(Last Updated On: )
حسین الحق نے تاریخ، تہذیب، ثقافت اور معاشرتی شعور سے اپنا تخلیقی نظام قائم کیا ہے۔ انھوں نے فکشن کے رائج سانچوں کو توڑ کر اظہار کے نئے رویّوں کو فروغ دیا ہے۔ ناول ’’فرات‘‘ اِس کی واضح مثال ہے جو تشنہ لب انسانیت کا اعلامیہ ہے۔ دو سو چھیانوے صفحات پر مشتمل یہ ناول ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔ یہ سال صرف بابری مسجد کی شہادت کا سال نہیں بلکہ آپسی رشتوں اور اعتماد کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا سال ہے۔’’فرات‘‘ کی اہمیت اور افادیت ہر پُر آشوب دور میں اور تشنہ عصر میں محسوس ہوتی ہے لہٰذا حسین الحق نے وقار احمد کے توسط سے پانچ نسلوں پر مشتمل ایک کہانی قاری کے سامنے پیش کردی اور سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے نئے در کھول دیے۔اس عبرت ناک کہانی میں مرکزیت وقار احمد کو حاصل ہے جن کی پُشت پر ابّا جان اور دادا حضرت کی یادیں، سامنے بیٹے بیٹی، پوتے پوتی اور درمیان میں خود وقار احمد اور اُن کی پچھتّر سالہ زندگی کے نشیب و فراز ہیں۔ ابّا جان اور دادا حضرت تو پس منظر کا کام دیتے ہیں، پیش منظر میں بڑے بیٹے فیصل کا کنفیوژڈ مگر قابل توجہ کردار ہے جو نہ تو پوری طرح جدید بن سکا اور نہ ہی قدیم روایات سے وابستہ ہو سکا۔ دوسرا بیٹا تبریز ہے جو ذہنی ہیجان میں مبتلا، مذہب سے بے بہرہ، گھر سے بیگانہ اور خود سے اُکتایا ہوا نظر آتا ہے۔ تیسرا کردار بیٹی شبل کا ہے۔ پینتیس سالہ روشن خیال لڑکی شبل جمہوریت، سیکولزم اور کمیونزم کی دلدادہ ہے اور سب کو اپنے طور پر زندگی گزارنے کا حق دلانا چاہتی ہے مگر فسادیوں کی بربریت کا شکار ہوتی ہے اور :
’’جس کے بارے میں کمیشن آج تک فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ پولیس کی گولی سے مری یا حملہ آوروں کے وار سے۔‘‘ (ص۲۹۶)
’’فرات‘‘ کی کہانی بظاہر ایک خاندان کی کہانی کی طرح اُبھرتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اُس کا کینوس وسیع ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں ماضی کا جبر، جنریشن گیپ،مذہبی رویے، سیاست، تہذیب ، ثقافت غرض زندگی کے مختلف پہلوؤں کے در کُھلتے چلے جاتے ہیں اور وہ بھی اس تخلیقی خوبی اور فنّی چابکدستی کے ساتھ کہ قاری کی دلچسپی ناول کے آخری صفحات تک مسلسل بر قرار رہتی ہے۔ آئیڈیالوجیکل مسائل اور اقدار کے تصادم کی عکاسی کے علاوہ مذکورہ ناول اُس کرب کا بھی شدّت سے احاطہ کرتا ہے جس میں ہندوستانی مسلمان تقسیمِ وطن کے بعد سے آج تک عدم تحفظ کے حالات سے دو چار ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کس طرح صرف مسلمانو ں کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتے ہیں اور پولیس اُس میں کس طرح برابر کی شریک رہتی ہے، یہ ناول اُس کی نشاندہی کرتا ہے اور لا شعوری طور پر یہ بھی احساس دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس یا تو عظمتِ رفتہ کی داستانیں ہیں یا حال کی بدحالیاں۔ اور وہ اِن ہی کے وسیلوں سے جی رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں کیوںکہ زندگی کی چاہت بار بار انھیں ٹھونکے مار رہی ہے اور آگے بڑھنے پر اُکسا رہی ہے۔
