(Last Updated On: )
تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
— احمد فراز
مجھے یقین ہے کہ اگر ٢٠٢٠ میں ، خوابوں میں فضیل جعفری بھایی سے ملاقات ہو جاتی اور میں پوچھتا ..آہ ..لوگ آپ کو بھول گئے فضیل بھایی
ان کا جواب ہوتا — مجھ میں یاد کرنے والی خاص بات کیا تھی . میاں ، اس وقت ملک کے حالات کو دیکھو .
وہ رنجیدہ ہو جاتے ، اس وقت مجھے شاعری نہیں سوجھتی .مجھے کچھ اور نظر آتا .
بادشاہ خوش نہیں تھا .وزیر ایک صوفی سے ملا . صوفی نے کہا ، دور بہشتوں کی بستی ہے .وہاں سے خوشیوں کا پرندہ لے آؤ . وزیر چلتا گیا ، مگر نامراد لوٹ آیا .بازاروں میں دریافت کیا ، کہیں کسی کے پاس بھی خوشیوں کا پرندہ نہیں ملا . ایک بزرگ ٹکرائے .اہ بھری اور کہا ، یہ پرندہ کبھی ہوا کرتا تھا .اب شاید قاف کی وادیوں میں ملے .
فضیل کے پاس یہ پرندہ تھا . اور اس لئے وہ کسی سے نہیں ملتے تھے . گوشہ نشیں مگر خوش تھے . سچے صحافی تھے . بڑے شاعر ، جدید نقاد مگر طبیت بے نیاز پایی تھی .
اور اس نے کہا کہ میں اس وقت نہ ختم ہونے والی قصّے کی تلاش میں ہوں۔ جو مجھے راستہ دے رہا ہے۔پھر اس نے کہا :
از فراقت تلخ شد ایام ما
دور شد از جان ما آرام ما
جدائی کا غم ایسا کہ عشق کی آگ آسمان تک روشن ہے۔ اور اسی لیے یہ تنہائی مجھے محبوب ہے۔ اس نے تنہایی سے رشتہ جوڑا مگر ادب سے دور نہیں رہا .
فضیل جعفری کو یاد کرنے کے پس پشت ایک سوال بھی ہے .. ہم کسے یاد رکھیں کسے نہیں ؟ کیا پریم وار برٹنی اور امیر قزلباش کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے ؟ ایسے ہزاروں نام ہیں .. کیا اقبال ، میر ، غالب ، فیض کو یاد کرنا پڑتا ہے ؟ یہ نام ہماری زندگی کا حصّہ بن گئے ہیں . منٹو ، بیدی ، عصمت ، کرشن ، عینی آپا ، یہ سب گھر کے افراد کی طرح ہیں جنکا ذکر ہوتا ہی ہوتا ہے . یہاں تک کہ اس فہرست میں اب جون ایلیا بھی پھچ چکے ہیں . مخمور سعیدی جیسے نام خاموش ہوئے اور گمنامی میں ڈال دیے گئے . کون زندہ رہے گا .اور کون نہیں ، یہ طئے کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے . وہی زندہ رہے گا جو اوریجنل ہو . جس کا ادب مختلف ہو . جو ہماری ذہنی باغبانی کرے . جو ہماری کیفیت میں اضطراب برپا کرے .. ورنہ ہر دور میں جیتے جی ہزاروں ابھرے اور گمنام ہو گئے . کبھی کبھی تذکرہ بھی آ جائے گا . مگر زندوں میں پھر بھی شامل نہیں ہوں گے .نیر مسعود ، عرفان صدیقی ابھی بھی زندوں میں شامل ہیں .جیسے غالب ، میر اور عینی آپا . زندوں میں شامل ہونے کے لئے کچھ اور چاہئے وسعت بیاں کے لئے . کیا فضیل میں زندوں والی شان محفوظ ہے ؟ میرا ذاتی خیال ہے ، ہاں . ان کے یہاں کچھ تو خاص ہے ، جو دل کو چھو جاتا ہے .
