فیوژن سے توانائی ۔ 2018 کی اہم پیشرفت (بڑے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں)
جدید تہذہب بجلی پر چلتی ہے۔ دوڑتے بھاگتے الیکٹران جو کمرے سے روشنی سے لے کر صنعتیں چلانے اور آپ کو یہ پوسٹ پڑھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ بجلی کو بنانے کے تقریبا تمام طریقوں میں ایک ٹربائین کو گھمایا جاتا ہے، جس سے جنریٹر کو پاور ملتی ہے اور اس سے بجلی حاصل ہوتی ہے۔ تیل، کوئلہ، گیس، پانی، ہوا، نیوکلئیر توانائی وغیرہ اس پہیے کو گھمانے کے مختلف طریقے ہیں۔ (شمسی توانائی واحد طریقہ ہے جس میں ایسا نہیں ہوتا)۔ توانائی کے ان تمام طریقوں کے ساتھ اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ہر جگہ ڈیم نہیں بنائے جا سکتے اور پانی کا بہاوٗ موسم کے حساب سے بدلتا ہے۔ تیز ہوا ہر جگہ اور ہر وقت نہیں چلتی۔ سورج ہر وقت نہیں چمکتا۔ کوئلہ، گیس، تیل گرین ہاوس گیس پیدا کرتے ہیں اور لامحدود نہیں۔ نیوکلئیر توانائی کا ویسٹ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
توانائی کا ایسا طریقہ جس کا ایندھن بآسانی ہر جگہ دستیاب ہو، کسی بھی وقت بنائی جا سکے، اس سے کوئی ایسی چیز خارج نہ ہو جو ماحول کو نقصان پہنچائے۔ ایسی پرفیکٹ توانائی کا ذریعہ بھی ہے اور یہ ذریعہ فیوژن ہے۔ اس میں صرف ایک مسئلہ ہے۔ یہ ہمیں کرنا نہیں آتا۔
ہم اس طریقے توانائی حاصل تو کر چکے ہیں لیکن ابھی تک ہم اس ری ایکشن کو شروع کرنے میں جتنی توانائی خرچ کرتے ہیں، وہ اس سے حاصل ہونے والی توانائی سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس کو زیادہ دیر تک ابھی تک ہم چلا نہیں پائے۔ فیوژن وہ ری ایکشن ہے جو سورج اور ستاروں پر ہو رہا ہے اور کائنات کو روشن کرتا ہے۔ اس میں ہائیڈروجن کے دو ایٹم مل کر ہیلئم میں بدلتے ہیں اور بہت سی توانائی خارج ہوتی ہے۔ اسے کرنے کے لئے ہائیڈروجن آئون کے بہت ہی گرم پلازمہ کو مقناطیسی فیلڈ کے اندر رکھا جاتا ہے۔ ڈونٹ کی شکل کا یہ کنٹینر سٹیلیریٹر یا ٹوکاماک کہلاتا ہے۔ (اب اس کے کچھ نئے ڈیزائن بھی زیرِغور ہیں)۔ ٹوکاماک وہ بوتل ہے جس میں ہم ستارہ بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیوژن ری ایکٹرز کے فیلڈ میں ہونے والی ریسرچ میں ہم ان ڈئزائنز کو بہتر کرنے پر کام کر رہے ہیں، تا کہ اس مقام تک ہنچ سکیں جب اس کو شروع کرنے کے لئے جتنی توانائی دینی پڑتی ہے، اس ری ایکشن سے اس سے زیادہ توانائی حاصل کی جا سکے۔ اکیسویں صدی کے اس “پارس کے پتھر” کی تلاش پر بہت جگہ پر کام ہو رہا ہے اور نجی ادارے بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ اس میں 2018 میں کئی جگہ پر کچھ بریک تھرو ہوئے ہیں۔
چین کا مصنوعی سورج دس کروڑ ڈگری تک پہنچ گیا
چین کا تجرباتی ایسٹ ری ایکٹر 2006 سے کام کر رہا ہے اور دنیا کے بڑے ٹوکاماک ری ایکٹرز میں سے ہے۔ نومبر 2018 میں یہ فیوژن ری ایکشن کو دس سینکڈ تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا اور درجہ حرارت دس کروڑ ڈگری تک پہنچا۔ یہ سورج کے درمیان کے درجہ حرارت سے چھ گنا زیادہ ہے۔ اس سے دس میگاواٹ انرجی حاصل ہوئی۔ یہ نہ صرف سب سے زیادہ درجہ حرارت تھا بلکہ سب سے زیادہ دیر تک برقرار رہنے والا ری ایکشن بھی۔ نیوکلیئر فیوژن کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا زیادہ دیر برقرار رہنا ہی ہے۔ یہاں پر چینی سائنسدانوں نے کئی طریقے استعمال کئے ہیں جن میں اس پلازمہ میں الیکٹرانز اور آئنز کی آسیلیشن سے حرارت، الیکٹران سائیکلوٹران ویو ہیٹنگ، سائیکلوٹران کے ذریعے آئونز کی رفتار تیز کرنا اور نیوٹرل بیم پارٹیکلز سے دی جانے والی حرارت شامل تھیں۔ چینی سائنسدان اسی طرح مزید تجربے کر رہے ہیں۔ اس امید میں کہ اس ری ایکشن کو زیادہ سے زیادہ دیر تک جاری رکھا جا سکے۔
پرنسٹن نے پلازمہ کو استحکام دینے کا طریقہ ڈھونڈ لیا
