"غدار تو غدار سہی"
جہاں تک شجرہ نسب یاد ہے، سب اسی دھرتی میں پیدا ہوئے، اسی میں دفن۔ ایک بار دور سے ابو کے گاؤں کا قبرستان دیکھ کر سوچتا رہا کہ ان درختوں اور پودوں کی جڑوں میں میرے اجداد کی ہڈیاں شامل رہی ہوں گی۔ اس دھرتی سے محبت فطرت میں شامل ہے۔
کبھی یہ دھرتی خراسان کہلاتی تھی، کبھی افغانستان۔ پھر ہندوستان کہلائی اور گزشتہ اکہتر برسوں سے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ اعتراف لازم ہے کہ اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے میں میرے بزرگوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ وہ ایک رات ہندوستان میں سوئے تو صبح آنکھ پاکستان میں کھلی۔ میرے نانا اور دادا نے تحریک آزادی یا قیام پاکستان کی جدوجہد میں ایک تنکا بھی دہرا نہیں کیا، اس لئے مہاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ جس اردو، پنجابی مہاجر سے ملیں، پتہ چلتا ہے اس کے نانا یا دادا علاقے کی مسلم لیگ کے سیکرٹری تھے۔ ان سیکرٹری زادوں کو خود سے برتر پاکستانی سمجھتا ہوں کیونکہ پاکستان بنانے والے آپ لوگ ہیں، ہم تو صرف رہ رہے ہیں اس میں۔ یہ اور بات کہ جب آپ نے نہیں بنایا تھا ہم تب بھی اسی میں رہ رہے تھے۔
ویسے تو پاکستان جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں معجزہ ہے، ستائیسویں شب کی کرامت ہے اور اولیاءاللہ کی دعاؤں کا نتیجہ اینڈ بلاہ بلاہ بلاہ ہے، جسے تاقیامت قائم رہنا ہے۔ مگر خاکم بدہن کل کلاں کو اس کا نام کچھ اور بھی پڑ گیا تو مجھے پھر بھی اسی میں رہنا ہے- چونکہ فی الحال جیب جس ملک میں سیٹل ہونے کی اجازت دیتی ہے، وہ افغانستان ہے اس لئے "تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا"
میرے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ میں اس ملک کو کوئی معجزہ یا کرامت نہیں سمجھتا۔ اس کے قیام کی کچھ ٹھوس وجوہات تھیں اور اس کی بقا کی بھی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ میں اس جغرافیائی حدبندی جسے پاکستان کہتے ہیں، کے اندر رہنے والوں کو اس سے باہر رہنے والوں کے مقابلے میں اعلیٰ یا برتر نہیں سمجھتا۔ تیسرا مسئلہ یہ کہ اس جغرافیائی حدبندی جسے پاکستان کہتے ہیں، کے اندر رہنے والوں کو میں مذہب، لسانیت یا علاقے کے مطابق درجوں میں تقسیم نہیں کرتا، میرے لئے سب پاکستانی اور سب انسان برابر ہیں۔
اتنے سارے ذہنی مسائل لاحق ہوں تو قدرتی طور پر خواہش ہوتی ہے کہ آپ کی ریاست برابری اور مساوات کو یقینی بنائے۔ میری بے انتہا خوش نصیبی کہ میں ایسے ملک میں رہ رہا ہوں، جس کے راہنماؤں نے بہت دیر اور بہت نقصان سہنے کے بعد ہی سہی، مگر قوم کو ایک متفقہ آئین دیا ہے- یہ آئین اس برابری، اس مساوات کو یقینی بناتا ہے، ہم شہریوں کو کچھ فرائض کی ادائیگی کے بدلے کچھ حقوق دیتا ہے اور ان حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کو کچھ ادارے تخلیق کرتا ہے- ان اداروں کے اختیارات کا واضح تعین کرتا ہے اور آئین کے وفاقی ڈھانچے اور تمام خودمختار یونٹوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ بہت سے لبرلز، بہت سے دین پسند اور بہت سے غیرمسلم پاکستانیوں کو اس آئین سے بعض شکایات ہو سکتی ہیں اور وہ درست بھی ہو سکتی ہیں تاہم اس ملک کے شہریوں اور ریاست کے مابین رائج الوقت اور نافذ عمرانی معاہدہ یہی ہے- اس حیثیت میں آئین پاکستان کو میں اپنی مذہبی کتابوں کے بعد مقدس ترین دستاویز سمجھتا ہوں۔