ضد میں دنیا کی بہرحال ملا کرتے تھے
ورنہ ہم دونوں میں ایسی کوئی الفت بھی نہ تھی
زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے
بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے
چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے
خدا حافظ کہا بوسہ لیا گھر سے نکل آئے
بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی
قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو
پروفیسر فضیل جعفری 22 جولائی 1936ء کو الہ آباد کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے.وہ دوبار مشہور روزنامہ انقلاب (ممبئی) کے مدیر بنے اور کچھ مدت تک بطور ایڈیٹر ہفت روزہ بلٹز (اُردو) سے بھی وابستہ رہے .چٹان اور پانی،افسوس حاصل کا،کمان اور زخم‘ ،صحرا میں لفظ،رنگِ شکستہ ان کی کتابیں ہیں .مگر اب یہ کتابیں کہاں ملیں گی ، کویی نہیں جانتا . صحافت میں قدم رکھا تو ذمہ داریاں اس قدر تھیں کہ ادب کو بھول گئے .مگر جو لکھا ، وہ کسی خزانے سے کم نہیں . انھیں ملک کا مشہور اعزاز ' غالب ایوارڈ' بھی تفویض کیا گیا.2018ء کو فضیلؔ جعفری کا ممبئی میں انتقال ہوا اور اس کے بعد میں نے ان کا نام کہیں نہیں دیکھا . وہ پتھر کی طرح تھے . اور مجھے اس وقت ان کے تعلق سے ایک حکایت یاد آ رہی ہے . پتھر نے مٹی سے دریافت کیا کہ میرے پاس لچک کیوں نہیں ؟ نرمی کیوں نہیں . مٹی نے جواب دیا ، تمہارے یہاں سختی ہے . یہ سختی جب تک ختم نہیں ہوگی ، نرمی نہیں آئیگی . وہاں ایک کنواں تعمیر ہوا .پتھر کا ان کنواں میں استعمال ہوا . صدیاں گزر گیں . پتھر نے پھر مٹی سے دریافت کیا ، اب تو پتھر بھی گھس چکے .نرمی نہیں آیی . مٹی نے کہا ، پتھر ان لوگوں کی وجہ سے گھسے جو پانی بھرنے آتے ہیں . پتھر نے کہا ، میرے پاس کنواں کا پانی ہے ، مگر نرمی کیوں نہیں . مٹی نے کہا ، اس پانی کی وجہ بھی میں ہوں . یہ پانی بھی مٹی کے تہہ خانے سے آتا ہے . فضیل نے بے نیاز طبیت پایی تھی .مگر مزاج میں سختی عمر کے آخری حصّے تک رہی .
فضیل جعفری چلے گئے ، یقینا ایک دن سب کو جانا ہے، میں نے فضیل جعفری کی تصویر دیکھ رکھی تھی۔ ایک بار فون پر بات بھی ہوئی تھی۔ کسی زمانے میں مراسلت بھی رہی، اب صرف یادوں کا ایک قافلہ ہے، اور میری تنہائی۔ ایک ٹھہری ہوئی آواز مجھے نرغے میں لیتی ہے۔ ان سے فون پر گفتگو ہورہی تھی تو کسی لفظ کو لے کر وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے۔ پھر اس لفظ کی اتنی گرہیں کھولتے چلے گئے کہ میں خاموش تماشائی بنا ان کے ہر لفظ کو دل میں اتارتا چلا گیا۔ برسوں گزر گئے۔ لیکن اس آواز کا طلسم اب بھی برقرار …. تربیت کا یہ زمانہ کھوگیا…. وہ لوگ ماضی کا قصہ بن گئے جو خاموشی سے اپنی شفقت کا سایہ آپکے سر پر رکھ دیتے تھے۔ وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ لکھنا لکھانا بند ہوگیا تھا۔ پھر ایک دن چپکے سے چلے گئے لیکن یادوں کی بستیوں میں اور تنہائی کی سرپرستی میں یہ نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
