’’گدھا بڑا مشہور جانور ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو چار پاؤں والے اور دو پاؤں والے۔ سینگ ان میں سے کسی سَر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔۔‘‘
واہ! کیا یاد کرا دیا! میری سب سے بڑی آپا (ابنِ انشأ انکے پسندیدہ مصنفوں میں سے تھے) نے ایک دفعہ فرمایا تھا: ’’اگر بچے ذہین ہوں تو زیادہ پیدا کرنے چاہیئں‘‘۔
میَں حسبِ معمول سوال کئے بغیر نہ رہ سکا، ’’وہ کیوں؟‘‘ مَیں نے پُوچھا۔
’’پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کو سمجھ آ جاتا ہے کہ دنیا کی آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اسلئے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کم بچے پیدا کریں اور دو پر ہی اکتفا کر کے صِفر اضافۂ آبادی (Zero Poulation Growth) کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ جو جاہل گدھے ہوتے ہیں وہ یہ گمبھیر مسئلہ نہیں سمجھتے، بچوں پر بچے پیدا کرتے جاتے ہیں، اُن کو پڑھا لکھا سکھا نہیں سکتے۔ اس طرح اِرتقأ کے اُصول پر معاشرے میں جاہل گدھوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، ذہین گھوڑوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ اس نام نہاد جمہوریت میں گدھوں کی اکثریت گدھوں کو ہی ووٹ دیتی ہے جو اقتدار میں آ جاتے ہیں اور گھوڑوں پر گدھوں جیسی اہلیت والی حکومت کرتے ہیں۔‘‘ آپا نے بظاہرمنطقی جواب دیا۔
کئی سال میَں اس منطق پر غور کرتا رہا، اس پر یقین کرتا رہا، اس منطق کی بنأ پر اپنے پیارے وطن میں گدھوں کے ہاتھوں گھوڑوں کا حال دیکھ دیکھ کر سڑتا جلتا کُڑھتا رہا۔ چند سال پہلے بالکل اتفاق سے ایک تصویر نظر سے گُزری جس میں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد جنگی جرائم میں ملوث چوبیس سینئر جرمن جرنیلوں اور سیاستدانوں پر نورمبرگ کی ملٹری ٹریبونل عدالت میں مقدمات چلا کر سزا سنائی گئی تھی۔ مقدمے کے لئے سب ملزموں کا نفسیاتی جائزہ لیا گیا تھا۔ جب انکی ذہانت (I.Q) ناپی گئی تو معلوم ہوا کہ ان سب کا اسکور عام اوسط سے کہیں زیادہ تھا اور بعض تو جینئس (Genius) کے درجے پر فائز تھے!!!!
اس مطالعے کے بعد مجھے اپنی حماقت اور جاہلیت کا اندازہ ہوا۔ ضروری نہیں کہ ہر بات منطقی ہو۔ کچھ سچ منطق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارا پیارا وطن!
اسلئے سڑنے، جلنے کُڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی بہتری کے لئے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کریں۔ گدھے کی طرح محنت کرنی پڑے یا گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑنا پڑے۔ گدھا کھانا اور گدھوں کو ووٹ دینا بند کردیں۔ گھوڑا پالیں کیونکہ سامانِ حرب میں سے ہے۔ نسل کو نہ دیکھیں تیز گھوڑوں کو ووٹ دیں لیکن ان گھوڑوں کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
“