پارٹیکل فزکس میں ہونے والی تحقیق سے ہم فطرت کی بنیاد تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی اب تک کی سمجھ فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل میں ہے۔ یہ خود ایک تھیوری نہیں بلکہ کچھ تھیوریز کا مجموعہ ہے۔ جن تھیوریز سے یہ ملکر بنی ہے، ان میں سے ہر کسی کی پریسیژن برابر نہیں۔ ان میں سے ہماری آج تک کی سب سے زیادہ کامیاب ترین تھیوری کوانٹم الیکٹروڈائنمکس ہے۔ یہ کوانٹم دنیا میں الیکٹرومیگنیٹک فورسز کے آپس میں انٹرایکشن کا بتاتی ہے۔ اس پر رچرڈ فائن مین، جولین شونگر اور ٹوموناگا کو 1965 میں نوبل پرائز ملا تھا۔ اس کی کیلکولیشن کی درستگی کی مثال الیکٹرون کے میگنیٹک مومنٹ کی پیمائش کی نظر سے۔ الیکٹران کا مومینٹ اور سپین معلوم ہے۔ اگر کلاسیکل الیکٹرومیگنیٹک تھیوری کی مدد سے جب اس کا میگنیٹک مومنٹ نکالا جائے تو اسے 1 آنا چاہیے لیکن جب 1947 میں اس کی پیمائش کی گئی تو وہ اس میں اعشاریہ ایک فیصد کا فرق آیا۔ اس سے پتا چلا کہ کلاسیکل تھیوری نامکمل نہیں تھی۔ اس فرق کی وضاحت کوانٹم الیکٹروڈائنمک تھیوری سے ہوئی۔ اس تھیوری سے ہونے والی پریڈکشن اور پیمائش کا نتیجہ یہ ہے۔
Measured – 1.0011596152181
Predicted – 1.0011596152182
بارہویں ڈیسیمل پلیس تک تھیوری اور پریکٹیکل کے نتیجے میں مطابقت اس کے زیادہ کسی اور مشاہدے میں کبھی نہیں ملی۔ اندازہ کرنے کے لئے اسے ایسے سوچ لیں کہ زمین کا قطر پریڈکٹ کرنے میں ہونے والا فرق انسانی بال کی موٹائی سے پانچویں حصے تک درست نکلے۔ اس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوانٹم الیکٹروڈائمنکس کائنات کے اصولوں کو درست بیان کرتی ہے۔ اس تھیوری کی پیشگوئیوں میں اگرچہ یہ سب سے زیادہ پریسائز ہے لیکن اس کے علاوہ کی گئی دوسری پریڈکشنز بھی فزکس کی دوسری تھیوریز سے بہت زیادہ پریسیژن رکھتی ہیں۔
اس سے آگے اب چلتے ہیں۔ کچھ سال قبل ہونے والے تجربے نے ایک دلچسپ ریڈنگ دی ہے۔ قدرت میں ہمیں ہر بنیادی پارٹیکل کی بھاری کاپیاں نظر آتی ہیں۔ الیکٹران کا بڑا بھائی موؤن ہے۔ جب اس کے میگنیٹک مومنٹ کی پیمائش نیویارک میں واقع بروک ہیون لیباریٹری میں کی گئی تو پتا لگا کہ اس میں فرق آ رہا ہے اور یہ فرق ایک کروڑویں حصے کا ہے۔
Measured – 1.00116592091
Predicted – 1.00116591803
یہ فرق دلچسپ ہے مگر تھری سگما سے باہر نہیں۔ یعنی پورے اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا کہ تھیوری اور پریکٹیکل میں فرق ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ اس کا جواب یہ کہ بہتر پیمائش کی جائے اور اب اس کی تیاری جاری ہے۔ جی مائنس ٹو ڈیٹکیٹر کو اب شکاگو کی فرمی لیب لے جایا گیا ہے۔ یہ سترہ ٹن بھاری اور پچاس فٹ کے قطر والا مقناطیس ہے جس کا سفر آبی گزرگاہوں اور ٹرک کے ذریعے ایک ماہ سے زیادہ کے عرصے میں انتہائی احتیاط سے ہوا۔ فرمی لیب میں بہتر موؤن بیمز ہیں جس سے پیمائش چار گنا بہتر ہو سکتی ہے۔ اس کی تنصیب ہو رہی ہے اور اگلے برس تک یہ تجربہ دہرانے کے قابل ہو جائیں گے۔ صرف اس تجربے میں کام کرنے کے لئے آٹھ ممالک اور پینتیس اداروں کے ایک سو نوے سائنسدان اس وقت کام کر رہے ہیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلے گا، یہ تو تجربے سے نکلنے والے نتائج سے ہی پتہ لگے گا لیکن کچھ ممکنات۔
1۔ سٹینڈرڈ ماڈل کی مزید توثیق
2۔ نئے بنیادی ذرے کی دریافت
3۔ خلا کی ہیئت اپنی بہتر سمجھ (کیا کوئی اور فیلڈ ہے جو موؤن پر اثرانداز ہو رہا ہے)۔
4۔ ڈارک فوٹون کی دریافت سے سپرسمٹری کی جانب ایک اور قدم
اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، اس تجربے سے ہم فزکس میں آگے بڑھ جائیں گے۔
یہ پارٹیکل فزکس کے ذریعے کائنات کو جاننے کی ایک کہانی ہے۔ اس کو سمجھا جاتا ہے احتیاط سے، اعداد سے، تجربات سے اور کولیبوریشن کے ساتھ۔ الیکٹران سے دو سو گنا بھاری بنیادی ذرے جس کی اپنی عمر 64 مائیکروسیکنڈ ہے، اس کی ایک خاصیت کے ایک کروڑیں حصے کا ممکنہ فرق اس میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