فضیل جعفری بڑے شاعر تھے، وہ غالب و میر کے قبیلے کے تھے۔ فلسفہ و فکر میں آسانی سے اپنی ذات کے پرتوکو اس طرح رکھ دیتے کہ غزل کے ہر شعر میں معنویت پیدا ہوجاتی۔ میر جب لکھنؤ کے مشاعرے میں غربت کی حالت میں پہنچے تو اہل لکھنؤ نے پہچاننے سے بھی انکار کردیا مگر جب خدائے سخن میر کے اشعار سنے تو نادم بھی ہوئے اور میر کو سر آنکھوں پر بٹھایا، غالب کو ذوق کے رفقا سے شکایت تھی ، اور غالب اتنے بد دل تھے کہ انھیں کہنا پڑا:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
فضیل جعفری کی بے نیاز طبیعت کو بھی یہی رنگ منظور تھا، یہ چند شعر دیکھئے :
صداقتوں کے دہکتے شعلوں پر مدتوں تک چلا کیے ہم
ضمیر کو تھپتھپا کے آخر سلام دیا اور خوش رہے ہم
فضیل شاعر، مدیر، نقاد سب بظاہر تھے ہم ہی لیکن
ہمارے اندر تھا اور ایک شخص جس سے پیہم لڑا کیے ہم
یہ محض ایک غزل کے چند اشعار نہیں ہیں، ان میں فضیل جعفری جیسے بڑے ادیب کی زندگی کا راز دفن ہے۔ ممبئی نے کب کس کو پہچاناہے؟ اندر بیٹھے شخص سے پیہم لڑتے ہوئے ایک زندگی گزر جاتی ہے، فضیل جعفری نے بھی اپنے لئے سخت آزمائش بھری زندگی کا انتخاب کیا تھا، ان پتھریلے راستوں پر چلنا آسان نہیں ہوتا۔ زندگی میں کئی ایسے مرحلے آئے جب فضیل جعفری کو زندگی کے برہنہ سچ کا اعتراف کچھ اس طرح کرنا پڑا:
اس کو اپنانا بھی مشکل، چھوڑدینا بھی عذاب
پیچھے جنگل خوف کا، آگے سمندر ہجر کا
میں تازہ دم بھی ہوں بے چین بھی ہوا کی طرح
مرے قدم سے ہیں لپٹی روایتیں کیا
یہ کس کے انتظار میں جھپکی نہیں پلک
یہ کس نے مجھ کو راہ کا پتھر بنا دیا
کیوں کر حقیقتوں کا پتہ چل سکے کہ لوگ
ملتے ہیں اپنے آپ سے بھی اوڑھ کر نقاب
فضیل نے زندگی میں نقاب لگائے لوگوں سے فاصلہ رکھا . اور اسی لئے وہ چٹان کی طرح اصولوں کے پابند اور سخت رہے .وہ انگریزی کے استاد تھے انگریزی کے ایک میگزین ‘‘ون انڈیا ون پیپل’’ میں بھی بحیثیت مدیر کام کیا، ادبی مضامین لکھے.
لیکن یہ ان کی بڑی شناخت کا نصف حصہ بھی نہیں۔ وہ عظیم انسان تھے، ساری زندگی اردو زبان و ادب کی آبیاری میں صرف کی اور زندگی سے کوئی تقاضہ نہ کیا ، اب ایسے لوگ نہیں ملیں گے۔مشہور صحافی جاوید جمال الدین کو جعفری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے . اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں .ایک لیڈر سے اختلاف ہوا .انہوں نے ان لیڈر کا خط شائع کرنے کے ساتھ ہی اداریہ کی طرف سے آخر میں ایک نوٹ لگایا کہ ” آج بھی ہم اپنے رپورٹر کی بات کی حمایت کرتے ہیں۔ “چند دن بعد اس معاملہ میں مصالحت ہوگئی۔ جیتنی خوبیوں کے مالک تھے، اتنے کان کے کچے بھی تھے، جناب عالم نقوی تک کو نہیں بخشا، حالانکہ وہ ”نمبر ٹو“ تھے اور ساتھ ہی ایک مخلص انسان۔ ریحانہ کو ایک معمولی غلطی پر تین دن معطل کردیا تھا، میمو لکھنے کے لیے جیسے تیار بیٹھے رہتے، ایک معلم کا انداز بنائے رکھا، ’کرسی ‘پر بیٹھ جاتے تھے تو ’جلال‘نظرآتا تھا، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،
ان کا یہی جلال ان کی جان کا دشمن ثابت ہوا .ایک اچھے بھلے شاعر کی طرف فاروقی جیسے لوگوں نے توجہ کی پھر سب انھیں بھول گئے .
