ابّا نے جانے کی اجازت مانگی‘ پھر دعا مانگی گئی جو ہر سفر سے پہلے جانے والے اور رخصت کرنے والے سب مانگا کرتے۔ دادی نے دیر تک پیار کیا۔ ابھی تک وہ نارمل تھا‘ لیکن جیسے ہی ابّا نے سائیکل پر بیٹھ کر پیڈل چلائے‘ سائیکل گھر کے دروازے سے دور ہوئی اور چند گز ہی کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے رونا شروع کردیا۔ ’’میں نے دادی کے پاس جانا ہے‘‘۔ ابّا نے سنی ان سنی کی۔ بچے روتے ہی ہیں۔ لمبی بڑی گلی نصف طے ہونے تک رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ابّا نے پہلے چمکارا‘ پھر ڈانٹا‘ مشرقی سرے پر واقع سرکاری پختہ تالاب تک پہنچتے پہنچتے جسمانی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچہ نیچے گرنے کی کوشش کرتا۔ ابّا ایک ہاتھ سے سائیکل چلا رہے تھے‘ دوسرے ہاتھ سے اُسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ بڑے درخت کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے تھے۔ وہ سب اٹھے اور آ کر ملنے لگے۔ اب بچے کی جدوجہد عروج پر تھی۔ وہ اس قدر زور سے چیخ رہا تھا کہ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ’’دادی کے پاس‘ دادی کے پاس‘‘۔ پھر اس نے پورا زور لگایا اور ڈنڈے سے نیچے گر گیا۔ اب چارپائیوں سے اٹھنے والے سب لوگ کہنے لگے، ’’اسے چھوڑ دیں جی۔ نہ لے کر جائیں‘ یہ نہیں جانا چاہتا۔ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ؟‘‘ ابّا غصّے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ’’اس کی ماں کئی دن سے اس کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ پھر وہ ہار گئے اور کہا، ’’اچھا چلے جائو‘ دادی کے پاس‘‘۔ سائیکل پر سوار ہو کر وہ چلے گئے۔ گرنے کی جدوجہد میں پائوں سے کھیڑ اتر گئی تھی۔ بچے نے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑے اور سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ گلی سے گزرتے مویشیوں کے گلّوں کو پار کرتا‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دوڑتا‘ کھڑاک کے ساتھ گھر کے دونوں دروازے کھولے اور بھاگ کر دودھ رڑکتی دادی کے ساتھ لگ گیا۔ دادی نے چمٹایا اور ایک ہی جملہ کہا، ’’اچھا کیا‘ میرے بچے نے جو واپس آگیا‘‘۔
یہ چھ عشرے پہلے کا قصہ ہے۔ سائیکلیں غائب ہو گئیں۔ حویلیاں کچھ مقفل ہیں اور کچھ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں۔ تالاب اَٹ چکا۔ بڑا درخت کب کا کٹ گیا۔
یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے بیوی سے سیر کو چلنے کے لیے کہا۔ نکلنے لگے تو ساڑھے تین سالہ پوتے نے کہا مجھے ساتھ چلنا ہے‘ تینوں خراماں خراماں پارک میں چل رہے تھے۔ اس کے بیٹے کا فون آیا ’’ابو ہم ایک دوست کی تیمارداری کے لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم حمزہ کو ساتھ لے چلیں‘ ورنہ یہ آپ کو واک نہیں کرنے دے گا‘‘۔
گاڑی قریب آ کر رُکی۔ بچے کو کار کی عقبی نشست پر بندھی کار سیٹ میں بٹھایا گیا۔ اُس نے بیٹھتے ہی کہا، میرے ساتھ دادو بیٹھیں گی۔ ’’نہیں بیٹے‘ آپ گاڑی میں جائیں‘ دادو نے واک کرنی ہے‘‘۔ دونوں ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ پچھلا دروازہ کھلا تھا۔ بچہ چیخ رہا تھا۔ باپ اُسے سیٹ پر بٹھا کر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بچہ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے‘ سیٹ سے اچھل کر باہر آ جاتا تھا۔ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ چیخ رہا تھا۔
’’بیٹے‘ اسے نہ لے جائو‘ اسے واپس آنے دو‘‘۔ دادی نے کہا۔
بچہ جیسے ہی گاڑی سے اتارا گیا‘ اس نے ناقابلِ یقین تیز رفتاری سے دوڑ لگائی‘ اس میں بجلی بھر گئی تھی یا کوئی اور قوت۔ چھوٹے چھوٹے پیروں سے دوڑتا آیا اور دادو کے ساتھ لگ گیا۔