حسین الحق کا یہ ناول عمل اور ردِّ عمل کے پیہم اور پیچیدہ دام میں گرفتار اُس زندگی کا اعلامیہ ہے جو فرات کی مانند ہے اور جس کے کنارے کھڑی تشنہ لب انسانیت کرب و بلا میں گرفتار ہے اور اُس سے نجات حاصل کرنے کی مسلسل جدو جہد میں لگی ہوئی ہے۔ اس ہمہ گیر علامت کی روشنی میں جو اہم پہلو ہمارے سامنے اُبھر کر آتا ہے وہ یہ کہ قوم کو نہ صرف اپنی تاریخ سے واقف ہونا چاہیے بلکہ اُس سے سبق بھی لینا چاہیے۔
ماضی کی طرف مُراجعت کا سفر کل، آج اور کل کے پُل کو پاٹنے میں معاون ہوتا ہے۔ اِسی کے توسط سے وہ محرکات اُجاگر ہوتے ہیں جو ہمیں مہمیز کرتے ہیں، جدو جہد پر اُکساتے ہیں اور ہمیںNostalgicبھی بناتے ہیں۔ بس انتخاب کا اہتمام اور واقعات کی روح کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔ حسین الحق تقسیم ہند کا ذکر کرتے ہوئے اس سائیکی کو بہت خوبصورت ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں:
’’مملکتِ خدا داد اسلامیہ پاکستان اور سیکولر جمہوریہ ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے خون سے وہ ہولی کھیلی گئی کہ مہا بھارت کی جنگ ایک چھوٹا سا حادثہ محسوس ہونے لگی اور راتوں رات انسانی تقدیر کے کلنڈر کا ایک ورق زور دار ہوا کے جھونکے سے پھٹ کر کہیں دُور پھینکا گیا اور اب مسلمان ہندوستان میں ایک نمبر کے شہری کابِلّا لگائے، دو نمبر کے شہری کی طرح زندگی بسر کر رہے تھے۔ ‘‘ (ص ۱۵)
ناول ’’فرات‘‘ اپنی تنظیم کا احساس دلاتا ہے ، مسائل سے دو چار کرتا ہے اور حسّاس قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اِس کے تمام کردار اپنی اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے بعد بھی نا آسودہ نظر آتے ہیں اور خود شناسی اور خود دریا فتگی کے عمل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تبریز اپنے ارد گرد کے حبس زدہ ماحول سے گھبرا کر خود سے پوچھتا ہے کہ:
’’میں کیا ہوں؟——میں کیوں ہوں؟——-میں کب سے ہوں؟‘‘
مگر اُس کے گرد چاروں طرف، دُور دُور تک وہی دُھند اور وہی ہاں نہیں والی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ اِس کردار کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کے ذہن میں کہیں نہ کہیں سے کامو کی کتابThe Myth of Sisyphusکی سچویشن اُبھرآتی ہے جس میں دوسری جنگِ عظیم کے وقت جو ذہنی اور نفسیاتی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی ، اس کو موضوع بنایا گیا تھا۔ تقریباً وہی موضوع ایک مختلف کینوس پر ہمیں تبریز کے کردارکے توسط سے ’’فرات‘‘ میں نظر آتاہے۔ سارتر کے ناولی ’’متلی‘‘ میں وجود کی شناخت اوراُس کی لا معنویت اور زندگی کی بے چہرگی کے احساس کو جس طرح موضوع بنایا گیا اُسی طرح تبریز کے کردار اور اُس کی ذہنی کیفیت پر حسین الحق نے گفتگو کی ہے۔ اس میں کافکا کے افسانہ ’’قلب ماہیت‘‘ کا اثر بھی خاصا واضح ہے کہ مذکورہ کہانی میں اسماء کے چیزوں سے یعنی اجزا کے جوہر سے الگ ہوجانے کے تجربہ کا بیان ہے۔ تبریز کے حوالے سے حسین الحق شاید یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ بصارت اور سماعت نے انسانی وجود میں ایسا خلفشار پیدا کر دیا ہے کہ اشیاء کا بنیادی جوہر یا تو گُم ہو گیا ہے یا پھرمسخ ہو گیا ہے۔ کائنات اور اشیاء و مظاہر کی تمام مسخ شدہ شکلیں ہی اصلاً ’’فرات‘‘ کا خام مواد ہیں۔ کسی فلسفیانہ اور متصوفانہ تصور کو قصہ کا رُوپ عطا کرنے کا یہ ہُنر حسین الحق کی خاص شناخت ہے۔
