غدارکی انسانیت اور میری محب وطنی ۔۔۔۔
دوستوں سے ملاقات کے بعد میں شاہ جمال دربار چلا گیا ،رات کے دس بج چکے تھے ،دربار سنسان اور ویران دیکھائی دے رہا تھا ۔سامنے سڑک پر میں دربار کی طرف عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک کسی نے آواز دی ،میاں کہاں کھوئے ہوئے ہو؟پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک ملنگ نما انسان تھا ،کالے لباس میں ملبوس اس انسان کو دیکھ کر میں تھوڑا سا خوف زدہ ہوا۔وہ اچانک مسکرایا اور اس نے کہا،میاں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ،میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں ۔میرا نام شاہ جمال بابا ہے۔میں مزید خوف زدہ ہو گیا ،وہ پھر مسکرائے اور انہوں نے کہا ،حضور ڈر کیوں رہے ہو ؟میں دربار کے اندر سویا ہوا بابا شاہ جمال نہیں ہوں ،ہاں میرا نام سید شاہ جمال ہے۔بس یہی ایک مماثلت ہے اس دربار میں سوئے ہوئے بابے کی اور میری۔یہ سن کر میری سانس میں سانس آئی۔وہ مجھے اپنے ساتھ دربار کے ایک کونے میں لے گئے ،جہاں روشنی بھی تھی اور ایک پنکھا بھی چل رہا تھا ۔انہوں نے مجھے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ،میاں میں اچھا خاصا تعلیمی یافتہ ہوں اور یہاں لاہور میں ایک یونیورسٹی میں فلسفے کا پروفیسر ہوں ۔ہم دونوں باتیں کررہے تھے کہ اچانک چائے آگئی۔میں حیران تھا کہ سید شاہ جمال نے چائے منگوائی بھی نہیں اور کس طرح چائے آگئی۔اسی حیرانگی میں تھا کہ شاہ جمال نے کہا ،پریشان مت ہو ،جب میں کسی کے ساتھ ہوتا ہوں تو ایک اللہ کا بندہ چائے بھجوا دیتا ہے۔شاہ جمال سے بہت سے معاملات پر گفتگو ہوئی ۔شاہ جمال نے محب وطنی ،قوم پرستی ،دنیا کے مختلف ممالک اور سرحدوں کے حوالے سے کچھ گفتگو کے رنگ بکھیرے ۔ان کے خیالات مجھے عجیب و غریب سے محسوس ہوئے ۔گفتگو کے دوران بابا شاہ جمال نے کہا ،میاں ہمیشہ غدار رہنا ،کبھی بھی محب وطن بننے کی کوشش نہ کرنا ،کیونکہ محب وطنی کا مطلب انسانیت کے ساتھ غداری ہے ۔انہوں نے کہا میں کسی پاکستان کو نہیں جانتا اور نہ ہی پاکستان کو مانتا ہوں ۔انہوں نے کہا وہ پاکستان کو مشورہ دینا چاہیں گے کہ وہ قوم پرستی اور محب وطنی سے بھاگ جائے،اور یہ پاکستان دنیا کو کہہ دے کہ وہ عالمی دنیا کا حصہ ہے،اور پاکستان خود کو اقوام متحدہ کے سپردگی میں دے دے۔بابا نے کہا انسانیت کو اب محب وطنی کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا ۔جس دن ہم انسان محب وطنی کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اس ملک سے قتل و غارت گری ختم ہو جائے گی۔دہشت گردی ختم ہو جائے،انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔انسان انسان کو مارنا بند کردیں گے۔