گاہے گاہے باز خواں
آج کے بعض ادبی مسائل پر گفتگو
نوٹ:’’جدید ادب‘‘ جرمنی کے شمارہ جنوری تا جون 2009 ء کے اداریہ میں بعض ادبی مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ایک عرصہ گزرجانے کے باوجود وہ مسائل آج بھی ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں۔ سو ’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را‘‘کے مطابق وہ اداریہ یہاں پیش کررہا ہوں۔شاید بعض اہلِ علم و ادب ان مسائل پر مکالمہ کے لیے آمادہ ہوجائیں۔( ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی ادبی دنیا کی صورت ِ حال کے بارے میں سنجیدہ ادبی حلقے مختلف حوالوں سے تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک اہم مسئلہ ادب کے قاری کے غائب ہو جانے کا ہے۔مسئلہ اہم ہے لیکن صرف ایک پہلو سے نہیں کئی پہلوؤں سے غور طلب ہے۔
ادبی رسائل کے ابتدائی دور میں گنتی کے چندرسائل ہوا کرتے تھے۔اس لیے ان کے قارئین کی تعداد کافی دکھائی دیتی تھی۔اگر اُس دور کے ادبی رسائل کی مجموعی اشاعت کو سامنے رکھا جائے اور پھر آج کے ادبی رسائل سے ان کا موازنہ کیا جائے تو شاید صورت ِحال اتنی تشویشناک نہیں لگے گی۔آج بے تحاشہ ادبی رسائل نکل رہے ہیں۔ ان رسائل میں سے ایک قابلِ ذکر تعداد کے معیار اور کردار کی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے رسائل کی مجموعی تعداد اشاعت دیکھی جائے تو ادبی رسائل کے سنہرے دور سے کچھ زیادہ ہی نکلے گی۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شرح خواندگی میں اضافے کے نتیجہ میں ادب کے قارئین کی تعداد میں جیسا اضافہ ہونا چاہئے تھا،وہ نہیں ہوا۔بلکہ اس میں یہ افسوسناک صورت بھی نمایاں ہوئی کہ خود ادب سے وابستہ افرادکو مجموعی ادبی صورت ِ حال سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔اپنی تخلیقات اورپھراپنے چند دوستوں کی تخلیقات کے مطالعہ کے بعد عام طور پررسالہ بند کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ادبی مسائل پر مکالمہ بہت کم ہوتا ہے۔
مابعد جدیدیت کے نام پر انڈیا میں بڑی سطح کے سرقہ کا جو گُل کھلا،اس پر جدیدادب کے سابقہ تین شماروں میں تاریخی مواد محفوظ ہو چکا ہے۔لیکن بہت کم ادیبوں نے اسے ذاتی مفادات سے بالاتر اور بے خوف ہو کر خالصتاََ افسوسناک ادبی مسئلہ کے طور پر لیا ہے۔ ۔ ۔ جن بعض لوگوں نے اسے اہمیت دی ان میں بھی مسئلہ کی نزاکت سے زیادہ ایک حد تک ذاتی رنجشوں کا عمل دخل رہا ۔سنجیدگی سے فکر مند ہونے والے نسبتاََ کم رہے۔ فکر مند کرنے والے ایسے ماحول میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی فرقہ پرستی کا زہر بھی ادبی رویوں میں سرایت کرنے لگا ہے۔ فرقہ پرست کسی مسلک یا عقیدہ کے ہوں،نظریاتی متشددانہ رویہ اردو زبان اور ادب کے لیے زہر ثابت ہو گا۔کسی اچھے ادبی کام کو دل سے مانتے ہوئے بھی یار لوگ کسی نہ کسی عنوان اپنے بغض کا اظہار کر جاتے ہیں۔سو ایسے ماحول میں اردو کے قارئین میں اضافہ کی نیک خواہش کے ساتھ اردو ادب میں پیدا شدہ مختلف تشویشناک مسائل کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اختلاف رائے کو رسمی طور پر نہیںبلکہ کھلے دل سے برداشت کرنے کا ظرف پیدا کرنا ہوگا۔ادب میںفرقہ پرستی ،بڑی سطح کے علمی سرقوں اور دوسرے منفی رویوںکا سنجیدگی سے نوٹس لینے کے ساتھ عمدہ تخلیقی ادب کی تحسین کے رویہ کو کسی نظریاتی امتیاز کے بغیر خالص ادبی بنیادوں پر اختیار کرنا ہوگا ۔ ایسا نہ ہوا تو اردو ادب عالمی سطح پرتو کیا مقامی سطح پر بھی اپنی بچی کھچی اہمیت کھو بیٹھے گا۔
میں نے درپیش مختلف مسائل کے چند اشارے دئیے ہیں۔اہلِ علم و ادب توجہ کریں تو ہر مسئلہ کو الگ الگ زیر بحث لا کر اس کے جملہ پہلوؤں پر مکالمہ کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔
سو صلائے عام ہے۔ ۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