’’فرات‘‘کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ہر عہد میں سچ کی تلاش کا کرب جھیلنے والا شخص حسینؓ کا پیروکار ہے مگر آج کا یہ پیروکار جاہ و حشم کی بہتی ہوئی ندی کا آرزو مند ہے اسی لیے فرات کی روح اُس سے دُور ، بہت دُورہے۔حسین الحق نے فرات کا استعارہ سیرابی، آسودگی کے طور پر اور حسینؓ کا استعارہ صداقت اور تشنگی کے طور پر استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے ناول کا کینوس بہت وسیع ہو گیا ہے۔ تاریخی پھیلاؤ اور فلسفیانہ گہرائی سے بھر پور یہ ناول اظہار و بیان کے مختلف طریقوں کا امتزاج ہے۔ اس کا بیشتر حصہ شعور کی رَو اور فلیش بیک کی تکنیک پر مبنی ہے۔ ناول نگار نے وقار احمد، فیصل اور شبل کی خود کلامی کے ذریعے کرداروں کی ذہنی زندگیوں سے اِس طرح پردہ اُٹھایا ہے کہ عصرِ حاضر کی کربناک اور کریہہ تصویر قاری کی نظروں میں پھر جاتی ہے۔
زیر مطالعہ ناول انسانی وجود کے مختلف داخلی اور خارجی پہلوؤں کو اس طرح سمیٹے ہوئے ہے کہ اس کے دائرے میں فرد کی شناخت کا مسئلہ بھی گردش کرتا نظر آتا ہے اور جبرِ کائنات کو تصوّر بھی۔ کہانی اس طرح آگے بڑھتی ہے کہ وقار احمد اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیتے ہوئے عمر کے آخری حصّہ میں Nostalgiaکے ٹرانس میں آجاتے ہیں۔ حال سے اُن کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ ماضی میں ایک طرح سے محو ہوجاتے ہیں۔ ماضی اور حال کے مابین چھایا ہوا اندھیرا اُنھیں پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے نتیجتاً زندگی بھر دوسروں کے دُکھ سُکھ میں شریک رہنے والا مخلص انسان خود غرض اور خود پرست کی طرح اُبھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ جب اُس کاFrustrationبہت بڑھتا ہے تو وہ تبلیغی جماعت میں شامل ہوکر گھر چھوڑ دیتا ہے۔
مذہب کے بارے میں روایتی تصوّر نہ رکھنے والا یہ شخص جماعت میں شامل ہو کر تبلیغ کے درس کے لیے نکل تو پڑتا ہے مگر وہاں بھی اُسے اپنے سوالوں کا جواب نہیں مل پاتا ہے کیونکہ وہاں تو:
’’کبھی زمین کے نیچے کی بات ہوئی، کبھی آسمان کے اوپر کی، گفتگو کے بنیادی نکات بس یہی دو مقامات تھے۔‘‘
جب کہ وقار احمد بدلتے ہوئے عصری تناظر میں مذہبی رُجحانات کے نئے شیڈس کے متلاشی تھے لہٰذا وہ اس جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت سے رجوع کرتے ہیں اور اُس کے صاحب اقتدار لوگ انھیں ایک اسکول کا پرنسپل بنا دیتے ہیں۔ مگر وہاں بھی بے قراری کو قرار نہیں مل پاتا ہے اور جب وہ اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیںکہ:
’’لیکچرر شپ سے سفر شروع ہوا، پروفیسر تک پہنچا۔ بیچ میں ادبی ریاضت، شہرت، عزت، دولت۔ خدا نے کیا نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر پرنسپل حِرا پبلک اسکول۔‘‘
اور جب وہ ایک دن:
’’چھوڑی ہوئی اور اپنائی ہوئی جماعت کے فرق پر غور کرنے لگے تو انھیں احساس ہوا کہ دونوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلی جماعت ایکStatic pointپر متحرک تھی اور دوسری ایک متحرک مدار پر گردش کر رہی تھی،پہلیPractice orientationکے ذریعہ اقداری تصوّرِ حیات پیدا کرنا چاہ رہی تھی۔ یعنی نقل سے اصل کی طرف بڑھنا چاہتی تھی اور دوسری اقداری تصورِ حیات کو عملی جامہ پہنانا چاہ رہی تھی یعنی اصل کا ہو بہو عکس آئینۂ عمل کے ذریعہ منعکس کرنا چاہتی تھی۔‘‘(ص۲۱۳)
