ٹرین اوریولہ کے باغات کی ہموار زمین سے گزر رہی تھی ۔ٹرین سے باہر کے مناظر یکے بعد دیگرے تبدیل ہو رہے تھے ۔لمبے ،گھنے ، گہرے پٹ سن کے پودوں کو پیچھے چھوڑتے ہوے شاندار مالٹوں کے درخت ان کی جگہ لے چکے تھے ۔اور اب سر سبز ٹیلوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے رستے کھردری پیوند زدہ سفیدی پھری جھونپڑیوں جن کے چھت ناتراشیدہ لکڑی کے تختوں سے بناۓ گئے تھے جن میں زندہ درختوں کی ناہمواری موجود تھی اور ان کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث تھی کو جگہ دے رہے تھے ۔اب تنگ سڑکیں اور دور کچھ فاصلے پر سبزی سے لدی پھندی گاڑی نظر آنے لگی ۔جنگلی درخت کے ساۓ میں دو گائیں گوبر کی غلاظت کے ساتھ زمیں پر بیٹھی مکئی کے نرم ڈنٹھلوں کی چگالی میں مصروف تھیں ۔ان سے آگے بنجر پہاڑی چوٹیاں جن کی ننگی پسلی نما چٹانیں نرم گیلی زمین میں دبی ،پھلوں کے درختوں تک پھیلی ہوئی تھیں ۔دریا کے نشانات ،بطخوں میں گھری پرانی پن چکی بھی ٹرین سے نظر آنے والے مناظر میں شامل تھی ۔تھوڑا آگے سیاہ پاپولر اور شہتوت کے درختوں کا جھنڈ ،اکلوتا پام پھر ایک خانقاہ جس کے مخروطی تکونی حصے پر نذرکا کراس لٹکا ہوا تھا ۔دکھائی دیے ۔افق پر پھیلا نیلا دھواں ،ایک تنگ نہر ،ایپرن پہنے دو مالی پٹ سن کو موگری سے پیٹتے نظر آۓ ۔دریا پھر نظر آنے لگا ۔پس منظر میں پہاڑوں کے پیچھے سفید میناروں والا بے ترتیب سا بچوں کا مدرسہ نظر آ رہا تھا ۔اس سے نیچے پہاڑ کے ساتھ شہر شروع ہو جاتا تھا ۔جس کے سرخ، سفید ،نیلے اور براؤن مینار ،مقامی چرچ کی محرابیں اور بڑے گرجا گھر اور خانقاہوں کے گنبد چمک رہے تھے ۔داہنی طرف پہاڑی سلسلے کے اوپر تنہا ،گہرا جسیم ،متشکل میزاب ، کھڑکیاں ،بالائی کمرے ،چوکورمینار سے مشابہ گھنٹہ گھر والا سانتو ڈومنگو کا کا مسیحی مدرسہ دھندلا دھندلا نظر آنے لگا ۔
باغات ،دریا اور شہر کے اوپر ایک باریک چھدرا سا بادل پھیلا ہوا تھا ۔اس سارے ہیت ارضی میں گوبر اور اصطبل کی بد بو ،آبپاشی کی تازہ مہک ،نرم گیلی پٹ سن کے جوہڑوں کی تیز بدبودار سڑاند اور مخروطی ڈھیروں کی شکل میں خشک ہونے کے لئیے رکھی گئی پٹ سن کی ناخوشگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔
سیگوینزااس سہہ پہر اداس سوچوں میں غرق رہا ۔وہ بہت اداس اور بور تھا ۔اداسی اتنی تلخ اور اتنی شدید تھی کہ یہ محض وقتی نہیں تھی بلکہ بذات خود ایک حقیقت تھی ،اس کی روح سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ۔یہ ہر اس چیز پر جو وہ دیکھتا چھا رہی تھی ۔دھویں ،درختوں ،وادی ،پہاڑ اور آسمان ہر شے اداسی کا روپ دھارے ہوے تھی ۔
یہی اداسی بچپن میں بھی اس پر ظلم ڈھاتی تھی ،جب وہ سکول یونیفارم پہنے چھوٹے بچوں کے ساتھ انہی رستوں پر مارچ کرتا ٹرین کے گزرنے کا انتظار کرتا تھا۔
