ان سب احباب کا شکریہ جنہوں نے وقت نکال کر خاکسار کی پوسٹ پر علمی تنقید فرمائ- پوسٹ کو پبلک اسی لئے رکھا تھا کہ پوشیدہ اہل علم سے استفادہ حاصل ہو-
اگلا مضمون پوسٹ کرنے سے قبل، دو کام کرنے ہیں- ایک تو پچھلی پوسٹ پر کئے گئے علمی تبصروں کو یکجا کرنا ہے( تاکہ مستقبل میں بھی استفادہ ہوتا رہے)، دوسرے انہی کمنٹس کے آئینے میں ناشائستہ حضرات سے جان چھڑانی ہے( تاکہ محفل کی سنجیدگی برقرار رہے)-
اب آپ اہل علم احباب کے چنیدہ نکات کا خلاصہ اور خاکسار کا تبصرہ ملاحظہ کرلیجئے-
پہلا تبصرہ جناب Ghulam Yasin, Aksam Saria اور میرظہیر تالپوری کی طرف سے تھا جس میں مولانا صفدر اوکاڑوی کے حوالے سے بتا یا گیا کہ گدھا اس لئے حرام ہے کہ یہ جگالی نہیں کرتا- (ان تینوں حضرات کی توجہ کا شکریہ)-
اس پہ عرض ہے کہ جگالی کی بنیاد پہ حرمت کا فیصلہ قرآن میں تونظر نہیں آیا البتہ اگر مولانا کی بتائ سادہ نشانی اور قرآنی اصول میں تفاوت نہیں ہے تو مولانا کی عرق ریزی کو سلام ہے ورنہ جگالی، حرمت کا سبب نہیں ہوسکتی-
جناب Noor Mohammad Chan Bachaکا کمنٹ ہے کہ اگر اصول قران ہے تو کتا کیوں حرام ہے؟- اسکا جواب ، میر ظہیرتالپور صاحب نے دے دیا کہ وہ درندوں میں سے ہے-
باچا صاحب نے مزید مجھ سے منسوب کرکے یہ کہا کہ جس حدیث کو عقل تسلیم نہ کرے وہ نہیں مانی جائے گی- واضح ہو کہ میں نے یہ بات نہیں کہی-البتہ یہ میرا دعوی ہے دین اسلام کی کوئ بات خلافِ عقلِ انسانی نہیں-
محترم Aziz Urrahman Hijaziنے بخاری کی حدیث شیئرکہ گدھے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر حرام قرار دیا ہے-یہ تین حدیثیں ہیں- ایک میں حضور نےجنگلی گدھے کا گوشت کھایا اور شہری گدھے کو حرام قرار دیا- دوسری میں غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کو حرام اور گھوڑے کوحلال کہا- تیسری میں پالتو گدھے کو حرام کہا-
بخاری کے متن کی مزید تشریح علماء کرتے رہے(ورنہ اول وقت نماز پہ بخاری کی ہی مانی جاتی) مگر میری الجھن یہ ہے کہ پالتو اور جنگلی گدھےکی تخصیص کیوں؟ – مولانا نے جواب میں فرمایا کہ جنگلی گدھے سے مراد زیبرا ہے- اس پہ بھی الجھن ہے کہ زیبرا ، صحرا کا جانور نہیں اورایک الگ جنس ہے- ایک جنس کی بات کرتے ہوئے، اسی جنس بارے ہی دوسری رائے دی جاتی نہ کہ الگ جنس بارے- بہرحال، اس الجھن کو سلجھانا اہل علم کے ذمہ ہے-
مولانا نے ایک نکتہ یہ پیش کیا کہ نصِ صریح، قرآن اور حدیث دونوں ہیں- خاکسار کی رائے میں حلال وحرام کا اختیار صرف قرآن کے پاس ہے- ایک جگہ پر قرآن نے رسول کو مخالطب کرکے فرمایا کہ حلال کو کیوں خود پر حرام کرتے ہو؟ پس یہ اختیار، رسول کا نہیں-البتہ قرآن کی اولیں تشریح رسول کا حق ہے اور اس لحاظ سے اگر رسول کسی چیزکی حرمت کا کہے تو وہ قانون ہے-