وقار احمد کے پاس سبھی کچھ موجود تھا۔ بس نہیں تھی تو ایک چیز—–اور وہ تھی سکون سے جینے کی ادا، جس کی تلاش میں وہ یہاں تک آئے تھے اور اب خود کو تلاش کر رہے تھے یہ جانتے ہوئے کہ یہ تلاش بے کار بھی ہے اور ناکام بھی کیونکہ:
’’قدرت نے خود اُن کے سامنے اُن کے کھودینے اور گُم کردینے کا بے معنی مگر درد ناک ڈراما کھیلا تھا۔‘‘(ص۷۰)
پل پل بدلتی اِس کائنات میں ’وقت‘ ہوا اور پانی کی طرح سیّال اور رواں دواں تیزی سے گزرتا رہا۔ فلیش بیک کے جھماکے ہوتے رہے، عکس جلتے رہے، بجھتے رہے، بجھتے رہے جلتے رہے۔ مذہب میں سیاست کی شمولیت اور اُسے اپنے مفاد کی خاطر خانوں میں بانٹ دینا، ان سب سے وقار احمد بہت جلد اوب جاتے ہیں مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اب وہ جائیں کہاں؟ بے سمت مسافر آخر کار اپنے پس منظر کی طرف لوٹتا ہے اور یہ پس منظر ہے تصوف کا ، جسے وہ کوسوں پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس مقام پر ناول نگار اس امر کی نشاندہی کرنا نہیں بھولتا ہے کہ تصوف میں جو جذب کی کیفیت ہے اُسے سمجھنے والے چند لوگ ہی بچے ہیں، عوام تو یہی سمجھتے ہیں کہ وقار احمد کا دماغ پلٹ گیا ہے۔ تصوّف کی طرف لوٹنے کا یہ عمل سیکولر اخلاقیات کی تلاش اور سماج کو مذہب سے اگر زیادہ نہیں تو کم از کم مذہب کے ساتھ ساتھ اُس تہذیبی منظر نامے سے جُڑنے بلکہ دوبارہ جُڑنے کا ایک تخلیقی پیغام ہے۔ اِسے آج کی موجودہ عسکری ذہنیت اورFundamentalismکے مقابلے پر ناول نگار کا ایک منفردCreative out lookبھی کہا جا سکتا ہے۔
ناول کا ایک اہم موضوعNostalgiaبھی ہے جو وقار احمد کی طرح فیصل کو بھی Attract کرتا ہے۔ فیصل اُس پیڑھی کا نمائندہ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے جو نئے اور پُرانے کے بیچ پھنسا ہوا ہے اور بہت زیادہ مضطرب اور بے چین ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ کردار نابغانہ تشکیک(Intellectual Confusion)کا حامل ہے پُرانا محلہ اور نئی کالونی استعارے بن جاتے ہیں دو جنریشن کے۔ پُرانے لوگ جو ابھی بھی قدیم روایتوں اور رسم و رواج سے منسلک ہیں جب کہ نئی پیڑھی اپنے کو ان پابندیوں سے الگ کرکے نئی سوچ اور نئے طرز پر زندگی گزارنے کی جدو جہد کر رہی ہے۔ اس تگ و دو میں سب کو اپنی زندگی اپنے طور پر جینے اور فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ فیصل کو یہ سب کھوکھلا معلوم ہوتا ہے اور وہ پریشان ہوکر ماضی میں پناہ ڈھونڈھتا ہے کیونکہ یہاں اظہار سے زیادہ جذبہ ہے اور وہاں جذبہ سے زیادہ اظہار۔ اور فیصل جس کی کوئی شناخت نہیں وہ مصلحت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے لیکن اِس کے باوجود اُس کے سر د وجود کی راکھ میں زندگی کی کچھ چنگاریاں دبی ہوئی ہیں جو ذراسی موافق ہوا چلنے پر بھڑکنے لگتی ہیں او ر اِس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ ُاس کا بھی اپنا ایک Rootہے اور وہ اپنے پُرکھوں کے کچھ خوابوں کا وارث بھی ہے مگر آزادی کے بعد جوان ہونے والے مسلم متوسط طبقے کے زیادہ تر نوجوانوں کی طرح فیصل کے یہاں بھی قوتِ ارادی اور عمل کا فُقدان ہے۔ زندگی جب دوراہے پر لاکر اُسے فیصلہ کرنے پر مجبور کرتی ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور مصلحتوں کا لال بتی پر اُس کے عمل کی گاڑی ہمیشہ تذبذب کا شکار ہوجاتی ہے جب کہ اُس کا دوست ماتھر مادّی ترقی، لالچ اور ہوس کی علامت بن کر اُبھرتا ہے اور اُس کی مقناطیسی شخصیت کے سامنے وہ ہمیشہ ہتیھیار ڈال دیتا ہے۔ گھر کے ہر فرد نے ماحول سے بغاوت کی مگر فیصل نے ہر اذیت کو برداشت کیا اور وقت کے جبر کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اور آخر ایک لمحہ میں اُس کو اپنے دادا حضرت کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں:
