جی ایم سیّد نے پہلے تو اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لئے مذھبی نوعیت کے جھگڑے میں ٹانگ اڑا کر 1937 میں ھندو مسلم فساد کروایا اور 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سندھی قوم پرست بن گیا۔ سکھر میں “منزل گاہ سکھر” کے واقعہ میں ھندوؤں پر جب دھشتگردوں نے چاقو و گولیاں چلائیں تو جی ایم سیّد اس وقت مسلم لیگ سندھ کا لیڈر تھا۔ جی ایم سیّد کو ایسی کیا حاجت تھی کہ کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت ھی اختیار نہ کی بلکہ 50 کے قریب سماٹ ھندو سندھیوں کا بے دردی سے لہو بھی بہانا قبول کیا؟ کیا جی ایم سیّد کو اندازہ نہیں تھا کہ مذھبی منافرت میں کودنے کے نتائج کیا ھوں گے؟ یہ کون سی قوم پرستی تھی کہ “منزل گاہ سکھر” کا معاملہ جسے مولوی لیڈرشپ اُٹھا رھی تھی اس میں جی ایم سیّد مسلم لیگ کا جھنڈا لے کر کود پڑا؟ کیا جی ایم سیّد کو مسلم قوم پرستی کی نعوذ باالله وحی آئی تھی؟
سندھ اسمبلی نے ھندوستان کے 10 کروڑ مسلمانوں کو علیحدہ قوم قرار دیکر پاکستان کی قرارد منظور کی۔ حالانکہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ اکثریت پنجاب اسمبلی میں تھی لیکن پنجاب اسمبلی نے قراداد منظور نہیں کی تھی۔ جی ایم سیّد نے 1943 میں 10 کروڑ مسلمانانِ ھند کی آزادی کے لیے ' جسکا سندھ کے مسلمان ایک حصّہ تھے ' سندھ اسمبلی میں قرار پیش کرنے کے بعد گرما گرم بحث کی۔ جی ایم سیّد کی بحث کا لبِ لباب یہ تھا کہ؛ قیام پاکستان کا مطالبہ بہ حیثیتِ مسلم قوم پرست کر رھے ھیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد جی ایم سیّد اچانک مسلم لیگ اور مسلم قوم پرستی چھوڑ کر سندھی قوم پرست بن گیا۔ کیا “منزل گاہ سکھر” میں ھندو مسلم فساد کے موقع پر جی ایم سیّد کے دل میں سندھی قوم پرستی نہ تھی؟ محمد علی جناح بھی اتنا ھی سندھی تھا جتنا جی ایم سیّد سندھی تھا۔ صوبہ سندھ میں قیامِ پاکستان سے قبل جناح کی تصاویر ایسے ھی آویزاں ھوتی تھیں جیسے آج بھٹو کے خاندان اور جی ایم سیّد کی تصاویر آویزاں ھوتی ھیں۔ مگر جی ایم سیّد کا جناح سے اختلاف ذاتی مفاد پرستی کی سیاست کے باعث ھوا اور جی ایم سیّد مسلم قوم پرست سے سندھی قوم پرست بن گیا۔
سندھ کے اصل باشندے سماٹ ھیں۔ لیکن جی – ایم سید سندھ میں قابض ایک عربی نژاد تھا۔ اس لیے جی – ایم سید سندھی قوم پرست رھنما نہیں بلکہ مفاد پرست اور موقع پرست شخص تھا۔ بلکہ جی – ایم سید سندھ پر قابض عربی نژادوں کا رھنما تھا۔ دیہی سندھ کے معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابی آبادکار جو 1901 اور 1932 سے دیہی سندھ میں زراعت ' صنعت ' تجارت کے کاروبار کے فروغ ' صحت اور تعلیم کے شعبوں کی ترقی کے لیے اپنی خدمات پیش کر رھے تھے۔ ان کو دیہی سندھ سے نکال کر انکی زمینوں اور کاروبار پر قبضہ کرنا جی ایم سید کا مشن تھا۔
معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابی آبادکاروں کو دیہی سندھ سے بے دخل کروا کر انکے کاروبار اور آباد زرعی زمینوں پر سید اور بلوچ جاگیرداروں کے قبضے کروانے کے ساتھ ساتھ سماٹ سندھیوں پر بھی سید اور بلوچ جاگیرداروں کا سماجی ' معاشی اور سیاسی تسلط قائم کروا کر ' جی – ایم سید اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رھا۔ لیکن اس عمل کے ذریعے جی – ایم سید نے سندھی قوم کو پنجاب کے عوام کے ساتھ مستقل محاذ آرائی میں پھنسا دیا۔ جبکہ سندھ کے شہری علاقوں پر ھندوستانی مھاجروں کا تسلط بھی قائم کروا دیا۔
ماضی میں جی ایم سید کے سندھ کے پنجابی آبادکاروں کے خلاف گھناؤنے کردار کی وجہ سے 1901 اور 1932 کی دھائیوں سے سندھ میں آباد معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابیوں کے 1970 اور 1980 کی دھائیوں میں اپنے کاروبار اور آباد زرعی زمینیں سیدوں اور بلوچوں کو سونپ کر پنجاب واپس آنے کی وجہ سے سندھی قوم کے ساتھ پنجاب اور پنجابی قوم کے تنازعات پیدا ھوگئے تھے۔ انہیں حل کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو ' پیر پگارو ' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر بھٹو سندھیوں کے لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ذریعہ رھے لیکن سندھ سے معاشی اور اقتصادی طور پر امیر پنجابیوں کو بیدخل کردیے جانے کی وجہ سے سندھ کے سیدوں اور بلوچوں کے ساتھ پنجابی قوم کے اختلافات کو مکمل طور پر ختم نہ کروا سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو' پیر پگارو' محمد خان جونیجو ' غلام مصطفی جتوئی اور بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد اب موثر سماجی رابطوں اور سیاسی واسطوں کے نہ ھونے کی وجہ سے جبکہ جی ایم سید کے سندھ کے پنجابی آبادکاروں کے خلاف گھناؤنے کردار کی وجہ سے سندھ میں پیدا ھونے والے ماحول کے ابھی تک سندھ میں موجود ھونے کی وجہ سے پنجاب کا سندھ کے سیدوں اور بلوچوں کے ساتھ لاتعلقی کا رویہ ابھی تک برقرار ھے۔ سندھ کے اصل باشندے سماٹ نے اس کا ابھی تک حل نہیں نکالا۔ اس لیے سندھیوں کا پنجاب کے عوام کے ساتھ رھا سہا رابطہ اور واسطہ بھی ختم ھوتا جا رھا ھے۔
سندھ کے شہری علاقوں پر غالب اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجروں کے ساتھ سندھیوں کا سماجی ٹکراؤ اور انتظامی ' معاشی ' اقتصادی ' ترقیاتی امور کی وجہ سے سیاسی اختلاف ماضی میں بھی تھا اور اب بھی ھے اور مستقبل میں بھی رھنا ھے۔ جبکہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد آبادی ھے۔ پنجاب کی پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں پر مکمل بالادستی ھے۔ اس لیے پنجاب کے عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کا ختم ھونا ' پنجاب کا سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کا باعث اور سندھیوں کے لیے قومی تنہائی کا سبب بنتا جا رھا ھے۔
سندھیوں کے پنجاب کی عوام کے ساتھ رابطے اور واسطے کے ختم ھونے اور پنجابی قوم کے سندھیوں کے ساتھ لاتعلقی کے باعث اب مستقبل میں سندھیوں کو پاکستان کی مرکزی حکومت ' پاکستان کی بیوروکریسی ' اسٹیبلشمنٹ ' صنعت ' تجارت ' سیاست ' صحافت اور ھنرمندی کے شعبوں میں وہ عزت ' اھمیت اور سہولت نہیں ملا کرنی جو ماضی میں ملتی رھی۔