میں نے ساری عمر بساط بھر کوشش کی ہے کہ اپنے ملک کا آئین اور قانون مجھ پر جو فرائض عائد کرتا ہے ان کی پاسداری کروں، جو پابندیاں لگاتا ہے ان پر عمل کروں اور جو حقوق دیتا ہے ان کا تحفظ کروں۔ مجھے اس ملک میں پڑھنے لکھنے کے، آگے بڑھنے کے اور ترقی کرنے کے بہت مواقع ملے اور حسب توفیق میں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ یہ احساس اور یہ افسوس ہمیشہ رہا کہ میرے لاکھوں، کروڑوں ہم وطنوں کو میرے برابر مواقع نہ مل سکے۔ بہت سی وجوہات اپ اور میں گنوا سکتے ہیں، مگر مجھے اس محرومی کی سب سے بڑی وجہ اس ریاست کی اختیارکردہ پالیسیاں لگتی ہیں۔ اپنے ہمسایوں، بڑی عالمی طاقتوں اور عالمی برادری سے اپنے تعلقات اس ریاست نے شروع سے ایسے رکھے کہ پاکستان اکہتر برسوں سے تاریخ کا نازک موڑ ہی نہ مڑ پایا۔ داخلی سطح پر بھی ریاست کی بعض اکائیوں، بعض گروہوں اور بعض طبقوں سے امتیازی رویے کی بنیادی وجہ یہی رہی کہ انہوں نے ریاست کی پالیسیوں سے اختلاف کی جسارت کی تھی۔
ان غلط داخلی اور خارجی پالیسیوں کا سب سے بڑا ذمہ دار میں اس ادارے کو سمجھتا ہوں جو سب سے زیادہ اقتدار پہ قابض رہا ہے- جس کے اس ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ اثاثے ہیں، جو اس ملک میں سب سے زیادہ رقبے پر قابض ہے، اور اکہتر میں سے اکسٹھ برس اس ملک کی سمت کا تعین جس نے کیا ہے اور تاحال کر رہا ہے- مجھے یہ شکایت بھی ہے کہ اپنے ادارہ جاتی مفاد کو یہ ادارہ ملکی مفاد سمجھتا ہے اور ان مفادات کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو وہ اس ملک، اس ریاست کا دشمن مان لیتا ہے۔
میری اس رائے سے اتفاق کرنے والے اس ملک میں بہت زیادہ ہیں، مگر ان میں سے بہت سے اس ادارے کو اس کی جائز حدود میں رکھنے کا نسخہ گڈ گورننس کو سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر سویلین جو محدود اختیارات انہیں حاصل ہیں، ان کا بہتر سے بہتر استعمال کریں تو اس ادارے کا عمل دخل خود بخود کم ہوتا چلا جائے گا۔ جبکہ عملاً بارہا ثابت ہو چکا کہ ایسا نہیں ہے-
پی ٹی آئی کے دوست بھی اور پیپلز پارٹی کے جیالے بھی اگر اعلانیہ نہیں تو دل ہی دل میں اعتراف کرتے ہیں کہ 2013 سے 2018 کا دور گورننس کے لحاظ سے کم از کم 2007 تا 2012 سے بہتر ہی رہا ہے- آپ کو سابقہ حکومت کی بہت سی یا بیشتر پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر آپ یہ مانیں گے کہ اس دور میں وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کے کسی رکن کا کرپشن کا کوئی سکینڈل منظرعام پر آیا، کسی پر غیرقانونی بھرتیوں، تعیناتیوں کا الزام لگا، نہ ہی کسی کے اثاثوں میں کوئی حیران کن اضافہ ہوا۔ پوری مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت میں صرف ایک بندے شہباز شریف کے علاوہ سب نے پچھلے پانچ سال صاف ستھرے گزارے اور ملک کو جس حالت میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر گئی تھی، اس سے بہتر حالت میں چھوڑا۔ آپ امن و امان کو دیکھیں، بجلی کے بحران کو دیکھیں یا افراط زر اور جی ڈی پی گروتھ کو۔ سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا مگر بہت کچھ ٹھیک بھی ہوا اور اس کے ٹھیک ہونے میں بھی پی ٹی آئی اور عمران خان کے کردار کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ان کے مسلسل دباؤ، کے پی کے میں بہتر کارکردگی، پنجاب اور وفاق میں کڑی نظر اور کڑی تنقید نے نون لیگ کو ڈلیور کرنے پر مجبور کیا۔ اسے آپ گڈ گورننس نہ بھی مانیں تو مقابلتاً بیٹر گورننس کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب جس شخص کی زیرقیادت ممکن ہوا اسے آج بکتربند گاڑی میں عملاً بندکمرے کی سماعت میں پیش ہوتا آپ دیکھ چکے، یہ اسے ان پانچ برسوں میں کئے کسی جرم کی سزا نہیں ملی، یہ تیس سال پرانا کھاتہ کھلا جس میں جرم ثابت نہیں ہوا مگر سزا سنا دی گئی۔ اس کی وجہ بیڈ گورننس ہرگز نہیں تھی۔
نواز شریف سے وہی جرم سرزد ہوا جو ان سے قبل باچا خان، خان آف قلات کے بھائیوں، مجیب الرحمٰن سمیت بہت سے بنگالی راہنماؤں، محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی اور الطاف حسین سے سرزد ہوا۔ ان سب نے ایک ادارے کے مفادات کو قومی مفادات ماننے سے انکار کیا، اس کی پالیسیوں کی مخالفت کی اور جسے موقع ملا اس نے متبادل پالیسی آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ گورننس ایک مسئلہ ضرور ہے مگر یہ مسئلہ سول سپریمیسی کی راہ میں رکاوٹ ہرگز نہیں۔
یہ میری سوچی سمجھی، دیانتدارانہ رائے ہے کہ جب تک ایک بھرپور عوامی دباؤ یا تحریک ہماری ملٹیبلشمنٹ کو اپنی حدود میں سکڑنے پر مجبور نہیں کرے گی۔ جب تک ان سے وفاقی بجٹ کے پچیس فیصد کا حساب نہیں لیا جائے گا، جب تک ان کے کاروباروں اور جاگیروں کو بحق سرکار ضبط نہیں کیا جائے گا اور جب تک اس عمل میں مزاحم ہونے والے چند جرنیلوں کو پھانسی نہیں لگے گی، تب تک آپ نئے پاکستان کے نعرے جتنے مرضی لگا لیں، آپ رہیں گے پرانے پاکستان میں ہی۔ میری سوچی سمجھی دیانتدارانہ رائے یہ بھی ہے کہ انگریز سرکار سے جو اقتدار ہم نے بیلٹ کی طاقت سے چھینا تھا، اس ادارے نے بلٹ کی طاقت سے وہ اقتدار ہم سے چھین لیا ہے- ہماری سرکار بدلی ہے، ہم آزاد نہیں ہوئے۔ اس لئے کل کا دن میں یوم جدوجہد آزادی کے طور پر مناؤں گا۔
سویلین بالادستی کیلئے میری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک میں چیف آف آرمی سٹاف کو ڈیفنس سیکرٹری کے کمرے کے باہر ملاقات کیلئے انتظار کرتا نہیں دیکھ لیتا۔ آئینی، قانونی اور اصولی طور پر جہاں چیف آف آرمی سٹاف کی ٹوپی ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہمارے منتخب وزیراعظم کے جوتے شروع ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہم ان سے منوا کے رہیں گے۔ اس جدوجہد میں مجھے جیل جانا، لاپتہ ہونا یا مار دیا جانا بھی قبول ہے اور اپنی قید، گمشدگی یا قتل کا احسان میں کسی شخص، کسی جماعت یا کسی حکومت پر نہیں دھروں گا، یہ اس مٹی کا قرض ہے جس میں میرے اجداد دفن ہیں۔
میں کل جشن آزادی نہیں منا رہا، کر لو جو کرنا ہے-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“