’’جو اپنے اندر اور باہر کے شیطان سے جنگ میں جیت گیا وہی شہیدِ اعظم بھی ہے اور غازی بھی۔‘‘
درجات کی یہ تبدیلی اور اُلٹ پھیر وقار احمد کے بچوں میں لا شعوری طور پر پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ وقار احمد خود جس ماحول میں پیدا ہوئے تھے وہ ایک اوسط درجہ کا مسلم ماحول تھا ۔ وہ اس ماحول سے اپنے آپ کو نکال تو لائے تھے مگر اپنے کو کبھی ماضی سے الگ نہ کر پائے حالانکہ حال میں اُن کے پاس سب کچھ تھا۔ بچے ، خوبصورت گھر، عزّت، بڑے ادیب ہونے کے ناطے مختلف انعامات بھی مل چکے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں اور کیا چاہیے تھا مگر وہ اپنی امّاں، اپنے ابّا، اپنے دوست اور اپنے عہد کو عمر کے اس آخری حصہ میں Missکر رتے تھے، اُس کے لیے بے چین اور بے قرار ہو رہے تھے۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے کہ وہ جہاں سے شروع ہوتی ہے ایک بار پھر اُس کی طرف لوٹ جانے کے لیے بیچین رہتی ہے۔ پھیلنے اور سمٹنے کا یہ عمل ماضی کے دریچوں کو کھولتا اور حال کے دروازوں کو آدھا کُھلا اورآدھا بند رکھتا ہے۔
شعور کی رَوَ کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ناول نگار نے وقار احمد اور فیصل کو ماضی اور حال میں ڈوبتے اور اُبھرتے دکھایا ہے۔ وقار احمد تو ماضی میں زیادہ تر ڈوبے رہتے ہیں اوعر حال میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر صفیہ خالہ کی بیٹی شیمیؔ سے اُن کا عشق جوانی کی ابتدا میں ہوا اور وہ ہمیشہ ان کے لیے بس پرچھائیں بنی رہی۔ وقار احمد نے اس پر چھائیں کو حیقیقت میں بدلنے کے بہت جتن کیے مگر:
’’سات تہوں میں اپنا آپ چھُپا کر اور سینت کر رکھنے والی یہ بورژوا، مہاجنی نظام کی پروردہ، آدھی کھلی آدھی چھُپی، ہاں اور نہیں کے حِصار میں گُم، ڈر پوک اور بے وقوف لڑکی کسی طرح بھی پوری کی پوری اس کے سامنے آجائے لیکن پرچھائیں پرچھائیں ہی رہی۔‘‘ (۷۰)
اور آخر کار اُس کی شادی کسی اور سے ہو جاتی ہے اور وقار احمد دل مسوس کر رہ جاتے ہیں البتہ اُن کا یہ عشق زندگی بھر اُن کے ساتھ رہتا ہے۔ در اصل ناول نگار نے عشق کے جذبہ کو ایک بڑے کینوس میں اُبھارا ہے۔ یہ عشق مذہب سے بھی ہو سکتا ہے، وطن سے بھی، قدروں سے بھی اور اشخاص سے بھی۔ اور یہی عشق عصرِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو انسان میں پروان چڑھنے والی حیوانیت کو ختم کر سکتا ہے۔مذہبی جنون کو تحلیل کرکے آپسی بھائی چارے کو فروغ دے سکتا ہے:
’’اور تب وقار احمد نے دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھا۔
ایسی نظر جو اِس سے پہلے اُن کا مقدر نہیں تھی۔
دُنیا—–اور اُس کے مظاہر
کائنات—–اور اُس کے اسرار
وجود—–اور اُس کی پیچیدگیاں
حیات—-اور اُس کی لطافتیں، کثافتیں، سرگرانیاں اور سبک ساریاں۔‘‘ (ص۸۰)
ناول کا ایک اور اہم کردار تبریز جو نئی پیڑھی کا استعارہ ہے۔ اس کی شبیہہ اس طرح اُبھرتی ہے:
’’جھلاہٹ میں گرفتار، اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے غیر مطمئن سارے زمانے سے شاکی، اپنے خواب سے بے خبر اپنی آنے والی صبحوں سے نا آشنا کسی پروگرام کے تحت زندگی کب بسر کرپایا ہے؟‘‘ (ص۱۵۱)