فرق صرف یہ تھا کہ اس بچے نے جاگر پہنے ہوئے تھے۔ نیکر اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ دھوپ سے بچائو کے لیے سر پر کپڑے کا ہیٹ تھا جب کہ چھ عشرے پہلے والے گم شدہ بچے کے سر پر سفید کپڑا تھا جس کے کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھ دیا گیا تھا۔ اُس علاقے میں اِسے گَل گِٹی کہتے تھے۔
گَل گِٹی
لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔
موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ قریب کے قصبے میں ملازمت کرتے ہیں جہاں اس کی اماں بھی رہتی ہیں۔ اس کی ساری کائنات بستی کے درمیان سے گزرتی گلی تھی۔ اس گلی کے دونوں طرف واقع اُس کی حویلیاں تھیں۔ ایک میں مہمان ٹھہرتے تھے‘ ایک صرف مویشیوں کے لیے تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ابّا اور اماں کہاں رہتے ہیں۔ وہ رات کو دادی کے پاس سوتا‘ صبح اٹھ کر دہی کھاتا‘ تھوڑی دیر بعد میٹھی لسّی پیتا‘ پھر اس کے دوست آ جاتے‘ اسی کی طرح چھوٹے چھوٹے‘ سارا دن گلیوں میں دھماچوکڑی مچاتے۔ بارش ہوتی اور گلی میں کاغذ اور تنکے بہتے تو وہ ان کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ مسجد کے غسل خانے میں اس کے دادا مٹی کے کوزوں میں پانی بھر کر اُسے نہلاتے اور پھر دھوئے ہوئے کپڑے پہناتے جنہیں کبھی استری نہیں کیا گیا تھا۔
جب سے یہ کائنات بنی ہے‘ کچھ سوالوں کے جواب انسان کو آج تک نہیں ملے۔ مثلاً یہ کہ ناشاعر کو شاعر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یا کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انسانی تعلیم و تعلم کی پوری تاریخ میں کوئی مکتب‘ کوئی مدرسہ‘ کوئی سکول ایسا نہیں بنا جو شاعری کرنا سکھائے۔ شاعر اپنی شاعری کو استاد کے قدموں میں بیٹھ کر صیقل کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ شاعر پہلے سے ہو۔ طالب علموں کو مضمون یا کہانی لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ نظم لکھنے کے لیے نہیں۔ مثلاً یہ کہ بیٹی کو بیٹے سے کم تر سمجھنے والے دماغی اعتبار سے ناقص کیوں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بیوی کو طعنہ دینے والے کہ اس نے بیٹی جنم دی ہے‘ وحشی چوپایوں سے کتنے بدتر ہوتے ہیں‘ دس گنا یا ہزار گنا یا لاکھ گنا؟ مثلاً یہ کہ جس کا پوتا یا نواسی نہ ہو‘ اُسے کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹی یا بیٹے کے بچوں کے ساتھ تعلق ناقابلِ بیان ہے۔ اسے سمجھایا جا سکتا ہے نہ الفاظ میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان خواب دیکھے تو اس کی پوری کیفیت کبھی کسی دوسرے کو ابلاغ نہیں کر سکتا۔ جیسے بڑے سے بڑا ادبی فن پارہ‘ مصوری کا عظیم سے عظیم شہکار‘ دل میں برپا خوشی یا درد کا مکمل آئینہ دار نہیں ہو سکتا‘ محض ایک کوشش ہو سکتا ہے۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ صبح میٹھی لسّی پینے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسے لینے آئے ہیں‘ اس کی اماں اس کے لیے بے قرار ہے اور یہ کہ یہاں تو وہ محض چند دنوں کے لیے آیا تھا‘ رہنا تو اسے اپنے ابّا اماں کے ساتھ قصبے ہی میں ہے۔ ساڑھے تین چار سال کے بچے کو یاد ہی کیا رہ جاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ یاد رہا کہ اسے دُھلا ہوا کُرتا اور شلوار پہناتے وقت دادی چپ تھی۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ پھر اسے چپل پہنائی گئی جسے وہاں کھیڑ (یا کھیڑی) کہتے تھے۔ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر ایک دبیز گدی رکھی ہوئی تھی یا باندھی گئی تھی۔ اس پر بٹھایا گیا‘ اس زمانے میں سائیکل بہت بڑی سواری ہوتی تھی۔ بس کے انتظار میں تو پہروں بیٹھنا پڑتا تھا۔ جس کے پاس سائیکل ہوتا تھا وہ بے فکر ہو جاتا تھا۔ اپنے والد سے ابّا نے جانے کی اجازت مانگی‘ پھر دعا مانگی گئی جو ہر سفر سے پہلے جانے والے اور رخصت کرنے والے سب مانگا کرتے۔ دادی نے دیر تک پیار کیا۔ ابھی تک وہ نارمل تھا‘ لیکن جیسے ہی ابّا نے سائیکل پر بیٹھ کر پیڈل چلائے‘ سائیکل گھر کے دروازے سے دور ہوئی اور چند گز ہی کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے رونا شروع کردیا۔ ’’میں نے دادی کے پاس جانا ہے‘‘۔ ابّا نے سنی ان سنی کی۔ بچے روتے ہی ہیں۔ لمبی بڑی گلی نصف طے ہونے تک رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ابّا نے پہلے چمکارا‘ پھر ڈانٹا‘ مشرقی سرے پر واقع سرکاری پختہ تالاب تک پہنچتے پہنچتے جسمانی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچہ نیچے گرنے کی کوشش کرتا۔ ابّا ایک ہاتھ سے سائیکل چلا رہے تھے‘ دوسرے ہاتھ سے اُسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ بڑے درخت کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے تھے۔ وہ سب اٹھے اور آ کر ملنے لگے۔ اب بچے کی جدوجہد عروج پر تھی۔ وہ اس قدر زور سے چیخ رہا تھا کہ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ’’دادی کے پاس‘ دادی کے پاس‘‘۔ پھر اس نے پورا زور لگایا اور ڈنڈے سے نیچے گر گیا۔ اب چارپائیوں سے اٹھنے والے سب لوگ کہنے لگے، ’’اسے چھوڑ دیں جی۔ نہ لے کر جائیں‘ یہ نہیں جانا چاہتا۔ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ؟‘‘ ابّا غصّے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ’’اس کی ماں کئی دن سے اس کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ پھر وہ ہار گئے اور کہا، ’’اچھا چلے جائو‘ دادی کے پاس‘‘۔ سائیکل پر سوار ہو کر وہ چلے گئے۔ گرنے کی جدوجہد میں پائوں سے کھیڑ اتر گئی تھی۔ بچے نے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑے اور سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ گلی سے گزرتے مویشیوں کے گلّوں کو پار کرتا‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دوڑتا‘ کھڑاک کے ساتھ گھر کے دونوں دروازے کھولے اور بھاگ کر دودھ رڑکتی دادی کے ساتھ لگ گیا۔ دادی نے چمٹایا اور ایک ہی جملہ کہا، ’’اچھا کیا‘ میرے بچے نے جو واپس آگیا‘‘۔
یہ چھ عشرے پہلے کا قصہ ہے۔ سائیکلیں غائب ہو گئیں۔ حویلیاں کچھ مقفل ہیں اور کچھ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں۔ تالاب اَٹ چکا۔ بڑا درخت کب کا کٹ گیا۔
یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے بیوی سے سیر کو چلنے کے لیے کہا۔ نکلنے لگے تو ساڑھے تین سالہ پوتے نے کہا مجھے ساتھ چلنا ہے‘ تینوں خراماں خراماں پارک میں چل رہے تھے۔ اس کے بیٹے کا فون آیا ’’ابو ہم ایک دوست کی تیمارداری کے لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم حمزہ کو ساتھ لے چلیں‘ ورنہ یہ آپ کو واک نہیں کرنے دے گا‘‘۔
گاڑی قریب آ کر رُکی۔ بچے کو کار کی عقبی نشست پر بندھی کار سیٹ میں بٹھایا گیا۔ اُس نے بیٹھتے ہی کہا، میرے ساتھ دادو بیٹھیں گی۔ ’’نہیں بیٹے‘ آپ گاڑی میں جائیں‘ دادو نے واک کرنی ہے‘‘۔ دونوں ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ پچھلا دروازہ کھلا تھا۔ بچہ چیخ رہا تھا۔ باپ اُسے سیٹ پر بٹھا کر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بچہ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے‘ سیٹ سے اچھل کر باہر آ جاتا تھا۔ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ چیخ رہا تھا۔
’’بیٹے‘ اسے نہ لے جائو‘ اسے واپس آنے دو‘‘۔ دادی نے کہا۔
بچہ جیسے ہی گاڑی سے اتارا گیا‘ اس نے ناقابلِ یقین تیز رفتاری سے دوڑ لگائی‘ اس میں بجلی بھر گئی تھی یا کوئی اور قوت۔ چھوٹے چھوٹے پیروں سے دوڑتا آیا اور دادو کے ساتھ لگ گیا۔
فرق صرف یہ تھا کہ اس بچے نے جاگر پہنے ہوئے تھے۔ نیکر اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ دھوپ سے بچائو کے لیے سر پر کپڑے کا ہیٹ تھا جب کہ چھ عشرے پہلے والے گم شدہ بچے کے سر پر سفید کپڑا تھا جس کے کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھ دیا گیا تھا۔ اُس علاقے میں اِسے گَل گِٹی کہتے تھے۔
http://columns.izharulhaq.net/2014_03_01_archive.html
“