گزشتہ ہفتے عجیب خبر پڑھنے کو ملی‘ کویت کے قومی دن کی تقریب میں مہمان خصوصی ہمارے وزیر ریلوے تھے! اس میں عجیب پہلو یہ تھا کہ کویت میں ریلوے کا وجود ہی نہیں۔
کویت میں ریلوے نہ ہونے کا سبب نہیں معلوم لیکن پڑوسی ملک افغانستان میں ریلوے نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہاں برطانیہ کی حکومت نہیں رہی‘ جس طرح سانپ اور بچھو کو قدرت نے بلا سبب نہیں پیدا کیا اور ان میں بھی کچھ فوائد رکھے ہیں‘ اسی طرح استعمار کے بھی کچھ فوائد تھے۔ انگریز آئے تو اپنے ہمراہ ادارے بھی لائے‘ سب سے بڑا ”ادارہ“ محنت کا تھا۔ محنت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلائیو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا تھا جبکہ سراج الدولہ سمیت ہندوستانی حکمران دلہنوں کی طرح پالکیوں پر سفر کرتے تھے اور میدان جنگ میں بیگمات کی رفاقت ازبس ضروری تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے دور ”حکومت“ میں سر مٹکاف دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ تھا‘ اس زمانے کے لکھے گئے روزنامچوں اور ڈائریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت گرمی میں مٹکاف اور اسکے ماتحت ساڑھے سات بجے صبح اپنی اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے تھے۔ دوپہر سے پہلے یہ لوگ اپنے کام کا ایک حصہ ختم کر چکے ہوتے تھے اور گیارہ بجے‘ دوپہر کی شدید گرمی گزارنے کیلئے گھروں کو جا رہے ہوتے تھے۔ اس وقت لال قلعہ میں شاہی خاندان کے مقدس افراد بیدار ہونا شروع ہوتے تھے۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور اسباب و علل کا تجزیہ کرنا ہمیں پسند ہی نہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ قدرت کو ہم سے دشمنی تھی نہ استعمار سے محبت‘ قدرت کا سیدھا اصول ہے ”انسان کےلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے“۔ یہ اصول اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا اور قیامت تک اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ انسان مسلمان ہو یا فرنگی‘ امریکی ہو یا یہودی یا نصرانی‘ اس کو جو کچھ ملتا ہے‘ اسکی کوشش کے حساب سے ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہنے والے اور صبح دم کام پر حاضر ہونےوالے ناکام ہو جائیں اور پالکیوں میں سفر کرنےوالے گیارہ بجے اٹھنے والے اور بیت الخلاءکے فرائض بھی کنیزوں کے سپرد کرنیوالے کامیاب ٹھہریں۔
بات اداروں کی ہو رہی تھی‘ برصغیر تھا یا آسٹریلیا‘ یا جنوبی افریقہ‘ انگریزوں نے ہر جگہ ریلوے بچھائی‘ ٹیلی گراف کے تار سمندروں‘ پہاڑوں اور صحراﺅں میں بچھائے۔ بجلی کا نظام قائم کیا‘ نہروں کا سسٹم بنایا‘ لیکن ایک ادارہ ان سب اداروں سے قدیم تر ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں آتے ہی قائم کیا اور وہ ہے ملٹری اکاﺅنٹس یعنی عسکری حسابات کا ادارہ۔ یہ کتنا پرانا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور میں ملٹری اکاﺅنٹس کے موجودہ دفاتر 1854ءمیں موجود تھے۔ جہاں جہاں فوجی چھاﺅنیاں بنیں اور فوج کے مستقر قائم ہوئے۔ وہاں ملٹری اکاﺅنٹس کے دفاتر بھی بنے۔ اس زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مسلمان حساب اور مالیات میں کمزور ہیں۔ بنگالی ہندوﺅں کا اس شعبے میں زور تھا‘ یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی میں ملٹری اکاﺅنٹس کے دفتر کو کلکتہ دفتر کہا جاتا تھا۔ افسر انگریز ہوا کرتے تھے اور مقابلے کا امتحان (سول سروس) پاس کرکے تعینات ہوتے تھے۔ عملہ سارا مقامی افراد پر مشتمل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس محکمے کی روایات بنتی گئیں۔ اس میں ملازمت کرنیوالے لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے۔ چنانچہ لکھنے پڑھنے کا اور ادب و شاعری کا حوالہ یہاں ہمیشہ رہا۔ پورے برصغیر کی سطح پر کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے اور ہر سال تقریبات کا ایک سلسلہ شہر شہر رہتا تھا۔