اس کا کوئی ماضی نہیں ہے۔ یہان تک کہ ماں، باپ کی محبت بھی نہں ہے کیونکہ بچپن میں ماں کا انتقال ہو جاتا ہے اور باپ اُس کی پرورش نوکرانی کے سپرد کردیتے ہیں۔نئی جنریشن نے کس طرح اپنے بڑوں کو رد کر دیا، اس کی بہترین مثال تبریز ہے۔ اُس کے پاس بیتا ہوا کوئی لمحہ نہیں ہے، کوئی خواب نہیں ہے۔کوئی ایسی یا د نہیں ہے جو اُسے ملول کر سکے، اُس کی پلکیں نم کر سکے اور وہ ’’نہ پانے‘‘ کے درد کو سمجھ سکے۔ درد تبریز کے لیے ایک نا قابلِ تفہیم کیفیت ہے۔ اسی لیے وہ لا یعنی زندگی جینے کا لا شعوری طور پرشروع سے عادی ہو چکا ہے اور اب وہ یہ نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ آئندہ اُسے کیا کرنا ہے۔ باپ کے لیے اُس کے اپنے تاثرات کو ناول نگار ان الفاظ میں پیش کرتا ہے:
’’نان سنس! اُسے پھر وہ بوڑھا آدمی——وقار احمد——یاد آگیا جو تبریز سے آج تک کسی طرح ایڈمسٹ نہ کر سکا۔ پتہ نہیں یہ آدمی کس صدی کی ذہنیت رکھتا ہے ، تبریز نے سوچا۔‘‘ (ص۱۳۰)
ناول کا ایک ثانوی مگر سب سے زیادہ ابن الوقت اور مصلحت پسند کردار عنیزہ کا ہے جو اپنے مفاد کے لیے مذہب تک کا استعمال کرنے سے نہیں چوکتی ہے بلکہ ایک بے سہارا عورت کو صرف اس وجہ سے پناہ دیتی ہے کہ اُس کے دم سے گھر میں نماز کی ادائیگی اور قرآن کی تلاوت ہوتی رہتی ہے۔ اُس کے نزدیک قرآنِ حکیم کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اُس کی آواز کا گھر میں گونجنا باعثِ خیر و برکت ہے۔ نذر و نیاز کا اہتمام اس وجہ سے کرتی ہے کہ سماج کا نچلا طبقہ اُسے مسلمان ہونے کاسر ٹیفکیٹ دیتا رہے۔ گھر کے کسی فرد سے اُسے کوئی دلچسپی ، کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کسی بھی عیّار سیاست داں کی طرح وہ دوغلی پالیسی اختیار کرتی ہے۔ شاید یہ ڈپلومیسی ہی اس کی شادمانی کی وجہ ہے جو عصرِ حاضر میں کامیابی کی ضامن بن گئی ہے۔
ناول کا سب سے پُر کشش کردار شبل کا ہے۔ حسین الحق نے اس کردار کو جس موثر انداز میں پیش کرتے ہوئے انجام تک پہنچایا ہے وہ ’’فرات‘‘ کا اصل مقصد اور بے سہارا قوم کو متحرک کرنے کا پہلا مرحلہ ہے۔ ناول نگار قاری کو شبل سے اِس طرح متعارف کراتا ہے:
’’شبل! وقار احمد کی بیٹی! مولانا حافظ افتخار دانشؔ کی پوتی، ویمنس کالج کی مایۂ ناز ، خوبصورت، اسمارٹ اور تیز و طرار طالبہ!‘‘ (ص۱۰۸)
شبلIdealismکی علامت ہے۔ نئی پیڑھی کی بے حد پڑھی لکھی لڑکی جو خود کفیل بھی ہے اور اپنے فیصلے لینے پر قادر بھی۔ اُس میں اتنی جرات بھی ہے کہ وہ اپنے غلط فیصلہ کا خود احتساب بھی کر لے اور اعتراف بھی۔ ناول نگار نے اِس کردار کے توسط سے نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے بلکہ حسّاس قاری کے ذہن اور ضمیر کو کچھ اس طرح جھنجھوڑا ہے کہ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک کے برپا فسادات کے روح فرسا واقعات نظروں کے سامنے پھر جاتے ہیں:
’’آگے آگے پولیس کی وین، پیچھے پیچھے ایک مشتقل مجمع! شبل نے دیکھا، مجمع پوری طرح لیس تھا، طرح طرح کی اسلحے، پھاوڑا،کُدال، رسّی، لاٹھی، تلوار، ترشول، بندوق، پٹرول، کراسن تیل کا ٹن اور بھرے بھرے تھیلے۔‘‘ (ص۲۷۲)