غضنفر اقبال کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہ مذہبی احیا پسندی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں ..اردو کا تعلق ابتداء سے ہی درباری اور جاگیردرانہ نظام سے رہا ہے ۔ اس فیوڈل نظام میں لڑکیوں کے ساتھ خوبصورت کھلونوں والا برتاؤ کیاجاتا تھا ۔ انہیں کسی طرح کی آزادی نہیں تھی ۔ لڑکیوں کا افسانہ لکھنا یا شاعری کرنا آوارگی کے مترادف تھا ۔ اب چونکہ پوری طرح نہ سہی کسی نہ کسی حد تک لڑکیوں پر پابندیاں کم ہوگئی ہیں اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں اس لئے شاعرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بظاہر اسلامی نظام ہے مگر وہاں خواتین کو زیادہ آزادی حاصل ہے ۔ کسی زمانے میں وہاں محض ادا جعفری اور زہر ہ نگاہ تھیں ۔ اب کشور ناہید، فہمیدہ ریاض ، پروین شاکر ، شاہدہ حسن ، نکہت حسن اور رشیدہ جہاں جیسی بہت سی شاعرات ہیں۔ پروین شاکر کی زندگی نے وفا نہیں کی ورنہ وہ اور آگے بڑھتیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک شفیق فاطمہ شعریٰ ہیں۔ بذات خود وہ بڑی اہم بلکہ "میجر" شاعرہ ہیں، مگر ان کے بعد کوئی اہم شاعرہ نہیں ابھری۔ ہندوستان کا مسلم معاشرہ مذہبی احیاء پسندی کی طرف راغب نظر آتا ہے ۔
وہ کم سخن تھے . گوشہ نشیں تھے . مگر وقت اور حالات کے تھپیڑوں پر نظر تھی . وہ اپنے کالموں میں بھی بغیر جذباتی ہوئے سنجیدگی سے سوال اٹھاتے تھے . مطالعہ کے شوقین تھے . ادب کے آر پار پر نظر رکھتے تھے . اب ممبئی ایسے لوگوں سے خالی ہو گیی .
کبھی ممبئی کی یاد آتی ہے تو خواجہ احمد عباس، ظہ انصاری، باقر مہدی، علی سردار جعفری کے ساتھ فضیل جعفری کا نام ذہن کے پردے پر ایسے روشن ہوجاتا ہے کہ دیر تک ان کی یادوں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے، سب کی اپنی اہمیت تھی، سب کی الگ الگ دنیا آباد تھی، ان میں کوئی کسی سے کم نہیں تھا، ظہ انصاری کے لفظوں میں کہوں تو سب باون گز کے ، خواجہ صاحب بلٹز کے آخری صفحے کے لئے بھی مشہور تھے، ظہ صاحب کی زبان اس قدر لطیف اور شگفتہ کہ ذہن و دل کے دریچوں میں تازگی کا احساس پیدا ہوتا تھا، باقر مہدی کا نام آتے ہی فکر و فلسفے کی کتنی ہی کہانیوں کے دیے روشن ہوجاتے تھے، علی سردار جعفری ترقی پسندی کے نگہبان تھے، گفتگو جیسا معیاری رسالہ اردو زبان کو تحفے میں دیا، فضیل جعفری بے نیاز طبیعت کے مالک مگر اس وقت اس نام کی کشش ایسی تھی کہ ادب کی چھوٹی سی کائنات میں قدم رکھنے والے ہر مسافر کے لئے اس نام کی اپنی اہمیت تھی۔ .ادبی حافظہ ڈیمینشیا یا الزائمر کی بیماری کا شکار نہیں ہوتا . وہ بہت حد تک گوشہ نشیں تھا .اور یہ کویی جرم نہیں .
ڈھونڈھو گے اگر ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم