::: " اردو کے شاعر، صحافی، استاد، ادیب اور نقاد فضیل جعفری ہم سے جدا ہوگے " :::
۔۔۔۔۔۔۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔۔۔الکہ مغفرت فرنائے مرحوم کو عپنی جوارے رحمت میں رکھے آمین ۔۔۔۔۔
فضیل جعفری بھارت یو پی کے مردم خیز الہ آباد کے قصبہ کریلی سے تھا،22جولائی1936کو پیدا ہوئے
اپنی والدہ سے اردواور غزل کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اور دولت مسلم ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ بھر اینگلو بنگال کالج الہ آباد سے بی اے کرکے مرہٹواڈہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم کی سند حاصل کی۔ بھر کچھ سال مہاراشتر ایجوکیشن سروس میں ملازمت کی۔ اس کے بعد برہانی کالج آف کامرس کے پرنسپل کی وہاں وہ انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔ 2016 میں مہاراشتر اردو اکادمی کی جانب سے انھیں مرزا غالب ایوارڈ دیا گیا۔
آج شام یہاں شمال مغربی ممبئی کے کاندیولی علاقہ میں روزنامہ انقلاب کے سابق مدیر،برصغیر ہند کے مشہور نقاد اور شاعر فضیل جعفری اپنی رہائش گاہ پر 81 سال کی عمر میں دنیا فانی سے کوچ کرگئے ،پسماندگان میں اہلیہ عطیہ جعفری ،صاحبزادے ارشد جعفری اور دوبٹیاں ہیں۔
فضیل جعفری نے پیر کو بوقت مغرب آخری سانس لی فضیل جعفری مرحوم تقریباً ڈیڑھ دومہینے سے کافی علیل رہے ۔ وہ سرطان کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ مغرب بعد اُن کی رہائش گاہ کاندیولی، ممبئی میں انتقال ہو گیا. کل ظہر بعد کاندیولی ایسٹ میں واقع قبرستان میں تدفین عمل میں آئے گی ۔مرحوم نے تنقید نگاری کے لیے ہندپاک میں شہرت حاصل کی تھی ،لیکن ہندوسےاں کے موقر روزنامہ انقلاب ممبئی کے دومرتبہ مدیررہے ،پہلے 1990تا1995اور پھر سابق مدیر ہارون رشید کے انتقال کے بعد انہیں دوبارہ 2000میں انقلاب کے مدیر کے عہدہ پر فائز کیا گیا ،لیکن نامساعد حالات اور اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے فضیل جعفری نے 2003کے آخرمیں عین عیدالفطر کے دن اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انقلاب میں دوبارہ مدیر بننے سے قبل تقریباً ڈیڑھ سال مرحوم مشہور زمانہ اردوبلٹز کے مدیر اعلیٰ رہے اور اس سے پہلے خواجہ احمد عباس کے انتقال کے بعد بلٹز کا آخری صفحہ لکھتے رہے۔ فصیل صاحب بہت خوددار آدمی تھی۔
اردو کے مشہور نقاد، شاعر، استاد و صحافی فضیل جعفری کا چار اپریل 2018 ،. . وہ بیمار تو تھے وہ اردو کے ایک وسیع النظر نقاد تھے۔ خوب صورت تنقیدی زبان لکھتے تھے۔ ترقی پسندی کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے ۔ جدید ہوتے ہوئے بھی " جدیدیت " سے بہت زیادہ مطمن نہیں تھے مگروہ جدید شاعری کو پسند کرتے ہیں ۔ لہذا وہ اپنی کتاب " چٹان اور پانی" کے صفحے 23 پر لکھتے ہیں" جدید شاعری ہی آج زندگی کی شاعری ہے۔ باقی جو کچھ ہے نقالی، بھٹئی، مجاوری، بازیگری ،شعبدہ بازی وغیرہ ہے"