ایک سوال انہوں نے حجیت حدیث کا بھی اٹھایا- عرض ہےکہ حجیت حدیث اور حجیت بخاری الگ چیز ہیں- پہلی کو مانے بغیر مسلمان نہیں ہوتا- دوسری پہ امت متفق نہیں اور ہم پوری امت کی طرف سے مقدمہ پیش کرتے ہوئے صرف قرآن کو پیش کریں گے-
(میں مولانا عزیزالرحمان ہزاروی کی توجہ کا مشکور ہوں)
جناب Zahid Ullahصاحب نے ایک فقہی کتاب کا سکرین شاٹ پیش کیا جس کے مطابق گدھا اس لئے حرام ہے کہ:
:1۔اس کی حماقت مشہورہےحتی کہ بےوقوفی میں ضرب المثل ہے2۔گھاس کھاتاہےلیکن گندگی مل جائےتواس کو بھی کھاتاہے3۔اسکا گوشت انسانی طبیعت کےموافق نہیں۔
اس پہ عرض ہے کہ گدھے کی حماقت کا تعین کس نے کیا ؟ کیا بھیڑ نے “سی ایس ایس” پاس کیا ہے؟- اگر گدھے کی بے وقوفی ضرب المثل ہے تو “بھینس کے آگے بین بجانا ” بھی عام محاورہ ہے- یہ بات حرمت کی دلیل نہیں-
دوسرے یہ کہ گدھا،گھاس کے علاوہ گندگی بھی کھاتا ہے- اس بارے مجھے معلوم نہیں- تھوڑی بہت گندگی تو عام جانور کھالیتے ہیں -اگر گدھا خصوصی طر پر ایسا کرتا ہے تو واقعی یہ ایک دلیل حرمت کی بن سکتی ہے- تیسری بات کہ اسکا گوشت انسانی طبیعت کے موافق نہیں- اسکا تعین غذائ ماہرین کریں گے-(لکل فن الرجال)-
(زاہد صاحب کے کمنٹ کا بھی شکریہ)-
خاکسار سے کچھ سوالات بھی کئے گئے جنکا اپنے فہم بھر مختصر جواب دیا- سوال کرنے والے حضرات کا بھی شکریہ-
عثمان غنی خان کا سوال ہے کہ اسلام کا یہ اصول آپ نے کہا ں سے لیا؟ -جواب ہے کہ قرآن سے- قرآن میں فرمایا کہ نباتات اور چوپائے تمہاری خوارک کیلئے پیدا کئے گئے- پھر فرمایا تمہارے چوپایوں کیلئے گھاس پیدا کی گئی- پس وہی چوپائے حلال ہیں جو گھاس خور ہیں –( ورنہ کہاجاتا کہ تمہارے چوپایوں کیلئے گھاس اور گوشت پیدا کیا گیا)-
محترم Rashid Hamza کا سوال ہے کہ خنزیر اگر حرام ہے تو اس سے بنی دوسری مصنوعات استعمال کرنا کیوں حرام ہے ؟-اس پر مختصر جواب یہ دیا کہ زمانہ موجودہ کی تحقیق تک، خنزیر کے گوشت ومصنوعات سے کوئ خاص طبی ضرر دنیا کے سامنے نہیں آیا تو سیکولرز کے نزدیک، یہ فقط عقیدہ ومذہب کا مسئلہ ہے- اب جو لوگ، عقیدہ کی بنا پر اسے حرام سمجھتے ہیں تو انکے لئے ٹھوس دلیل کی بجائے، قرآن وحدیث دلیل ہوگا- چنانچہ، جیسے کہا جاتا ہے کہ مال حرام سے مسجد نہیں بنتی تو ویسے ہی حرام جانور اور اس کے متعلقات سے استفادہ بھی حرام ہے- تاہم، یہ شق صرف مسلمانوں کیلئے ہے-دنیا کو ہم تب منوائیں گے جب ہمارے اہل علم، اسکی مضرت کی کوئ زمینی دلیل لائیں گے-