برصغیر تقسیم ہوا تو یہ ساری روایات بھارت اور پاکستان کو منتقل ہوئیں۔ پاکستان میں ملٹری اکاﺅنٹس کے افسر محکمے سے نکل کر بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے۔ ایوب خان کے عہد کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے اپنا کیریئر ملٹری اکاﺅنٹس کلکتہ سے شروع کیا تھا۔ سرتاج عزیز جو اقوام متحدہ کے خوراک کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے اور عالمی خوراک اور قحط کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ملٹری اکاﺅنٹس ہی کے افسر تھے‘ انکی بہن نثار عزیز بٹ نے جو معروف ادیبہ ہیں‘ اپنی خود نوشت ”گئے دنوں کا سراغ“ میں سرتاج عزیز کے ملٹری اکاﺅنٹس کے ایام کا ذکر کیا ہے۔ اردو کے عہد ساز شاعر عبدالحمید عدم بھی ملٹری اکاﺅنٹس میں ملازمت کرتے تھے۔ گزشتہ ہفتے ملٹری اکاﺅنٹس لاہور نے کھیلوں کی سالانہ تقریبات کے دوران محکمے کی دو سو سالہ قدیم روایات نبھاتے ہوئے عبدالحمید عدم کی یاد میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کیا۔ ملٹری اکاﺅنٹس لاہور کے سربراہ اسلم چودھری اپنے محکمے کی روایات کے امین ہیں اور انتہائی متحرک اور مستعد شخصیت کے مالک ہیں۔ کھیل اور ادب کی یہ روایات سول سروس کے کسی اور شعبے میں شاید ہی پائی جاتی ہوں۔
المیہ یہ ہے کہ آزادی کے تریسٹھ برسوں کے دوران ہم نہ صرف یہ کہ نئی روایات نہ قائم کر سکے‘ ان روایات کو بھی نہ برقرار رکھ سکے‘ جو برطانوی ہند سے ہمیں ورثے میں ملی تھیں۔ آج پاکستان ریلوے نزع کی جس کیفیت سے گزر رہی ہے‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی روٹ بند ہو رہے ہیں‘ وزیر صاحب کا حال یہ ہے کہ ملازمتیں ”دیتے“ ہوئے وہ اپنے حلقے سے باہر کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کرپشن گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے‘ ریلوے کی زمینوں کی طاقتور محکمے ہڑپ کئے جا رہے ہیں۔ یہی حال نہری نظام کا ہے‘ ایک ادارہ ڈپٹی کمشنر کا بھی تھا۔ انگریز ڈپٹی کمشنروں نے انتہائی مشکل حالات میں دور دراز کے سفر طے کرکے ضلعوں کو قائم کیا اور ایک ایک ضلع کی تاریخ لکھی‘ جو آج بھی گزٹ کی صورت میں موجود ہے۔ ان لوگوں نے مقامی زبانیں سیکھیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکی موت ان دور دراز مقامات پر واقع ہو گی‘ حیرت انگیز کارنامے دکھائے۔ یہی ادارہ جب ہم تک پہنچا تو اسکی حالت بگڑ گئی۔ اقربا پروری‘ کرپشن اور سفارش نے حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ رہی سہی کسر سیاسی تعیناتیوں نے نکال دی۔ وزیروں‘ گورنروں اور جرنیلوں نے اپنے نااہل بیٹوں کو مقابلے کے امتحان دیئے بغیر اس ادارے میں داخل کرانا شروع کر دیا۔ پھر پرویز مشرف کا زمانہ آیا اور اس نے ناظم گردی شروع کی۔ ان حضرات نے سیاسی بنیادوں پر کام کیا اور ضلع کے جس گاﺅں یا قصبے نے انہیں ووٹ نہ دیا‘ انہیں ترقیاتی کاموں سے محروم کرنا شروع کر دیا۔ فانی نے درست کہا تھا….
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں‘ بستے بستے بستی ہے
اداروں کو توڑنا آسان ہے اور بنانا مشکل۔ آج ملک میں شاید ہی کوئی ادارہ سلامت موجود ہو‘ اداروں کی شکست و ریخت کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔ ضیاءالحق کی گیارہ سالہ آمریت نے اس توڑ پھوڑ کو عروج پر پہنچایا۔ یہ شکست و ریخت‘ یہ توڑ پھوڑ ابھی تک جاری ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی قیادت میسر آئے‘ جس کے پاس وژن ہو اور ادارے ازسرنو زندہ ہو سکیں؟ ….
فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں
کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے