ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نون) نے حریف جماعتوں کا صفایا کر دیا اور زبردست کامیابی حاصل کی لیکن ٹھہریے۔ کچھ اور تازہ خبریں بھی ہیں۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو بدعنوانی کے مقابلے میں زبردست نمبر دیے ہیں۔ سات ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اس حساب سے گزشتہ پانچ سال کے دوران 12600 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ ایک اور بین الاقوامی رپورٹ میں وطن عزیز کو ستانوے ممالک میں ساتواں بدعنوان ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ صرف چھ بدقسمت ملک پاکستان سے زیادہ کرپٹ ہیں جبکہ نوے ملک کرپشن میں پاکستان سے کوسوں پیچھے ہیں۔
اس سے دو روز پہلے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے اور یہ صورت حال نیب، ایف آئی اے، پولیس اور کئی دیگر انسدادی محکموں کی موجودگی میں ہے۔
تین دن پہلے سپریم کورٹ کے حضور ملک کی اکلوتی سرکاری ائرلائن کے سینئر افسروں نے ’’فخر‘‘ کے ساتھ بتایا کہ ائر لائن میں صرف تین فیصد ملازمین میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہوئے ہیں۔ باقی ستانوے فیصد ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی بیساکھی پر چل کر آئے۔ انگریزوں نے ایک بڑا اچھا لفظ اپنی لغت میں تراشا ہے۔ یہ جامع اور کارآمد لفظ EUPHEMISM ہے۔ اسے آپ خوش کلامی اور حسن ادا بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ کڑی اور کڑوی بات کو نرم الفاظ میں بیان کیا جائے اور ناخوشگوار حقیقت پر ملمع سازی کا عمل کرکے اس میں خوشگوار تاثر بھرا جائے۔ اس کے فلک بوس اونچے افسروں نے یقینا ’’یُو فے مزم‘‘ سے کام لیا ہے۔ بے چارے یہ کہنے کی جرأت کہاں کر سکتے تھے کہ ستانوے فی صد بھرتیاں سیاسی، ذاتی اور دھڑے بندی کی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ کبھی جیالے، کبھی متوالے اور کبھی گورے اور کبھی کالے‘ میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرچیوں کی بنیاد پر اس بدقسمت ادارے میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ بنچ کے ایک فاضل رکن جناب جسٹس عظمت سعید نے تو حساب کرکے یہ بھی بتایا کہ پی آئی اے کے ملازمین فی جہاز پانچ سو ستر پڑ رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر جہاز کے لیے پانچ سو ستر ملازمین ’’کام‘‘ کر رہے ہیں۔ فاضل جج کی تجویز تھی کہ یہ تناسب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جانا چاہیے۔
دوسرے ادارے بھی اس نیک نامی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انگریزی حکومت نے جس ریلوے کو دنیا کی کامیاب ترین ریلوے بنایا تھا، اسے کرپشن کھا کر ہضم کر چکی ہے۔ سٹیل مل نشان عبرت بن چکی ہے۔ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ، پلاٹوں کی ریکارڈ تعداد اپنے ہی ملازمین کو دے کر دنیا بھر میں ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔ واپڈا جتنی بجلی پیدا کرتا ہے اس کا زیادہ حصہ اس کے ملازمین کھا جاتے ہیں یا ملک کے ان حصوں کو چلی جاتی ہے جو بل ادا ہی نہیں کرتے اور یہ مفت خوری علی الاعلان ہو رہی ہے، صوبوں کی حالت مرکز سے بھی بدتر ہے۔ ایک بڑا بنک کمال کی لاقانونیت کا شکار ہے۔ اس کے کسی ذمہ دار شخص تک کوئی شکایت کنندہ رسائی ہی نہیں پا سکتا۔ اس کی ویب سائٹ پر جو ای میل ایڈریس درج ہے وہ کام ہی نہیں کرتا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر جو صدر بھی ہیں کسی میل یا فون کال کا جواب دینا گوارا نہیں کرتے۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ جو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں، بے بسی سے بتاتے ہیں کہ میں نے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور صدر سے کہا تو ہے کہ وہ جواب دے، اس سے ان کی شکایت کنندگان کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو ای میل بھی نہیں کر سکتے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سے بات کرنے کا موقع یا حوصلہ نہیں پاتے۔ اس کے باوجود پنجاب کے وزیراعلیٰ خونی انقلاب کی ’’نوید‘‘ حریفوں کو دیتے ہیں، حالانکہ حریف اور حلیف ’’اصل میں دونوں ایک ہیں۔‘‘ مسئلہ کلاس کا ہے، یعنی حکمران طبقہ کھیل کے دوران ٹینس کورٹ کے دو حصوں میں بٹ کر کھیل رہا ہے لیکن کورٹ سے باہر سب باہم شیر و شکر ہیں۔
