“ڈئیوس، علی اور دیا” نعیم بیگ صاحب کی تصنیف ہے، یہ خوبصورت ناول ہماری دوست گل بانو نے ایک ملاقات میں ہمیں پڑھنے کے لئے عنایت کیا جو مصنف نے انہیں اپنے دستخط کے ساتھ ارسال کیا تھا، نعیم بیگ صاحب عملی زندگی کے دانشور ہیں جنہوں نے زیست کے کمالات کا انتہائی نزدیک سے مگر بہت ہی عمیق نگاہوں سے مطالعہ کیا ہے، اسی لئے انکی تحریر میں گہرائی ہے، وہ ایسے جز وقتی قلمکار ہیں جو اپنا کل وقتی مشاہدہ انتہائی دیانت سے قرطاس پر منتقل کرتے ہیں اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں، مگر قاری کے پاس انکے بیانیے اور اسکے نتائج کو من و عن تسلیم کرنے کی سوا کوئی راستہ اسلئے نہیں رہتا کہ
لکھوں وہ نام تو کاغذ پہ پھول کھلتے ہیں
کروں خیال تو پیکر کسی کا ڈھلتا ہے !
بیگ صاحب اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں، ششتہ اردو میں کمال کی روانی ہے، پکے پکے لاہوری ہیں اسلئے زبان و بیان میں وہی چھب ہے جو زندہ دلان لاہور کا خاصہ ہے ۔ گوپال متل اپنی کتاب “ لاہور کا جو ذکر کیا “ میں باری علیگ کے حوالے سے ایک جملہ نقل کرتے ہیں “ جب کوئی پنجابی اردو بولتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ جھوٹ بول رہا ہو “ ۔ اسی لئے بیگ صاحب نے وہ اردو لکھی ہے جو پنجاب کا اسلوب لئے ہوئے اسلئے کہ سچ لکھتے ہیں اور سچائی کے علمبردار ہیں ۔ ہاں ایک بات ہے انہوں نے اپنے ناول کے کرداروں کی روز مرہ کی گفتگو میں آتے وہ انگریزی الفاظ من و عن درج کردیے ہیں جو ایک معاشرے کے کسی خاص دور کے عکاس ضرور ہیں مگر رواں اردو کے درمیان تڑکے سے زیادہ پیوند کا تاثر ابھارتے ہیں ۔
ڈئیوس یونانی خدا کا نام ہے، علی ناول کے ہیرو اور دیا ہیرو کی منظور نظر ہیں، کہانی کا عنوان قاری کے خیال کو یا تو یونان کی جانب لے جاتا ہے یا پھر کسی بھرپور رومانی داستان کی جانب، مگر ایسا نہیں، یہ ناول عملی زندگی کی سخت جانی اور جدوجہد کی وہ داستان ہے جو اپنے ساتھ ایک عہد اور اس سے جڑی تلخیوں کو بیان کرتے ہوئے جینے کی بات کرتا ہے، اسی لئے ناول کی ہر سطر سے زندگی اور اس سے جڑی مسکراہٹ کے شرارے پھوٹتے ہیں۔
ناول کی کہانی پاگل قرار دیے گئے ایک نفسیاتی مریض علی کمال ہمدانی کی آپ بیتی ہے جس نے جغرافیائی تقسیم کی تلخیوں سے لیکر مفادات پر منتج کرپشن کی صورت معاشرتی تفریق اور نا ہمواری دیکھی اور اپنے مخصوص ص مزاج کے سبب ان سے سمجھوتہ نہ کرسکا ۔ ایک جریدے کے ہاتھ لگی اسکی آپ بیتی تقسیم ہند اور اسکے نتیجے میں برپا ہجرت اور ہجرت کے سبب خاندانوں کی بے توقیری اور بے سروسامانی کی صورت انکے سماجی اور نفسایاتی رویوں کی ٹوٹ پھوٹ کو بیان کرتی ہے، پاکستان کے ابتدائی ایام، نامساعد حالات کے تسلسل، نوجوانوں کی بیرون ملک غیر فطری اور بے سروسامانی کی صورت منتقلی اور بیرون ملک سخت جسمانی مشقت اور ذہنی ناآسودگی کی ایسی داستان ہے جسکی منظر نگاری کمال کی ہے، بھٹو صاحب کا نیا پاکستان اور ضیاء الحق کا مارشل لاء اور اسکے بعد کا پاکستان اور اسی پاکستان میں اپنی ذہانت کے سبب بیوروکریسی میں ترقی و کمال سے سرفراز ہونے کے باوجود وہ ناکام قرار پایا ایک شخص اس منظرنامے کا ہیرو ہے ۔ جہد مسلسل کی لگن نے جسکی شخصیت میں سے رومانی حس کو ختم کردیا، ایک ناہموار اور جھوٹے معاشرے میں اسکی سچائی سنکی پن سے تعبیر ہوئی اور بالآخر وہ شیزو فرینا کے سنگین دورے کا شکار ہوا اور یوں اسکی عملی زندگی اختتام کو پہنچی ۔
یہ ناول ۲۴۰ صفحات پر مشتمل ہے ، جسکے صفحہ نمبر ۱۵۲ سے ۱۵۵ تک “ سچ “ پر گفتگو میں کمال کی فلاسفی ہے.
بلاشبہ یہ ایک شاندار ناول ہے ۔ نعیم بیگ صاحب اور عکس پبلیکیشنز کے لئے تحسین و آفرین، مبارکباد اور دعائیں ۔