غدار ٹوپیاں
جب ہم حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوئے تو سندھ دھرتی کی وہ روایات بھی ہمارے اندر منتقل ہوچکی تھیں، جو کراچی میں مقیم شمالی ہندوستان سے منتقل ہونے والے ہمارے عزیزوں کے لیے انوکھی اور عجیب تھیں۔ جن میں سے ایک اجرک کاندھے پر ڈالنے کی عادت اور عباس علمدار کے پنجے والے علم کی تیاری۔
یہ ثقافتی تفریق تھی جو اکیسویں صدی میں گلوبلائزیشن کے بعد اُن اقوام کے مابین بھی نابود ہوتی جارہی ہے، جن کے درمیان سات سمندر حائل ہیں، چنانچہ کچھ سیاسی گِدھ اور گدھے ان تفریق کو اُبھارنے کی کوشش کررہے ہیں، تو یوں لگتا ہے کہ یہ تفریق ہزاروں سال چلتی رہے گی، لیکن موجودہ نسل جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے، ان تفریق سے کافی حد تک آزاد ہوچکی ہے، اور اگلی نسل تک ان تفریق کا نام و نشان تک مٹ چکا ہوگا۔
ثقافتی روایات میں تغیر و تبدل جاری رہتا ہے، جہاں جہاں تعمیری تغیر و تبدل کو خوشی خوشی قبول کیا جاتا ہے، وہاں ترقی و خوشحالی قدم چومتی ہے۔
لباس کا تعلق ہمیشہ خطے کی آب و ہوا اور جغرافیائی ساخت سے رہا ہے۔ لیکن آج ٹیکنالوجی کی فروانی اور نچلی سطح تک آسان رسائی نے اس تصوّر پر بھی ضرب لگادی ہے۔
ماضی پرست لباس کو بھی اخلاقی اقدار سے ہم رشتہ کرتے ہیں، آج بھی وہ اسی قسم کی احمقانہ طرز فکر میں مبتلا ہیں۔ جیسے کہ کسی زمانے میں جب دھوتی باندھنے والے معاشرے کے سامنے شلوار متعارف کرائی گئی تو دھوتی پرستوں نے اسے ایک فحش لباس قرار دیا تھا۔
بہت سے شلوار پرست شاید اس بات پر غم و غصے سے دوچار ہوجائیں کہ ہمیں شلوار سے ہمیشہ سے ہی حذر رہا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک احمقانہ لباس ہے، کہ جس میں بہت سارا کپڑا بلاوجہ ضایع کیا جاتا ہے۔ پاجامہ ایک مہذب لباس ہے، جو آج پتلون یا پینٹ کی صورت میں رائج ہے۔
سچ پوچھیے تو آج کے دور کا فقیری لباس جینز اور ٹی شرٹ ہے۔ جسے ایک مرتبہ استری کرکے چار پانچ دن پہنا جاسکتا ہے۔ یوں بجلی بھی کم خرچ ہوتی ہے، دوسرے کرتا شلوار پر استری کرنے میں وقت بھی بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے، جبکہ کرتا پاجامہ بھی ایک مرتبہ استری کرکے ایک دن ہی پہنا جاسکتا ہے۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں فخریہ پہنی جانے والی دس بارہ گز کی گھیردار شلوار پر تقسیم ہندوستان سے قبل سائیں جی ایم سید نے سخت اعتراض کیا تھا، اور سندھ کے مسلمانوں کو اس کا گھیر کم کرنے کی تلقین کی تھی، مزید یہ کہ سندھ کے ہندو ؤں کی مثال دیتے ہوئے ان کی تقلید کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔
تقسیم ہندوستان کے کافی عرصے بعد بھی سندھ میں سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی کا رواج نہیں تھا۔ آپ بھی اس دور کی بلیک اینڈ وہائٹ تصاویر دیکھ لیجیے، ہمیں تو ان میں سندھ کی بڑے بڑے رہنماؤں میں سے کوئی بھی سندھی ٹوپی یا اجرک پہنے نہیں نظر آیا، یہ رواج شاید ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوا۔ اس ضمن میں ہم سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر مرزا سلیم بیگ Saleem Baig صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ حقائق بیان کریں۔
تاہم آج جب سندھ واسیوں نے سندھی ٹوپی اور اجرک کو اپنی شناخت قرار دے دیا ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو لڑکپن سے جوانی تک ہمارے کاندھے پر اجرک ہماری شخصیت کا حصہ بنی رہی۔ سندھی طرز کی مونچھیں بھی ہماری پہچان تھیں۔ گوکہ ڈیل ڈول اس وقت بھی منحنی سا ہی تھا، لیکن ہماری مونچھوں پر لیموں ٹھہرجاتا تھا۔
لیکن پھر زیاں الحق کے دور میں کراچی میں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو مونچھیں، اجرک، سندھی ٹوپی بھی پکڑ دھکڑ کرنے والوں کے لیے بہانہ بن گئی، یہاں تک کہ کراچی میں جینز کی پینٹ اور کلف لگے کاٹن کے شلوار قمیض سوٹ پر بھی پابندی لگ گئی تھی۔
تب سے نہ تو نتھولال رہے نہ نتھولال کی مونچھیں۔
پروفائل پکچر میں جو آپ سندھی ٹوپی دیکھ رہے ہیں، اس کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے، ہمیں جہاں بھی سندھی ٹوپی فروخت ہوتی دکھائی دیتی ہے، ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ ہم نے کچھ دیر ٹھہر کر دام وغیرہ معلوم نہ کیے ہوں، چونکہ ان کی قیمت عموماً دو ہزار سے لے کر پانچ چھ ہزار تک ہوتی ہے، اس لیے ہمیشہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔
رمضان کے وسط میں ہم منگل بازار میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سبزی وغیرہ خرید رہے تھے کہ ایک باباجی کے ہاتھ میں بہت سے ڈیزائن اور رنگوں کی سندھی ٹوپیاں دکھائی دیں، ہم نے حسبِ معمول انہیں روک لیا، اور دیکھنے لگ گئے۔ ایک ٹوپی پہن کر دیکھی اور دام پوچھے تو انہوں نے بارہ سو روپے بتائے، حسبِ عادت ہم نے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا، تو وہ باباجی گلے پڑ گئے، بولے سائیں آپ کیا دو گے، ہم نے کہا ابھی ہم نے نہیں لینا ہے…. وہ بولے کہ آپ بتاؤ تو بابا آپ کیا دوگے؟ ہم نے پھر اپنا وہی جواب دوہرایا۔ لیکن وہ اصرار کرتے رہے، ہم نے کہا باباجی اس وقت تو ہمارے پاس اضافی سو روپے ہی بچے ہیں، انہوں نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور بولے لاؤ سو روپے۔ یوں اس عید پر ہم نے کئی عشروں کے بعد بالآخر سندھی ٹوپی پہن ہی لی۔
رہ گئی بات کرتا پاجامہ کی تو یہ ہر عید پر ہماری اہلیہ ہمیں زبردستی خرید کر دیتی ہیں۔ ہم سال میں عیدین پر ہی یہ لباس پہنتے ہیں۔ نماز پڑھنے کی توفیق تو نہیں ملتی البتہ مولویوں کے نزدیک اسلامی لباس پہننے کی توفیق ضرور مل جاتی ہے، اللہ قبول فرمائے۔
باقی سارا سال الحمدللہ ہم کافروں کا لباس جینز اور ٹی شرٹ ہی پہنتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں زندگی آسان اور خوشگوار گزرتی ہے۔
شلوار میں اسلام ضرور آزاد ہوتا ہے، لیکن اسے پہن کر ایک شریف انسان آزادی کے ساتھ بھاگ دوڑ نہیں کرسکتا، اور ناڑے وغیرہ کے حوالے سے بھی کافی سخت قسم کے مضمرات پائے جاتے ہیں۔
یہ بات موجودہ نسل کے علم میں نہیں ہوگی کہ کسی زمانے میں سندھی ٹوپی بھی غدار ٹوپی سمجھی جاتی تھی۔ ہم اس زمانے میں بھی سندھی ٹوپی فخر سے پہنتے تھے۔ پشتین ٹوپی ہمیں کوئی دوست تحفتاً پیش کریں گے تو ہم وہ بھی خوشی خوشی پہن لیں گے۔
شاہین بچوں اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگوں کی مانند ہم حب الوطنی کا موازنہ ٹوپیوں سے نہیں کرتے۔ یہ فکر انہیں ہی مبارک ہو، جنہوں نے ٹوپیاں چیک کرکرکے ملک دولخت کردیا تھا۔
ہمارے ایک عزیز بھی اسی قسم کی فکر کے حامل ہیں اور شکریہ راحیل شریف کا سوالاکھ مرتبہ ختم کرچکے ہیں۔ ایک تقریب میں ہمیں بتا رہے تھے کہ پاک فوج کے ایک معروف جنرل ان کے دور کے رشتہ دار ہیں۔
اسی تقریب کے میزبان سے ہم نے ان کا تعارف کچھ ان الفاظ میں کروایا کہ …. یہ رشتے میں فلاں جنرل کے چھوٹے خصیے ہیں!
شکر ہے کہ کراچی کے اردو اسپیکنگ کمیونٹی کے بیشتر لوگوں کی اردو ، الّا ماشاءاللہ ہوچکی ہے، نہ تو موصوف سمجھے اور نہ ہی میزبان۔
اگر آپ سمجھ گئے ہیں تو کسی سے کہیے گا نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“