اب اس پس منظر میں وہ خبر دیکھیے، جس سے ہم نے کالم کا آغاز کیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں جو بھی جیتا ہے، کیا وہ ان سے مختلف ہے جو ان نشستوں پر پہلے کامیاب ہوئے تھے؟ کیا کوئی ایسا امیدوار منتخب ہوا ہے جو اسمبلی میں کھڑا ہو کر کہے کہ ائر لائن میں سیاسی بھرتیاں بند کی جائیں ورنہ میں مستعفی ہوتا ہوں۔ کیا کوئی ایسا شخص منتخب ہوا ہے جو اعلان کرے کہ صوبائی حکومت نے قاف لیگ کے پرندوں کو جال میں پھنسانے کے لیے فلاں فلاں ضلع میں ان کی مرضی کے افسروں کو تعینات کیا ہے اور مرکزی حکومت نے اتحادی جماعتوں کو جال کے اندر روکنے کے لیے سب کچھ ان کے حوالے کر دیا ہے؟ کیا کوئی ایسا دیانت دار شخص اسمبلی میں بھیجا جا رہا ہے جو کھڑا ہو کر پوچھے کہ آخر کیا ’’مجبوری‘‘ ہے کہ فلاں وزارت ہمیشہ فلاں پارٹی کو دی جاتی ہے اور فلاں وزیر دھمکی دیتا ہے کہ مجھ سے فلاں وزارت لی گئی تو کابینہ چھوڑ دوں گا؟… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا کوئی ایسا مائی کالال جیتا ہے جو فلور پر کھڑا ہو کر یہ کہے کہ آج سے کوئی وزیر، کوئی منتخب نمائندہ کسی کی سفارش نہیں کرے گا اور کسی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ آئو اس بات کا سب عزم کریں اور حلف اٹھائیں ورنہ یہ ہے میرا استعفیٰ اور جو بھی اس ملک کا وفادار ہے وہ میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو جائے۔
نہیں! بالکل نہیں! کوئی ایسا بہادر منتخب نہیں ہوا۔ سب دیکھے بھالے ہیں۔ سب کی چونچ بھی کالی ہے۔ پر بھی کالے ہیں۔ پہلے باپ ممبر تھا، اب فرزند آ گیا، پہلے چچا تھا، اب برادر زادہ منتخب ہو گیا۔ یہ وہ کبوتر ہیں جو منڈیر پر بیٹھے رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا دانہ موٹا ہو تو وہ چُگ لیتے ہیں۔ نون یا قاف لیگ اچھا راتب ڈالے تو غٹر غوں غٹر غوں کرتے اس کے ہاتھوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان حضرات کا کوئی نظریہ ہے نہ منشور، ان کے فرشتوں کو بھی خبر ہے نہ پروا کہ ملک میں زرعی اصلاحات درکار ہیں یا تعلیمی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ خدا کی قسم ان میں بہت سے تو ایسے ہیں کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر تک نہیں سمجھ سکتے!
اگر کوئی اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ کل نوازشریف وزیراعظم بنے یا چودھری پرویز الٰہی حکومت کے سربراہ بنے تو کایا کلپ ہو جائے گی تو وہ اپنی خوش فہمی دور کر لے۔ نوازشریف کے اخلاص میں شبہ ہے نہ پرویز الٰہی کی دردمندی میں شک ہے، لیکن جو بھی وزیراعظم بنا وہ بہرحال انہی ارکان اسمبلی کے ہاتھوں میں یرغمال ہوگا جو ہاتھوں میں درخواستوں کے پلندے لیے اس کا تعاقب کر رہے ہوں گے، جو فنڈ لینے کے لیے بلیک میل کرنے والے ہوں گے، جو اپنا آدمی اعلیٰ عہدے پر تعینات کرانے کے لیے فلور کراس کرنے کی دھمکی دے رہے ہوں گے اور جن کے فکر کی معراج، تھانے، کچہری، پٹواری، استانی، تھانیدار، تحصیلدار، پجارو اور پلاٹ سے اوپر نہیں اٹھے گی۔
اوپر ہم نے استعفیٰ کی بات کی ہے اور اپنے آپ پر ہنسی آ رہی ہے۔ کیا بہکی ہوئی بات ہے۔ استعفیٰ؟ سفارش اور کرپشن روکنے کے لیے؟ سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند کرنے کے لیے؟ ؎
یہ کس غموں کی ریت پر دُکھوں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی، یہ میں کہاں چلا گیا!
بصارت سے محروم ڈاکٹر طٰہ حسین مصر کے وزیر تعلیم تھے، ایک صبح اسمبلی میں آئے تو اُٹھ کر اعلان کیا۔ ایک کاغذ میری دائیں جیب میں ہے۔ یہ قرارداد ہے کہ پرائمری تک تعلیم لازمی ہو اور مفت ہو، دوسرا کاغذ میری بائیں جیب میں ہے۔ یہ میرا استعفیٰ ہے۔ اس ایوان کو اختیار ہے کہ دونوں میں سے جو کاغذ چاہے‘ منظور کر لے۔ ایوان نے مفت لازمی تعلیم والا کاغذ پسند کیا۔ آج مصر میں دسویں جماعت تک تعلیم مفت ہے، استعفیٰ کی دھمکی وہی دیتا ہے جو عام سادہ گھر میں رہ رہا ہو اور تزک و احتشام والی سواری کی طرف دیکھتا بھی نہ ہو، آیئے، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اس سے پوچھیں کہ ایسے عوامی نمائندے ہمیں کب ملیں گے ؎
فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیں
کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے