سلیم صاحب بات کرتے کرتے زارو قطار رونے لگے۔ پھر انہوں نے ٹشو پیپر کے ڈبے سے ایک ٹشو نکالا، اپنی آنکھیں صاف کیں اور بھرائی ہوئی آواز میں بولے ’برما اور شام کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے‘ قیامت کے دن ہم خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟‘‘ میں نے سر ہلایا اور آہستہ سے پوچھا ’آپ کے ہمسائے میں جو فاروق صاحب رہتے ہیں ان کے بارے میں سنا ہے کہ کل سے سخت بیمار ہیں‘۔ سلیم صاحب میرا جواب سن کر بھڑک اٹھے ’میں برما اور شام کے مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں اور تم دو ٹکے کے کلرک فاروق کا ذکر لے بیٹھے ہو، اسے بخار ہے تو میں کیا کروں‘ اپنی دفعہ تو وہ دو منٹ کے لئے بھی موٹرسائیکل نہیں دیتا اور میں اس کی خبر گیری کرتا رہوں؟‘‘ میں نے سہم کر کہا ’لیکن سلیم صاحب! پھر بھی وہ ہے تو ہمارا مسلمان بھائی‘ اس کی تیمارداری تو کرنی چاہئے‘‘۔ سلیم صاحب چلائے ’بھاڑ میں گئی تیمار داری‘ پچھلے ماہ اس نے بریانی کی دیگ پکائی تھی اور سب کے گھر تین تین بوٹیاں ڈال کے بھیجی تھیں اور ہمارے گھر جو پلیٹ آئی تھی اس میں نرے چاول تھے، ایسے شخص کو تو میں منہ لگانا بھی پسند نہ کروں‘ بخار ہے تو جائے اپنا علاج کرائے… تم اصل بات پہ آئو اور سوچو کہ برما اور شام کے مظلوم مسلمانوں کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں؟؟؟‘‘
بات تو واقعی سوچنے والی ہے… برما اور شام کے مسلمانوں کے لئے واقعی ہمارے دل دُکھتے ہیں لیکن پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ جو مسلمان ہم سے جتنا دور ہے اتنا ہی قریب ہے اور جو جتنا قریب ہے اُتنا ہی دور۔ دو بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں لیکن روہنگیا کے مسلمانوں کے لئے دن رات سلگتے رہتے ہیں۔ جو مسلمان ہمارے قریب رہتے ہیں وہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتے، ہمیں نیکی کرنے کے لئے بھی نئے مسلمان درکار ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے جوانی میں ہر لڑکے کو ایک آنٹی ایسی ضرور ملتی ہے جس کی ایک عدد خوبصورت بیٹی ہوتی ہے اور پھر وہ لڑکا خوشی خوشی دوستوں کو بتاتا پھرتا ہے کہ ’آنٹی نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا ہے اور مجھے آنٹی کی شکل میں اپنی ماں مل گئی ہے‘۔ ایسے لڑکوں کی ذاتی مائیں گھر میں کھانسی کے سیرپ کے لئے تڑپتی رہ جاتی ہیں لیکن بیٹا باہر والی ’ماں‘ کے پیر دباتے نہیں تھکتا۔ آپ نے ایسے لڑکے بھی جابجا دیکھے ہوں گے جو گھر کی بہنوں سے زیادہ باہر کی بہنوں پر جان دیتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ’شکیلہ مجھے اپنی بہن سے بھی زیادہ عزیز ہے…‘ بندہ پوچھے بھائی میاں! شکیلہ تمہیں اپنی بہن سے زیادہ عزیز کیسے ہوگئی؟
ہمیں اپنی کوئی بھی چیز پسند نہیں آتی، آپ نے سڑکوں پر اکثر سمندر پار مظلوم مسلمانوں کے لئے چندہ اکٹھا کرنے والے ٹینٹ لگے دیکھے ہوں گے جن کے بینرز پر دردناک تحریریں اور تصویریں شائع کی جاتی ہیں، انہی ٹینٹوں کے قریب فٹ پاتھ پر بدترین حالت میں پاکستانی مسلمان بھی نظر آتے ہیں لیکن یہ چندہ ان کے لئے نہیں ہوتا‘ چندے کا حقدار ہونے کے لئے ’دور کا مسلمان‘ ہونا ضروری ہے۔ اصل میں قریبی لوگوں کی مدد کرنا سب سے مشکل کام ہے لہٰذا ہماری اکثریت اس جھنجھٹ میں ہی نہیں پڑتی۔ شام اور برما کے مسلمانوں کی مدد ہی ٹھیک ہے… اور مدد بھی ایسی کہ سوشل میڈیا پر دردناک اسٹیٹس لگایا، بے حس مسلمانو ں کو لتاڑا‘ سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑا اور خود آرام سے موبائل چارجنگ پر لگا کر سوگئے!!! کوئی شک نہیں کہ شام سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں پر جب کوئی افتاد آتی ہے تو ہر مسلمان کا دل دُکھتا ہے… لیکن کیا وجہ ہے کہ جب ہمارے بہت اپنے‘ ہمارے بہت قریب رہنے والے کسی مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟ ہم شام کے مسلمانوں کے لئے جان دے سکتے ہیں لیکن ڈیڑھ مرلے کے مکان کے لئے سگے بھائی پر کیا ہوا کیس واپس نہیں لے سکتے۔ ہم کشمیر تو لینا چاہتے ہیں لیکن بیوہ بہن کے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری نہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے پانچ چھ افراد سے تو بات کرنے کا وقت نہیں لیکن پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک کرنا چاہتے ہیں۔ سڑک پر جب کسی مسلمان کا جنازہ جا رہا ہوتا ہے تو کتنے لوگ ہیں جو اپنی گاڑیوں سے اتر کر اس جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں؟ کیا دلچسپ قوم ہیں ہم بھی، ساتھ والے گھر میں مرگ ہوجائے تو ہم اپنی مہندی کی تقریب کینسل کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ ڈھولکی کی آواز مدہم کر لیتے ہیں لیکن واویلا کرتے ہیں کہ ہزاروں میل دور کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دن رات ماتم کیا جائے۔ وہی پانچ ہزار سال پرانے لطیفے والا حساب ہے کہ سردار جی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے پاس چھ جہاز ہوں تو کیا کریں گے؟ فوراً بولے ’آدھے غریبوں میں بانٹ دوں گا‘۔ پوچھا اگر چھ گاڑیاں ہوں تو؟ فوراً بولے ’آدھی غریبوں میں بانٹ دوں گا‘ پوچھا اگر چھ مرغیاں ہوں تو؟ جھٹ سے بولے’ساری اپنے پاس رکھوں گا کیونکہ مرغیاں میرے پاس موجود ہیں‘۔ ہمارے پاس بھی جو مرغیاں موجود ہیں وہ ہم کسی میں نہیں بانٹنا چاہتے، ہمیں پتا ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد کے مسلمانوں کی مدد کا عزم باندھا تو برے پھنسیں گے کیونکہ یہاں صرف باتوں سے بات نہیں بنے گی، اچھا ہے کہ شام اور برما کا رونا رو کر شہیدوں میں نام لکھوا لیا جائے۔
اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر جان دینے والی غریب عورت اور جج کے گھر سے برآمد ہونے والی تشدد زدہ طیبہ کے بارے میں بڑھ چڑھ کر لکھنا بہت آسان ہے لیکن ٹی وی چینلز پر جو لوگ طیبہ پر تشدد کی مذمت کرتے نظر آئے ان کی اکثریت کے گھر اسی عمر کی گھریلو ملازمائیں روز گالیاں اور تھپڑ کھاتی ہیں۔ اسپتال کے فرش پر جب غریب عورت تڑپ رہی تھی تو کیا اُس رش زدہ اسپتال کے عملے کے علاوہ وہاں کوئی مسلمان اردگرد موجود نہیں تھا‘ بہت سے ہوں گے لیکن شاید اپنے موبائل سے اس ’ایونٹ‘ کی وڈیو بنانے میں مصروف ہوں گے۔ ایسی کوئی ایک عورت تھوڑی ہے‘ بھری پڑی ہیں‘ لیکن نہ کوئی مسلمان رکشے والا بغیر کرائے کے انہیں اسپتال لے جانے پر آمادہ ہوتاہے اور نہ کوئی میڈیکل اسٹور والا مسلمان مفت میں دوائی دیتا ہے۔ جواز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سارے کام تو حکومت کو کرنے چاہئیں‘ بالکل کرنے چاہئیں لیکن ہمیں کیا کرنا چاہئے؟… ہمیں دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے لئے سارا دن سڑکوں پر بیٹھ کرچندہ جمع کرنا چاہئے‘ ہمارے ہاں چونکہ سارے مسلمان خوشحال اور ہر قسم کی تکالیف سے آزاد ہوچکے ہیں لہٰذا اب ہمیں باہر کی خبر لینی چاہئے۔ ہمیں سخت سردی میں اپنے ملازم سے ٹھنڈے پانی سے گاڑی دھلوا کر جامع مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کرنی چاہئے اور مسلم اُمہ کے لئے رقعت آمیز دعائیں کرنی چاہئیں‘ ہمیں اپنے رشتہ داروں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے شامی مظلوموں کی داد رسی کے لئے سجدہ ریز ہوجانا چاہئے۔ ہمیں عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے بلکہ بھنبھوڑنے کے لئے دن رات فیس بک پر المناک تصاویر لگانی چاہئیں‘ اس مقصد کے لئے اگر ہمارا انٹرنیٹ کام نہ کر رہا ہو تو ہمسائے کے وائی فائی کا پاس ورڈ چرانے میں بھی کوئی حر ج نہیں… محبت اورمنافقت میں سب جائز ہے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“