اب ٹرین میں بیٹھے ہوۓ اس کی وہ یادیں واپس آ گئیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ اداس ہو گیا ۔اس سارے ہیت ارضی اور سانتو ڈومنگو کے کالج واپسی نے بھی اداسی میں اضافہ کر دیا تھا ۔
سیگوینزا اپنے ساتھی مسافر ،جو اپنے بیٹے کو مسیحی سکول میں داخل کروانے آیا تھا کی طرف متوجہ ہوا اور اسے اس سکول میں بطور طالبعلم اپنی یادیں بتانے لگا ۔
ساتھی مسافر نے اسے ٹوکتے ہوے پوچھا ،”تو کیا آپ ان بیتے سالوں سے نجات چاہتے ہیں ؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان دنوں کا دکھ بھی کتنی خوشگوار یاد ہے ؟ ۔آپ نہیں چاہتے؟ مگر کیوں ؟ اگر آپ کے بیٹے ہیں تو کیا آپ انہیں اسی سکول میں جہاں آپ تھے نہیں بھیجیں گے ؟ “۔
سیگوینزا نے جواب دیا کہ وہ اپنے بیٹوں کو ہر گز اس سکول میں نہیں بھیجے گا ۔اگر ماضی کے وہ دکھ خوشگوار ہیں تو اس وقت بالغان کے لئے ہیں ۔بچوں کے لئیے خشک اور ٹھٹھرا دینے والے ہوتے ہیں ،اس وقت ان میں وہ خوشبو نہیں ہوتی جو وقت اسے بعد میں عطا کر دیتا ہے ۔
جب وہ سانتو ڈومنگو میں تھا تو وہ گاؤں کے لوہار کی زندگی پر رشک کرتا تھا جس کے گانوں اور ہتھوڑے کی ضربات کی آواز تمام کھڑکیوں سے خوشگوار احساس لیے آتی اور مطالعاتی اوقات کی بوجھل خاموشی کو توڑتی ۔
اس وقت وہ ایک چاکلیٹ فروش جناب ریبولو پر بھی رشک کرتا ،جب سارے لڑکے اس کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوے اسے حیرانی سے دیکھتے ۔اس کے بیلنوں کی آواز کے شور اور گرم ناریل کی مہک سے خوش ہوتے ۔وہ دریا کنارے بیٹھے سگریٹ پیتے اور لہروں سے بنتے بلبلوں کو دیکھتے شخص پر بھی رشک کرتا ۔وہ اس کوچوان سے بھی حسد کرتا جو سٹیشن آتے جاتے اپنا کوڑا لہراتا یہاں تک کہ اس میں سے چھٹیوں میں کی گئی ہوائی آتش بازی جیسی آواز آنے لگتی ۔ساتھ ہی کوچوان دیہاتی عورتوں پر نازیبا فقرے کستا ۔بچپن میں سیگوینزا اس کوچوان کو ہر گھر کے مقدس جذبات کا ترجمان سمجھتا کیوں کہ اس کی گاڑی میں عموما” سارے طلباء کے والدین سکول آتے تھے ۔وہ کوچوان کو پن آپ روٹر کہتے تھے ۔یہ شاندار افسانوی لقب اسے اس کی گاڑی کے دروازے پر کی گئی بھاری سرخ نقاشی اور آرائشی شکل جو کسی شاخ سے لٹکتے بندر جیسی تھی ،کی وجہ سے پڑ گیا تھا ۔رات کے وقت جب سیگوینزا Aeneid/ اینیڈ(و دجل کی رزمیہ نظم ) کے مصرعوں کا ترجمہ کر رہا ہوتا تو پن آپ روٹر ایسے جاہ و جلال سے گزرتا جیسے وہ سیر گاہ سے گزرنے والا کوئی سیاح ہو ۔یا کوئی برگزیدہ بندہ جو اس کی کتاب کے صفحات کو دلکش ،خوشبودار ،سحر ذدہ قدیم صنوبر کے باغ میں تبدیل کر دے ۔