فضیل جعفری نے اپنے ایک مضمون میں ساختیات اور درشکیل کے تنقیدی نظڑءیے کا کچا چھٹا کچھ یوں بیان کیا ہے"یہ یوں کیوں ھوا کی اردو میں ساختیاتی نظرئیے کو ادبی رجعت پسندی اور مغرب و امریکہ کی سازشی فکری نظریہ قرار دے کر اس کے کپڑے اتارے گئے۔ یہ سازش اس وقت بنی گئی جب یورپ میں وجودی آزای، فرانسیسی یساریت پسندی بڑھ رھی تھی تو امریکہ کو محسوس ہوا کہ تیسری دینا میں نئی نوآبادیاتی کا اس کا پلان کامیاب نہ ہوسکے گا۔ اسی زمانے میں وجودی فلسفی ژان پال سارتر نے امریکی کی ویت نام کی جنگ میں میں اس بہیمانہ ظلم اور قتل غارت گری کے خلاف مورچہ سبنھال لیا۔ اورفلسفی برٹینڈ رسل کے ساتھ سارتر نے امریکی کو جنگی مجرم ثابت کرنے کے لیے " عدالت " بھی لگائی تھی۔ تو امریکہ نے ساختیات اور رد تشکیل کا ہوا کھڑا کیا۔ اس کے لیے امریکہ کے اسٹمبلشمنٹ کے اشاروں پر کچھ سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی مدد سے اور ہنری فورڈ ثانی کے ڈالرز سے سازش رچائی۔ کیونکہ امریکہ میں ویٹ نام اور انسانی حقوق ، سیاہ فام لوگوں کے احتجاج سے امریکی حکومت بہت پریشان اور بو کھلائی ہوئی تھی۔ امریکہ میں جگہ جگہ مظاہرے ہورہے تھے پھر امریکہ کی اسبٹملشمنٹ نے رولان بارتھ اور دریدا سے سارتر کی فکری دشمنی کو بھانپ کر ایک فکری سازش تیار کی۔فلپ نورس نے۱۹۴۸ اپنی کتاب " دریدا" کے صفحہ ۲۱ پر دریدا کے حوالے س لکھا ھے جو دریدا نے سارتر کے متعلق کہا تھا۔۔۔" میں { دریدا} یہ سمجھنے سے قاصر ھوں کی اتنے ڈھیر سارے مسائل پر بالکل غلط رائے رکھنے کے باوجود انھیں {سارتر} اتنی شہرت کیسے ملی گئی۔"۔۔۔ اس سلسلے میں اردو کے شاعر اور نقاد فضیل جعفری نے " شوگر ڈیڈی"{ ہنری فورڈ دویم اور امریکی حکومت} کی اصطلاح استعمال کی ھے۔ جن کے ڈالروں کی مدد سے دریدا نے ستر کی دہائی میں فرانس سے آکر امریکہ کی جان پاپکنز یونیورسٹی میں " ردتشکیل کا نظریہ" تراشا۔ اور انھی اس خدمت کے صلے میں کیلے فورنیا کی لاس انجلیس یونرسٹی میں نوکری بھی ملی۔ بھر انھی جیسے نظریات کو ہندوستان اور پاکستان میں ساختیات کی نئی تاویلات اور ردتشکیلی نظریات کے صورت میں داخل کروایا گیا۔ اور " ساختیات" کے کئی تدریسی اور صحافتی دانشور بھی بنا کرکھڑے کئے گئے۔ پھر اردو میں " ساختیات" کے اصل واررث کی شناخت کی جنگ شروع ھوگئی تو سلیم احمد نے اسے "نطفہ ناتحقیق" کہ دیا اور یوں سا ختیات تو مدھم پڑ گی مگر کچھ لوگ " مسٹر ساختیات" کے نام سے مشہور ھوگئے"
وہ اپنے دوست باقر مہدی کے متعلق لکھتے ہیں : "میرےخیال میں باقر میدی نے " توازن" کے خلاف اور ادبی سرکشی کی موافقت میں جو تھیسس تیار کیا اس کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے اپنا سارا زور روایتی ادبی موضوعات اور اقدار سے سرکشی پر صرف کیا ہے اور لسانی نیز ہیتی سرکشی کو سرے سے نظر انداز کردیا ہے۔"{ "کمان اور زخم" 1986}