پلازمہ ایک بہت ہی گرم فلوئیڈ ہے۔ اس کا مطلب کہ اس میں فلوئیڈ ڈائنامکس آ جاتی ہیں اور یہ ایک کیاوس (افراتفری یا گڑبڑ) ہے۔ کیاوس پر قابو پانا مشکل کام ہے۔ پرنسٹن پلازمہ فزکس لیبارٹری نے اس پر قابو پانے کے لئے ریڈیو فریکوئنسی کی ویوز کا طریقہ دریافت کیا ہے اور اس پر ایک پیپر پبلش کیا گیا ہے۔ پلازمہ کے گھومتے پارٹیکل مقناطیسی بلبلے بناتے ہیں اور بننے والے یہ مقناطیسی جزیرے پلازمہ میں گڑبڑ مچاتے ہیں اور اس کو غیرمستحکم کرتے ہیں۔ ان کو سائز میں بڑا ہونے سے روک دیا جائے تو پلازمہ کو زیادہ ڈسٹرب نہیں کر سکیں گے اور اس میں استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
نجی ادارے کا کاپرنیکس ری ایکٹر
توانائی کی اس دوڑ میں پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں جن میں سے ایک ٹی اے ای ٹیکنالوجیز ہے جو پچھلے بیس سال سے کام کر رہی ہے۔ اس نے حال ہی میں پچاس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری اکٹھا کی ہے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں گوگل اور مائیکروسوفٹ جیسے کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ہونے کی وجہ ان کا بنایا نیا نارمن ری ایکٹر ہے۔ اس میں دو طرف سے آنے والی بیم آپس میں ٹکراتی ہیں۔ 2017 میں اس طریقے سے انہوں نے دو کروڑ ڈگری درجہ حرارت حاصل کیا تھا۔ اب انہوں نے نئے کاپرنیکس ری ایکٹر کا اعلان کیا ہے۔ ان کو توقع ہے کہ توانائی کی مثبت آوٹ پٹ اگلے پانچ برسوں میں اس سے حاصل کی جا سکے گی۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو سکے اور اس کو کمرشلائز کر دیا تو یہ نئی مارکیٹ میں لیڈر بن سکتے ہیں۔ فیوژن ری ایکشن کی کامیابی دنیا کا نقشہ بدل دے گی۔ بھاری سرمایہ کاری کی جانے کی یہی وجہ ہے کہ اس میں کون حصے دار ہو گا۔ اور پیسہ کئی ٹیکنیکل مسائل بھی کر دیتا ہے۔
سائنسدانوں نے ڈی کو الٹا دیا
سان ڈیگو میں پلازمہ فزسٹس نے ایک سادہ اور دلچسپ طریقہ اپنا کر ایک کامیابی حاصل کی ہے۔ ٹاکاماک ری ایکٹر میں ڈی کی شکل میں پلازمہ کو روکا جاتا ہے۔ ان سائنسدانوں نے اس کی شکل کو تبدی کر کے الٹا کر دیا۔ پلازمہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک کم توانائی والا جو ایل موڈ کہلاتا ہے، جبکہ دوسرا زیادہ توانائی والا جو ایچ موڈ ہے۔ ایچ موڈ پلازما زیادہ غیرمستحکم ہے۔ اس طریقے سے اور اس شکل سے جب پلازمہ ایل سے ایچ موڈ میں داخل ہوتا ہے تو اس کے مستحکم ہونے پر فرق نہیں پرتا یعنی ایچ موڈ پلازمہ ایل موڈ کے استحکام کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے پر ابھی بڑے تجربات نہیں ہوئے۔ لیکن محدود تجربات میں کامیابی ہوئی ہے۔ یہ پہلے کیوں نہیں کیا گیا یا بڑے سکیل پر کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کیونکہ ٹوکاماک ری ایکٹر کی کنفگریشن تبدیل کرنا مہنگا کام ہے اور ابھی اس کے مضمرات کا علم نہیں۔
کیا ان میں سے کوئی مستقبل میں اس کی کامیابی کا راستہ ہے؟ معلوم نہیں لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں بہت جگہوں پر اس پر نئے خیالات پر کام ہو رہا ہے، تجربے ہو رہے ہیں۔ یہ درجنوں میں سے چار مثالیں ہیں۔ اس توانائی کی کنجی کون کھولے گا؟ سورج کی طاقت زمین پر کون لانے میں کامیاب ہو گا؟ یہ ممکن بھی ہو پائے گا یا نہیں؟ ان کے جوابات کا ہمیں علم نہیں۔ سائنس بس ایسے ہی ہوتی ہے۔
چھوٹے چھوٹے قدم۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہر طرف سے حملہ آور ہونا۔ بہت سے ناکامیوں میں سے خال خال نکلتی کوئی کامیابی۔ یہ بڑے مسئلوں کو حل کرنے کا طریقہ ہے۔ خواہ اپنی زندگی میں ہوں، قوموں کے مسائل ہوں یا پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کے۔
فیوژن کی کامیابی جلد نہیں ہو گی۔ لیکن اس پر مثبت خبروں کی آمد کی رفتار اب تیز تر ہے۔ اگر اور جب یہ حل ہو گیا تو شاید ایسا لگے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جو کر لے گا، ٹیکنالوجی سے حاصل کردہ اگلا بڑا خزانہ اس کے پاس ہو گا۔