“ تو اس سب کا کیا مطلب ہوا ؟ ۔اور اس کی اہمیت بھی کیا ہے ؟ ۔” ہمسفر نے سوال کیا ۔” ان سب چیزوں کا بچوں کی پرورش اور تعلیم سے کیا تعلق ؟ ۔تمھارے کتنے بچے ہیں ؟ ۔او ہو تو تمھاری بیٹیاں ہیں ؟ ۔ میں معافی چاہتا ہوں ۔ پھر بھی میرا یہی خیال ہے کہ تم انہیں کسی سکول میں داخل کر وا دو ۔”
“تا کہ ان کی بری پرورش ہو ،” یہ سیگوینزا کا جواب تھا
“ تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو ،خدا کی پناہ “ ۔
ہاں شاید سیگوینزا اپنی بچیوں کی درست پرورش نہیں کر رہا تھا ۔یا پھر بعض کے نقطہ نظر سے بظاہر ایسا ہی لگ رہا تھا ۔
اسے ہر وہ لمحہ یاد تھا کہ جب بھی اس نے اپنی بچیوں کی انہونی خواہشات پر انہیں تنبیہ کے لئیے سخت الفاظ استعمال کیے تو وہ پچھتایا اور اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا ۔
“ یہی تو!” ساتھی مسافر چلایا ،”اگر تم انہیں کسی سخت نظم و ضبط والے سکول میں بھیج دو ،تو سب کچھ درست ہو جاۓ گا ۔”
“اقامتی مدرسہ !کبھی نہیں “
اس جواب پر اپنے بچے کو سکول داخلے کے لئیے لے جانے والا باپ اتنا برہم ہوا کہ اس کا گول چہرہ سرخ ہو گیا ۔
اس کے بعد وہ اوریولہ پہنچے اور بزریعہ کوچ سراۓ تک پہنچے ۔اکھٹے کھانا کھایا اور اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہے ۔
“اگر تم سینور /جناب کیونیکا کو جانتے ہوتے !” ۔۔۔۔سیگوینزا نے گفتگو جاری رکھتے ہوے اپنے ہم سفر سے کہا ۔
“کیوں وہ شخص کون ہے“
“عیسائی مدرسے میں ان کا طرزتخاطب بہت ملائم اور شائستہ اور مہذب ہے ۔وہ ہر طالبعلم کو حتی کہ چھوٹے سے بچے کو بھی “جناب” یا “ “صاحب کہہ کر پکارتے ہیں ۔ جب میں سانتو ڈومنگو میں داخل ہوا تھا تو آٹھ سال کا تھا ،تو اپنے لئیے اتنے بڑے عالم کے منہ سے لفظ جناب سن کر دنگ ہی رہ گیا ۔لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی جب میرے ساتھ کھڑے چھوٹے سے بچے کو بھی انہوں نے جناب کہہ کر بلایا ۔میں لمبا پاجامہ پہنے ہوے تھا لیکن وہ نیکر پہنے ہوے تھا ۔اس نے جرابیں پہن رکھی تھیں ۔وہ مجھ سے کافی چھوٹا تھا ۔وہ نازک اور زرد تھا ۔ہر وقت خواب کی سی کیفیت میں رہتا ۔اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ سیاہی سے داغدار رہتے ۔اس کی نیکر کی ڈوریاں اور جوتوں کے تسمے ہمیشہ کھلے اور لٹکتے رہتے ۔اس کا نام کیونیکہ تھا ۔لیکن وہ اسے جناب کیونیکہ بلاتے تھے ۔معائنے والے بھائی اپنی خشک حاکمانہ آواز سے سے چینختے ،جناب کیونیکہ ! میں اپنے ساتھی پر نگاہ ڈالتا ،اس کا سر ڈیسک پر رکھے اس کے بازوؤں میں چھپا ہوتا ۔ناظر بھائی بڑبڑاتا ،جناب سیگوینزا کیونیکہ صاحب سو گئے ہیں انہیں جھنجھوڑ کر جگا دیں ۔میں اسے جگاتا ۔وہ اپنی بڑی بڑی نیند سے مخمور آنکھیں کھولتا ،حیرانی سے مجھے دیکھتا ،انگڑائی لیتا ،معافی طلب مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل جاتی ۔ناظر بھائی کی آواز گونجتی ،کیونیکہ صاحب کندھے ا چکاتے،”بھائی کیا کہہ رہے ہیں “ ؟ وہ تمہیں گھٹنوں پر جھکنے کا کہ رہے ہیں ۔”گھٹنوں پر مگر کیوں ؟ ۔”