فضیل جعفری مرحوم نے ایڈورڈ سعید کی موت پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ۔
"ہماری یادداشت کے مطابق اس کتاب میں پہلی بار انہوں نے نئی اصطلاح ‘مابعد جدیدیت، (Post-Modernism ) استعمال کی- اب زندگی کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے شعبوں میں ‘مابعد جدیدیت، نظریات عام ہو گئے ہیں- لیکن ایڈورڈ سعید کو جس ایک کتاب سے آفاقی شہرت ملی وہ ہے 1978 میں شائع ہونے والی ان کی مشہور معتبر تصنیف ‘Orientalism, دستاویٰزی نوعیت کی حامل اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا کہ فرانسیسی اور برطانوی مستشرقین نے کس طرح ‘مشرق، کی بالکل غلط نمائندگی کی ہے- ایسا کرتے ہوۓ انہوں نے مغربی علم کا بھانڈا یہ کہہ کر پھوڑ دیا کہ مغربی مفکرین مشرقی کلچر اور باشندوں کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں- اگر یہی کتاب کسی امریکہ یا اسرایئل نواز ادیب نے لکھی ہوتی تو اسے یقیناً نوبل انعام سے نوازا جاتا- ایڈورڈ سعید بھگوا دھاری ناول نگار وی-ایس-نائپال سے کہیں زیادہ اہم تھے- نوبل تو کیا انہیں امریکہ کا وہ پلٹزر انعام بھی نہیں دیا گیا جو ہر کس و ناکس کو فیاضی سے دیا جاتا ہے اور جس کی حیثیت ہمارے یہاں کے ساہتیہ اکادمی انعام سے زیادہ نہیں ہے- اس کے فوراً بعد لکھی جانے والی کتاب Culture and Imperialism کو دراصل اسی کتاب کا سلسلہ سمجھنا چاہیے۔ {ایڈورڈ سعید: ایک تعزیتی خاکہ۔۔فضیل جعفری}
فضیل جعفری مرحوم کے دو/2 شاعری اور تین/3 مقالات کے مجموعے شاءع ہو چکے ہیں۔
1۔ "چٹان اور پانی" { مقالات۔ 1974}
2۔ "رنگ شکستہ" {شاعری۔ 1980}
3۔ "کمان اور زخم"{ مقالات ۔ 1986}
4۔ "صحرا اور لفظ" { مقالات۔1994}
5۔ "افسوس حاصل ہوا" { شاعری 2009}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کِتابیات
== روحِ غزل ،پروفیسر مظفر حنفی ،الہ آباد، انجمنِ روحِ ادب 1993ء ص 459
رسائل
== غزل، فضیل جعفری ، " اَدبی دنیا" لاہور خاص نمبر 10 شمارہ دہم ص 222
== غزل، فضیل جعفری، " اَدبی دنیا" لاہور خاص نمبر 12 شمارہ از دہم 1964ء ص 161
== ماہنامہ "اوراق" لاہور اپریل مئی 1975ء ص 57 { بہ شکریہ بائیو گرافی}
********
فضیل جعفری کی یہ غزل ملاخطہ فرمائین :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*
چہرے مکان راہ کے پتھر بدل گئے
جھپکی جو آنکھ شہر کے منظر بدل گئے
شہروں میں ہنستی کھیلتی چلتی رہی مگر
جنگل میں باد صبح کے تیور بدل گئے
ہاں اس میں کامدیو کی کوئی خطا نہیں
رستے وفا کے سخت تھے دلبر بدل گئے
وہ آندھیاں چلی ہیں سر دشت آرزو
دل بجھ گیا وفاؤں کے محور بدل گئے
پھوٹی کرن تو جاگ اٹھی زندگی فضیلؔ
سنسان راستوں کے مقدر بدل گئے
*
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