میں نے ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ مارچ 1959 میں جب مجھے پشاور یونیورسٹی نے ڈگری دی تو صدر جنرل ایوب خاں نے کنووکیشن کی صدارت کی تھی ۔مارشل لا کو صرف 5 ماہ ہوۓ تھے چنانچہ جملہ حاضرین بشمول راقم الحروف کی دہشت سے "پتلونیں گیلی نہیں تو ڈھیلی ضرور ہو رہی تھی"۔۔اس جملے سے شاید آپ کو یاد آجاے۔۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ "پر امن انقلاب" اسم با مسمیٰ ثابت ہوا۔ ایوب خان بلا روک ٹوک راولپنڈی میں پھرتے تھے۔بارہا خود گاڑی چلاتے نظر اتے تھے اور ان سے کویؑ بھی ہاتھ ملانے کی سعادت حاصل کر سکتا تھا،خود میں ایک بار"لندن بک کمپنی" میں ان کے ساتھ کھڑا پایا گیا۔ سلام کے جواب میں میرے کندھے پر شفقت سے تھپکی دے کر وہ گاڑی میں بیٹھے اور ڈراییؤ کرکے چلے گۓ۔ان کی سواری کبھی"با ادب با ملاحظہ ہوشیار" کی اور ہٹو بچو کے نعروں کے ساتھ نھیں گزری۔نصف صدی پہلے حکمران کبھی رعایا سے خوف زدہ نہیں دیکھے گۓؑ
جنرل کے ایم شیخ بھی آج کے کسی وزیر داخلہ سے زیادہ ہی مسکین طبع تھے۔اصل میں ذکر مقصود تھا جنرل اعظم خاں کا جو وزیر بحالیات بناۓ گۓ تھے،اب بیشتر لوگ سوال کریں گے کہ یہ بحالیات کا محکمہ کسے بحال کراتا تھا؟ سیلاب زدگان کو؟ زلزلے کے متاثرین کو؟ یاجبریبے دخل اور برظرف کۓؑ جانے والوں کو؟ جی نہیں آپ کی اطلاع کیلۓ وضاحت ضروری ہے کہ تقسیم کے بعد جو لٹ پٹ کرپاکستان آےؑ۔ایک مستند روایت کے مطابق ان کی تعداد 20 لاکھ تھی۔ان میں ایسے بھی تھے کہ طوطے بٹیرمعہ پنجرے کے اٹھا لاۓ اور وہ بھی جن کا مال ومتاع اور گھر بار ھی نھیں کچھ کی بہن بیٹیاں بھی چھن گیؑں بحالیات کا محکمہ انہیں آباد کرنے کیلۓ بنایا گیا تھا اورظاہر ھے انکو آباد کرنےکیلۓ گھر تو انہی کے تھے جو یہاں سے گۓ تھے ۔۔اب اس مملکت خداداد پاکستان میں بدعنوانی اور کرپشن کا پیلا در وا ہوا۔ کچھ تو اپنی پیچھے رہ جانے والی جایداد کے کاغذات لا سکے تھے۔ان کو کسی ہندو سکھ کی چھوڑی ہویؑ مساوی قیمت کی جایداد مل گیؑ
اکثریت تو صرف جان بچا کے لا سکی تھی۔ان کی مدد کیلۓ ایجنٹون کا ایک گروہ سامنے آیا انہوں نے دعویدارون کو بڑھا چڑھا کے اپنی چھن جانے والی جاگیر کے کلیم داخل کرنے پر اکسایا دو کمروں کے گھر میں رہنے والے نے اسے حویلی بتایا۔اور کسی کے باپ کا نام سلطان تھا تو اس نے حلفا" کہا کہ پدرم سلطان بود۔۔جھوٹ کی حد کہاں ۔۔لطیفے عام ہوگۓ کہ ایک مالی نے دعوے کیا کہ ہمارا تو سوامیل لمبا باغ تھا۔۔اور چوڑا؟ سوا فٹ۔۔کاشت کیا کرتے تھے؟پودینہ۔۔ کسی نے پاکستان کے لۓ سوایکڑ قربان کرنے کا ڈراما کیا۔۔ زمیں کیان تھی؟ دریاۓ جمنا نے رخ بدلا تو نیچے آگیؑ۔۔تاج محل کے سامنے تھی۔۔ لوگوں نے موقعہ غنیمت جان کے ذات بدل لی۔ارذل مانے جانے والے اشراف بن بیٹھے
قصہ مختصر،جھوٹے دعوے دار۔۔جھوٹے گواہ۔۔جھوٹی دستاویزات سب محکمہؑ بحالیا ت کو پیش کردیا گیا ۔ایک گروہ جھوٹ کو سچ بنانے والوں کا سرحد پار سے تعاون کرتا رہا اور تصدیق ہوتی چلی گٰیؑ دس کے سو مانگنے والے کو پچاس مل گۓ باقی پچاس دونو طرف کے بے ایمانوں نے ایمانداری سے تقسیم کۓ۔۔ کیا یہ کہنا ضروری ہے کہ اس جھوٹ کو سچ ماننے والے محکمہؑ بحالیات نے دونوں طرف سب سے زیادہ کماۓ۔ ؟۔یعنی دعویےٰ تسلیم کرنے اور فقیر کو شاہ بنادینے والوں نے۔۔لیکن یہ کھیل آسان بہر حال نہ تھا۔دیوانی مقدمات کے دیوانہ کرنے کا محاورہ یونہی تو نھیں بنا۔ میرے سسر کی جایداد کتنی تھی؟ مجھےمعلوم ھے ان کو دھرمپورے کی ایک گلی میں 6 کمروں کے مکان کا آدھا 1960 میں ملا اور دھکے کھاتے انہیں ٹی بی ھوگیؑ ۔47 سال کی عمر میں وہ خون اگلتے ریلوے ہسپتال میں دنیا سے رخصت ھوۓ۔تین ماہ قبل ان کی ایک بیٹی اور بیوی کویٹہ سینی ٹوریم میں وفات پا چکے تھے اور وہیں مد فون ھیں۔۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ کلیم نے ان تینوں کی جان لی۔ان کے پاس اپنا علاج کرانے کی فرصت ھی نہ تھی 4 گھنٹے میرے شاعر والد بھی شاہ عالمی گیٹ لاھور میں ایک چار منزلہ عمارت کے مالک رہے۔۔یہ دلچسپ کہانی پھر سہی
یہ تھا محکمہؑ بحالیات جس کے وزیر جنرل اعظم ہوۓ تو عہد کیا کہ 13 سال سے جاری فراڈ جھوٹ رشوت اور کرپشن کا یہ کھیل اب بند ھونا چاہٰۓ اور اس کی مدت انہوں نے غالبا" دو سال مقرر کی۔۔اب ناممکن کو ممکن اس نے کیسے کر دکھایا میں اس کی تفصیل جانتا بھی نہیں اور اس میں جاتا بھی نہیں۔1953 کے مارشل لا میں کافی لوگ مارے گۓ تھے اور کہا جاتا ہے کہ گوالمنڈی کا علاقہ ان کی جان کے دشمنوں کا گڑھ تھا،اس علاقے سے داخل کٰۓ گۓ کلیم اس نے سب سے پہلے ختم کۓ۔ ایک صبح گوالمنڈی کے کسی باسی کے دروازے پر دستک ہوٰیؑ۔وہ برتن لے کر آیا تو دودھ والے کی جگہ جنرل اعظم جسے وہ پیچانتا نہ تھا۔وزیر بحالیات نے نام پوچھا اور اپنا تعارف کرا یا"میں جنرل اعظم،،آپ کا کلیم منظور ہونے کے کاغزات لے کر حاضر ہوا تھا" اس کو پی ٹی اویعنی Permanent Transfer Order کہا جاتا تھا۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس شخص کی حیرت مسرت اور بے یقینی کا؟ جنرل اؑعظم خاں دوسرے دعویدار کے در پر گیا۔صرف ایک گھنٹے میں اس کے جانی دشمن گلی میں اس کی جیپ کو گھیر چکے تھے اور فضا "جنرل اعظم زندہ باد" کے نعروں سے گونج رہی تھی
یہ کام اس نے مقررہ مدت میں ختم کرکے بحالیات کا محکمہ ختم کردیا۔۔کیسے؟ یہ محاورےمیں یوں کہا گیا ہے کہ "جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے" اور اس شخص نےبعد میں مزید دو چیلنج قبول کر کے ثابت کیا،لیکن وہ کہانی ہی الگ ہے اور اس سے زیادہ ٹریجک اس مرد آھن کا دردناک انجام۔ایک واقعہ میرے علم میں ہے ۔وہ سن لیجۓ،،میرا ایک دوست اشفاق محکمہؑ بحالیات پنڈی میں تھا اور مال پر کینٹ بورڈ کی عمارت میں اس کا دفتر، سرکلر آیا کہ وزیر محترم فلاں تاریخ کو معاینے کیلۓ آییؑں گے۔وزیر کو معلوم تھا کہ معاینہ کیسے کرایا جاۓ گا۔ وہ ایک ہفتہ قبل صبح صبح پہنچ گیا۔اشفاق دروازے کے سامنے میز پرٹانگیں پھیلاۓ چاۓ سگرٹ پیتے ہوۓ کسی سے گپ لگا رہا تھا ۔جنرل اعظم نے کچھ پوچھا۔اس نے سوال کرنے والے کی صورت دیکھی اور آگے جاو کا اشارہ کر دیا۔۔آگے بیشتر عملہ غایب تھا۔جو تھے انہوں نے جنرل کو پہچانے بغیر وہی رویہ رکھا جو عوام کے ساتھ ہوتا تھا۔یہ کس کے خواب و خیال میں آ سکتا تھا کہ وزیر یوں بھی ا سکتا ہے۔اعظم خان تمام صورت احوال جان کے لوٹ گیا۔جب وہ مقررہ تاریخ پر اسی لباس میں معاینے کیلۓ نمودار ہوا تو اسے پہچان کے اشفاق کے جسم کا فالتو پانی بلا ارادہ خارج ہو گیا دنیا نظر میں اندھیر اور نوکری خلاص نظر آنے لگی
لیکن جنرل اعظم نے سب کو جمع کرکے ایک ایک کا جرم بتایاعام معافی دی اور کہا کہ میں صرف ایک موقعہ دیتا ہوں۔ خود اس کیلۓ دوسرا موقعہ کورنگی آباد کرنے کا تھا اور یہ شھر اس نے چھ ماہ میں آباد کیا تھا۔مجھے یقین ھے اب بھی کراچی میں اس کارنامے کے چشم دید گواہ بہت ھونگے کہ کس طرح وہ دن رات ہر کام کی نگرانی خود کرتا تھا اور بلا کی طرح نازل ہو جاتا تھا۔۔ جہاں چاہ ھے وہاں راہ ھے کی دوسری مثال۔اس نے گورنر مشرقی پاکستان کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کرکے اپنے پاوں پر آخری کلہاڑی خود ماری۔ کہانی کا آخری حصہ کل۔۔قسط نگار ہوں نا۔۔قارییؑں کو زیر دام لینا جانتا ہوں۔
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1009598875788797