کیونیکہ صاحب جھک جاتے ۔کیونیکہ صاحب ! کیونیکہ صاحب ! میں تمھیں صفائی میں بہت برے نمبر دوں گا ۔تمھیں دکھائی نہیں دیتا کہ تمھاری جرابیں نیچے گر رہی ہیں۔
تقریباً” ہر دفعہ میں انہیں اوپر کھینچتا ۔وہ موٹی سفید اونی جرابیں تھیں جو لامنچہ میں واقع اس کے گھر میں موجود اس کی نرس نے بنیں تھیں ۔اسے موزہ بند کا استعمال نہیں آتا تھا ۔جناب کیونیکہ کے ساتھ میں اپنے آپ کو بڑا آدمی اور اس کا محافظ سمجھتا ۔اور اسے والدین والی مسکراہٹ سے دیکھتا۔
پھر مقدس توبہ کا ہفتہ آ گیا ۔یہ ہفتہ ہمیں خاموش رہ کر گزارنا تھا ۔اپنے ضمیر کا معائنہ کرنا تھا اور گناہ ،موت ،دوزخ اور نجات پر وعظ سننے تھے ۔اس عرصے میں گرجے کی زیادہ تر کھڑکیاں بند کر دی گئیں اور قربان گاہ پر کالے پردے پھیلا دئے گئے ۔جب ہم یا خدا معاف کرنا گاتے تو گلا پھاڑ کر چلاتے ،اس لئے نہیں کہ ہم حقیقتا” خدا کے فضل و کرم کے خواہشمند تھے بلکہ جو طویل خاموشی ہم پر مسلط کی گئی تھی اس کے خلاف احتجاجا” چینختے اور چلاتے ۔لیکن کیونیکہ گاتا نہیں تھا ۔وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ۔اپنا سر میرے بائیں کندھے پر ٹکا لیتا ۔میں اسے کہتا ،میں تمہیں بتا رہا ہوں وہ ہم دونوں کو سزا دیں گے ۔میری طرف دیکھے بغیر وہ مسکراتا ۔وہ بلکل سفید پڑ گیا تھا ۔ہونٹوں کے پاس دو جھریاں پڑ گئی تھیں جیسے کہ وہ ابھی زارو قطار رونا شروع کر دے گا ۔”میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ۔وہ بڑ بڑاتا۔
ہفتہ توبہ کے آخری دن کیونیکہ صاحب کی بجاۓ کوئی اور لڑکا میرے ساتھ موجود تھا ۔موٹا ،سرخ پر سکون اور دیندار ۔میں نے اس سے کیونیکہ کے بارے میں استفسار کیا ۔لیکن اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا ۔میں نے ناظر بھائی سے اپنے دوست سے بات کرنے کی اجازت مانگی ،لیکن اس نے انکار کر دیا ۔ بلآخر ہفتہ خاموشی اختتام کو پہنچا ،سب لڑکوں نے مل کر خوشی سے بھرپور آزادی کا نعرہ لگایا ۔میں ناظر کے پاس دوڑ کر گیا اور کیونیکہ کے بارے میں پوچھا ۔” کیا تمہیں نہیں معلوم کہ سوال پوچھنا کتنا بڑا عیب ہے ،دوبارہ یہ غلطی نہ دہرانا ۔” اس نے مجھے متنبہ کیا ۔
زلت کا احساس لئے میں واپس آ گیا ۔میرے دماغ پر صرف اور صرف کیونیکہ کا تصور چھایا ہوا تھا ۔کہ وہ زرد رو بچہ ہمارے درمیان کیوں نہیں ہے ۔پیارا ،اداس چھوٹا جب مسکراتا تھا تو زیادہ قابل رحم محسوس ہوتا تھا بہ نسبتا” جب وہ روتا تھا ۔
میرا چھوٹا ساتھی اپنی زردی مائل سبز نیکر ،سفید نرم شکن زدہ جرابیں جنہیں اپنی جگہ رکھنا نہیں آتا تھا ،جو کسی ماں یا آیا کے ہاتھوں کی محتاج تھیں کے ساتھ کہاں جا سکتا ہے ۔؟