یہ دہشت گردی ،انتہا پسند اور ظلم و جبر محب وطنی،وطن پرستی ،قوم پرستی ،اور مذہب پرستی کانتیجہ ہے ،ہم تقسیم ہیں ،ہمارے اندر کشمکش اسی وجہ سے ہے۔انہوں نے کہا جب تک اس دنیا میں سرحدیں ہیں ،اس وقت تک جنگ و جدل رہے گی ۔انہوں نے کہا میں سرحدوں،قوموں ،ملکوں اور محب وطنی کا غدار ہوں ۔جو یہ کہتے ہیں کہ میں غدار ہوں ،وہ ٹھیک کہتے ہیں ۔میں ملکوں اور سرحدوں کا غدار ضرور ہوں،لیکن انسانیت کا غدار نہیں ہو سکتا ۔یہ نشنلسٹ،محب وطن اور سرحدوں سے محبت کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں اور انسانیت کے غدار ہیں ۔محب وطنی کا مطلب ہی انسانیت پر ڈاکہ زنی ہے،یہ انسانیت کا ریپ جگہ جگہ اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم سب محب وطن اور قوم پرست ہیں ۔جو قوم سے ،اپنے مذہب سے ،اپنے عقیدے سے،اپنی سرحد سے محبت کرتا ہے اس کا مطلب ہے وہ دنیا کی تقسیم چاہتا ہے۔وہ نفرت کا کاروبار کرتا ہے۔قوم اور ملک کے دشمن بن جاؤ،عالمی اور انسانی نظریہ اپناؤ،یہ زمین ایک ہے اور ہم سب انسان ہیں اور انسانیت ہی سب کچھ ہے۔باقی سب فراڈ بازی اور تقسیم ہے۔اگر ہم ملکوں ،قوموں اور سرحدوں کے چکر میں پڑے رہے تو دیکھنا بہت جلد دنیا میں تمام شہر ہیروشیما اور ناگاساکی بن جائیں گے ۔اپنی توانائی دنیا کے امن اور خوشحالی کے لئے خرچ کرو ،چھوڑو یہ محب وطنی اور وطن پرستی کی بدمعاشیاں۔بابا سید شاہ جمال کی باتیں مجھے عجیب و غریب لگ رہی تھی ۔ان باتوں پر مجھے غصہ آرہا تھا ۔دل چاہا رہا تھا بابے کو چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔لیکن مجبوری یہ تھی کہ وہ خاموش ہی نہیں ہو رہے تھے ۔بابے نے کہا ،یہ قوم پرستی اور محب وطنی عظیم گناہ ہیں ۔ہم اسی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں ۔ان تمام سرحدوں اور ملکوں کو مٹانے کی جدوجہد کا حصہ بنو،توڑ پھوڑ دو ان سرحدوں کو۔بابے نے کہا ،میاں جس کو بھی تھوڑی بہت سچائی اور حقیقت تک رسائی نصیب ہوئی ہے یا جس نے بھی سچائی کی کچھ جھلکیاں دیکھی ہیں وہ پھر کسی ملک اور سرحد کے تابع نہیں رہا ۔اس کا تعلق پھر کبھی کسی کلاس ،عقیدے،مذہب یا کسی کمیونٹی سے نہیں رہا ۔وہ پھر کائنات کا حصہ بن گیا ،انسانیت اور عالمی دنیا کا باشندہ بن گیا ،تم بھی کائنات اور عالمی انسانیت کا حصہ بن جاؤ۔یہ نظریہ ہی اپنے زہن سے نکال باہر کرو کہ یہ میرا ملک ہے،یہ دنیا کے ممالک انسانیت کے ماتھے پر کلنک ہیں ۔کسی نے سرحد کی لکیر کھینچی اور جو اس میں تھا وہ اس کا ملک بن گیا ۔یہ کہنا چھوڑو میں محب وطن پاکستانی ہوں ۔یا میں محب وطن بھارتی ہوں ۔کل یہ دنیا کے ممالک مختلف حصون میں تقسیم ہو جائیں گے،پھر تم سائیڈ تبدیل کر لو گے،پھر کسی اور ملک کے وفادار بن جاؤ گے،انسانیت کے وفادار بنو۔عالمی دنیا کے وفادار بنو ،اس دنیا کے وفادار بنو ۔یہ پاگل دنیا ہے جہاں جگہ جگہ محب وطن ہیں ،قوم پرست ہیں ،وطن پرست ہیں ۔اب تمہیں ان چیزوں کو دیکھنے کے انداز کو بدلنا ہوگا ۔صرف محب وطنی تک محدود نہ رہو ۔کیسی خوبصورت دنیا ہو گی ،جب کہیں بھی ملک نہیں ہوں گے،کیسی شاندار دنیا ہو گی جب کہیں بھی تقسیم نہیں ہو گی ،ایک دنیا ،ایک زمین اور صرف ایک انسانیت ہو گی۔کیسی جنت جیسی دنیا ہو گی جب کہیں بھی سرحدوں کی لکیریں اور زنجیریں نہیں ہوں گی ۔اس دنیا نے بہت سرحدیں پیدا کر لی ہیں ،جتنی زیادہ سرحدیں بڑھ رہی ہیں ،اس قدر زیادہ دفاع کی ضرورت ہو رہی ہے،اس قدر قتل وغارت گری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر تم پاکستان میں محب وطن ہو ،تو جو بھارت میں ہے وہ بھارت کا محب وطن ہے۔تم اس کو فتح کرنا چاہتے ہو ،اسے برباد کردینا چاہتے ہو ،وہ تمہیں برباد کردینا چاہتا ہے۔وہ اپنے ملک کو عظیم کہتا ہے تو اپنے ملک کو ،یہ انسانیت کہاں گئی؟وہ بھی انسانیت کا قتل کرتا ہے تم بھی ایسا کرتے ہو ۔یہ ممالک کشمکش اور لڑائی و جھگڑے پیدا کررہے ہیں ۔اس تقسیم پر فخر مت کرو ،یہ سب فراڈ بازی ہے ۔تم اپنے آپ کو اعلی ترین سمجھ رہے ہو اور اس کو گھٹیا ترین اور وہ تمہیں ایسا سمجھ رہا ہے۔بابے کی کافرانہ اور غدارانہ باتیں جاری تھی کہ اسی دوران میں نے سوال کیا ؟بابا جی ،وطن پرست بھی نہ بنوں؟قوم پست بھی نہ بنوں؟تو پھر کیا کروں ؟بابے نے کہا ،پرامن اور خاموش مینار بن جاؤ،لیکن مینار پاکستان کی طرح نہیں ۔جو پرامن،انسانیت پرست ہوتا ہے وہ محب وطن نہیں ہو سکتا ۔ایک خاموش کھبے کی طرح بن جاؤ،جو زمین سے آسمان تک بلند ہو اور جس کی اونچائی آسمان پر خدا تک پہنچے۔ایسا انسان دنیا کو ایک طاقتور اور مثبت توانئی سے نوازتا ہے۔یہ ایک نیا گانا ہے،اس کے الہامی بول ہیں اور اس کی موسیقی کائناتی ہے،اسے اختیار کر لو ۔ایسا انسان ہی حقیقی تخلیقی ہوتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ جنگ کے خلاف ہو جاؤ،کیونکہ جنگ کے خلاف ہونا بھی جنگ جیسا ہی ہے۔جنگ کے خلاف ہونے کی بجائے یہ سمجھ اور اس کی انڈراسٹینڈنگ پیدا کرو کہ یہ جنگیں ہوتی کیوں ہیں ؟جب انسان پرامن اور خاموش ہو جائیں گے اور انڈراسٹینڈنگ والے بن جائیں گے تو پھر اس دنیا سے جنگیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی۔بابے کی گفتگو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ،رات کے بارہ بج چکے تھے،میں نے بابے سے اجازت لی اور پیدل گھر کی طرف روانہ ہو گیا ،اسی وقت سے اب تک یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ جنگیں کیوں ہوتی ہیں ؟اور وہ بابا کہیں واقعی بابا شاہ جمال تو نہیں تھا ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