حسین الحق شبل کے توسط سے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے کھیلے جانے والے اس بھیانک کھیل کا منظر بیان کرتے ہوئے محافظوں اور رکھوالوں کے کرداروں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں:
’’پولیس آفیسر کی آواز سنائی دی! ’سالے‘ دروازہ کھول دو، نہیں تو دروازہ توڑ دیا جائے گا——ہمیں پکّی خبر ملی ہے کہ تم لوگوں نے گیر قانونی ہتھیار جمع کر رکھا ہے۔‘‘ (ص۲۷۳)
اِس طرح پولیس کی رہنمائی میں مجمع اقلیتی فرقے کے ایک ایک مکان پر ٹوٹتا رہا اور مکان اور مکین دونوں کو تہس نہس کرتا رہا کیونکہ اس مجمع کو ذہنی طور پر اس طرح زہر آلود کر دیا گیا تھا کہ ان کی پھُنکار سے جو بھیانک آواز نکلتی وہ کچھ اِس طرح کی ہوتی:
’’زندہ رہتا ہے تو
ہم کو تسلیم کرو
ہم آزاد ہوئے ہیں
دس سو سال سے زیادہ کی محکومی سہہ کر
ہم آزاد ہوئے ہیں!!‘‘(ص۲۷۶)
قاری تلملا اُٹھتا ہے کہ یہ کیسی آزادی ہے اور یہ کیسا جنون ہے جس کے سایے میں:
’’بوڑھے رو رہے تھے اور ہاتھ پھیلا پھیلا کر خدا سے دُعا مانگ رہے تھے، ادھیڑ عمر لوگ بوکھلاہٹ میں اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے، نوجوان پتہ نہیں کس چیز سے لڑ رہے تھے، گر رہے تھے—–(رابعہ اور شبل) روتی جاتی تھیں اور جلتی جاتی تھیں۔ دونوں عورتیں جلتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔‘‘ (ص۲۷۹)
حسین الحق نے آزادی کے بعد کے ہندوستان کے تمام اہم واقعات جو مذہبی،معاشرتی، سیاسی سطح پر انسان کی سوچ میں واقع ہو سکتے ہیں اُن کو بڑی خوبی سے اپنے ناول میں سمیٹ لیا ہے۔ کہیں کہیں تو معنی کی کئی سطحیں نظر آتی ہیں البتہ کہیں واقعات کو شعرا اور سیاسی لیڈروں کے اصل ناموں کے ساتھ من و عن بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ روداد اشاروں اور کنایوں میں کہی گئی ہوتی تو شاید اس کا دائرہ اور بڑا ہوتا اور اثر بھی زیادہ ہوتا کیونکہ فن کار اپنے تخیل اور اُفتاد طبع سے فن پارے میں ایک ایسی دُنیا خلق کرتا ہے جو حقیقت سے ماخوذ تو ہوتی ہے مگر حقیقت نہیں ہوتی۔
بہر حال آج کا انسان جو چومکھی جنگ لڑ رہا ہے اور پچھلی کئی دہائیوں میں معاشرے میں جس تیزی سے بدلاؤ آیا ہے اُس کو حسین الحق نے نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ قدروں کا زوال، رشتوں کا بکھراؤ، مذہب اور سیاست میں ہونے والی تبدیلیاں، سیاست کے بدلتے ہوئے رُجحانات، بے سمتی، زندگی کی لا یعنیت، ذات کی شناخت، آزادی کے نام پر عورت کی پستی وغیرہ مسائل جو اِس دور کے اہم موضوعات ہیں، یہ سب یکجا ہوکر ہمارے سامنے آگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’فرات‘ اپنے عہد کا آئینہ بن گیا ہے۔
مذکورہ بالا صفحات میں زیادہ تر گفتگو فرات کے موضوعات کے حوالے سے کی گئی مگر ایک اچھے ناول کو تو موضوع اور اُسلوب دونوں لحاظ سے قابلِ مطالعہ اور قابلِ توجہ ہونا چاہیے۔ میں نے اس پہلو سے جب غور کیا تو احساس ہوا کہ فرات کی تکنیک کے سلسلے میں چند باتوں کا تذکرہ بطورِ خاص ضروری ہے——-