دو دن گزر گئے ۔تب سہہ پہر کے پڑھائی سے وقفے کے بعدہم سٹڈی ہال میں جانے کی بجاۓ اپنے رہائشی کمروں میں بھیج دئے گئے ۔جوں ہی ہم کمروں میں داخل ہوے ،ناظر نے چھٹیوں کے کپڑے ،اوور کوٹ اور ٹوپیاں پہننے کا حکم دیا ۔
ہم حیران و پریشان حکم کی تعمیل میں لگ گئے ۔کیا ہونے لگا ہے ؟ ۔کیا قابل احترام صوبائی آرچ بشپ تو نہیں آ رہے ۔؟ ۔ضرور ضرور وہی آ رہے ہوں گے۔ ان کی عزت افزائی میں ہمیں چھٹی ملے گی۔ پکنک منائیں گے ۔لیکن جناب کیونیکہ کہاں غائب ہے ۔اس کے بغیر کیا مزہ آۓ گا ۔لیکن وہ ہے کہاں؟ ۔
ہم چرچ میں داخل ہوے ۔میں خوف سے کانپنے لگا ۔میرے بال اور پیشانی ٹھنڈے پسینے سے شرابور تھی۔
صدر کلیسا میں موم بتیوں میں گھرا ایک تنگ سفید کفن پڑا تھا ۔بکس کے اندر مجھے کیونیکہ دکھائی دیا ۔ بہت لمبا اور بہت پتلا ۔میری طرف مسکرا کر دیکھتا ہوا ۔میں حلفا” کہتا ہوں وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔وہ ایسے مسکرا رہا تھا جیسے وہ مجھے اپنی چھٹیوں کے یونیفارم کا لمبا پاجامہ دکھا رہا ہو ۔
ہم سفر جو اپنے بیٹے کو عیسائی سکول میں داخل کروانے آیا تھا نے سگار سلگا یا ۔اپنے آپ کو دھویں کے مرغولے میں لپیٹا ۔ہلکا سا کھانستے ہوے اکھڑ پن سے بولا ،”یہ سب کچھ دیکھ بھال کے فقدان کا نتیجہ تھا ۔یہ ——-اپنی ٹھوڑی سے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوے ——-اس نے کبھی تسموں والے جوتے نہیں پہنے بلکہ ہمیشہ دوسری طرح کے جو پورے کے پورے ایک ہی ٹکڑے سے بنے ہوتے ہیں ۔اور نہ ہی جرابیں ،موزہ بند اور بٹن والی نیکر ۔ ایسا ہی ہے نا ؟ میرے بیٹے !۔
English Title: Senor Cuenca and his successor
مصنف کا تعارف:
گیبریل میرو(Gabriel Miro) 28 جولائی 1879 میں سپین کے شہر ایلی کانٹے میں پیدا ہوا ۔ابتدائی تعلیم سانتو ڈومنگو اوریولہ کے عیسائی سکول سے حاصل کی ۔موجودہ افسانہ اسی دور کی یادوں پر ہے 1892میں غرناطہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔1901 میں شادی کی ۔1914 میں بارسیلونا کی صوبائی کونسل میں کام کیا ۔1920 میں میڈرڈ میں منسٹری آف لاء میں کام کیا ۔1925 میں Mariano de cavia / ماریانو ڈی کاویا پرائز جیتا ہسپانوی ادب کے مؤرخین اسے ماہر فن اور صاحب ذوق قرار دیتے ہوے کہتے ہیں کہ اس کی نثر میں اس کے مقامی علاقائی شوخ رنگ موجود ہیں ۔اس کا سب سے مشہور ناول چیری قبرستان ہے ۔وہ 22 مئی 1930 میں میڈرڈ سپین میں فوت ہوا ۔
****
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 395 : جناب کونیکا اور اس کا جانشین
تحریر : گیبریل میرو (اسپین)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...