جناب Tarique Mehmoodصاحب کا سوال ہے کہ اگر حلال وحرام خدا کی طرف سے ہے تو ڈاکٹر کی منع کردہ اشیاء کیسے حرام ہونگی؟- جواب ہے کہ ڈاکٹر کے پاس حلال وحرام کا اخیتار نہین ،وہ صرف اپنی سپیشلٹی کی بنیاد پر غذا کو اس لسٹ میں ڈال دیتا ہے جو خدا کی منشاء میں حرام ہے-مزید عرض ہے کہ حلال وحرام کا اختیار قرآن کے پاس ہے اور ان دو انتہاؤں کے درمیان بارے دلیل اور رائے دینا ہر کسی کا حق ہے-مگر کسی دیگر شخص کی رائے کو وحی نہیں قرار دہا جاسکتا-
جناب نثار احمد جدون صاحب کا نکتہ ہے طیب اور خبیث کا تعیین کون کرے گا؟- اسکا جواب ہے روحانی، وجسمانی اور غذائ سپیشلسٹ مل کر کریں گے- پہلے والے سپیشلسٹ، پہلے قرآن وحدیث سے مدد لیں گے اوراسکے بعد باقی دونوں ماہرین کی آراء کی مدد سے شرعی فیصلہ صادر کریں گے-
بھائ Noor Zada صاحب نے فرمایا کہ ۔گدھا اگر حلال بھی ھوا تب بھی کھانے کا ابھی تک نھیں سوچا-عرض کروں گا کہ خاکسار تو پیپسی پینے کا بھی روادار نہیں مگر حلت وحرمت کاتعیین بہرحال ہونا چاہیئے-
ناپسندیدہ احباب:
مجھے افسوس ہے کہ چند احباب کا اسلوب گفتگو ناشائستہ ہونے کی وجہ سے انکو بلاک کرنا پڑا ہے- ہوسکتاہے کہ ان کے بارے میرا تاثر غلط ہو مگر یہ کہ میری “وال” پر مجھے اپنا
تاثر بنانے کا حق حاصل ہے- پس انکے لئےنیک خواہشات-
اب کچھ باتیں اپنے سیکولر احباب کے نام:
دیکھئے کالاباغ ڈیم بارے ہرپاکستانی، اپنے فہم، تجربے، اور مشاہدے کے بقدر رائے دینے کا حقدار ہے مگر حتمی فیصلہ پروفیشنل انجنیئرہی کریں گے- اسی طرح، دین میں بھی ہم اپنی رائے بنانے اور بتانے میں آزاد ہیں مگر حتمی فیصلہ اس فن کے ماہرین کو کرنا ہوگا- ہم سیکولرز، اجتماعی مسائل ( دینی ہوں یا دنیوی)، اسکے فیصلے کا حق کسی ایک پروفشنل کو نہیں بلکہ پروفشنلز کی ایک ٹیم کو دینا چاہتے ہیں-
دوسری بات یہ کہ ہر سیکولر، اپنا فردی عقیدہ رکھنے، نہ رکھنے میں آزاد ہے مگر نظم اجتماعی کیلئے ضروری ہے وہ کسی گروہ یا ہارٹی کا حصہ بنے- یہ بات سوسائٹی کے ڈسپلن کیلئے ضروری ہے ورنہ انتشار ہوگا-(باہمی انسانی احترام ضرور ہونا چاہیئے)-
اب اس بارے ضروری نکتہ نوٹ کیججئے-
ایک ہوتی ہے رائے، ایک ہوتا ہے موقف-
کسی ادارے کے ایک رکن کی ایک تو ذاتی رائے ہوا کرتی ہے جسکا وہ اظہار کرتا ہے مگر اسکا ایک جماعتی موقف بھی ہوتا ہے جسکا وہ پابند ہوتا ہے-
خاکسار کیلئے سیاسی مسائل میں مقتدا مولانا فضل الرحمان ہے – مولانا سے کئی سیاسی مسائل پہ رائے کا اختلاف رکھتا ہوں مگر میرا سیاسی موقف وہی ہے جو مولانا کا ہے-
اسی طرح میرے لئے مذہبی مقتداء، مولانا تقی عثمانی صاحب ہے-مذہبی مسائل بارے اپنی ذاتی رائے بھی رکھتا ہوں مگرفردی مسائل میں میرا موقف وہی ہوگا جو عثمانی صاحب کا ہوگا اور اجتماعی موقف میں وہ ہوگا جس پرکوئ قومی فورم (اسلامی نظریاتی کونسل) فیصلہ دے گا- اور اسی طرف متوجہ کرنے ہی یہ سلسلہ مضامین شروع کیا ہے- والسلام-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...