پہلی بات! اگر واقعہ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو شاید عصرِ حاضر کا بڑا ناول قرار دیا جائے گا جس میں کوئی خاص واقعہ یا بنیادی خیال پیش کرنے کا ارادہ نہیں دکھائی دیتا۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے اور پہلی نظر میں شاید قابلِ اعتراض بھی محسوس ہو مگر آل احمد سرور کے مضمون ’’فکشن کیا، کیوں اور کیسے‘‘ کی مندر جہ ذیل سطریں جس کی نگاہ سے بھر گزری ہوں گی وہ سرورؔ صاحب کے خیالات کی روشنی میں ناول پر ایک نئے سرے سے غور کرنے پر مجبور ہوگا۔ پہلے سرورؔ صاحب کا خیال ملاحظہ ہو۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ناول کا موضوع انسانی رشتے ہیں اسی لیے اس میں حقیقت ایک مقررہ، پہلے سے طے شدہ عقائد کے مجموعے کی شکل میں نہیں بلکہ حقیقت کے اس تجربے کی شکل میں ہوتی ہے جس کا ایک ارتقائی عمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جرمن ، روسی، فرانسیسی، انگریزی، امریکن تہذیبوں کی روح کو ان ملکوں کے ناولوں کی مدد سے بہتر سمجھا ہے۔ انھیں سے یہ اندازہ ہوا کہ ان ملکوں میں سماج کس طرح بدلا ہے۔ برادری اور خاندان کے تصور میں کیا انقلاب ہوا ہے۔ انفرادیت پر کیوں زور بڑھا ہے۔ طبقے کس طرح بدل رہے ہیں اور شہروں کی کشش کیا رنگ لا رہی ہے۔ پھر ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرد کے ذہن میں یا باطن میں کیا انقلاب ہوا ہے، عقائد کس طرح شکست ہورہے ہیں، ایک سیکولر اخلاقیات کس طرح جنم لے رہی ہے۔ شخصیت کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے، اور پیشے یا سماج کا جبر اُسے کس طرح خانوں میں بانٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناول معصومیت کے علم سے تجربے کی منزل تک کے سفر کا بیان ہے۔ اس نادانی سے جو بڑے مزے کی چیز ہے، یہ آدمی کو زندگی کے واقعی روپ کے عرفان تک لاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناول کے ہیرو کے سفر کو نارتھ روپ فرائیؔ نےQuestیا تلاش کا نام دیا ہے جو ایک محدود فضا سے ایک وسیع فضا کے لیے ہے۔ یہ تلاش زمان و مکان دونوں میں ہوسکتی ہے۔ اس جستجو کی منزل آئے یا نہ آئے مگر ناول کا ہیرو آخر میں یہ رمز پالیتا ہے کہ ہیروازم کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے اور وہ خود بھی ایک بالکل معمولی آدمی ہے۔‘‘ (اردو فکشن، مرتبہ پروفیسر آل احمد سرورؔ، ص ۴-۷)
آل احمد سرور کے خیالات کی روشنی میں اگر ’’فرات‘‘ کے اسلوب اور تکنیک پر نگاہ کی جائے تو احساس ہوگات کہ (جیسا کہ میں عرض کر چکا) اِس ناول کا کوئی بندھا ٹکا پلاٹ نہیں ہے۔ یہ ناول تو زندگی کا ایسا رزمیہ ہے جس میں زندگی ، عام آدمی کی زندگی بے سوچے سمجھے بغیر کسی منصوبے کے بسر ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ ناول بھی بالکل اُسی طرح خود بخود بیان ہوتا اور بیان کرتا چلا جا رہا ہے۔ آل احمد سرورؔ کہتے ہیں’’ اب پلاٹ پر اتنا زور نہیں جتنا تھا۔ ‘‘ اس ناول میں بھی پلاٹ پر نہیں زندگی پر ارتکاز ہے اور زندگی کی سڑک پر ’’کچھ بلب روشن ہیں، بلبوں کے نیچے اور کچھ دور تک روشنی ہے اور بیچ میں اندھیرا۔‘‘
اِسی طرح پورے ناول میں حقیقت کسی مقرّرہ صورت میں سامنے نہیں آتی۔ بے باک اور نڈر تجربے کی طرح تجربہ کنندہ پر آہستہ آہستہ حقیقت کھلتی ہے۔ وقار احمد ’’صاحب بہادری‘‘ سے تصوّف کی طرف لوٹتا ہے۔ اُسے سیکولر اخلاقیات کی تلاش کا عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تبریزؔ بڑے شہر کے سمندر میں گُم ہو گیا۔ قطرہ سمندر میں مل کر کب کسی کو نظر آیا۔ فرد کے ذہن میں اُس کے باطن میں ہونے والی تبدیلیاں، عقائد کی شکستگی، پیشے اور سماج کا جبر، بدلتا ہوا تہذیبی منظر نامہ، آزادی کے پہلے کی معصوم مذہبیت سے وقار احمد کی بیوی اور عنیزہ کی اُس مکار مذہبیت تک جو اُسے گھر میں اپنے بجائے دوسروں سے قرآن پڑھوا کر برکت بٹورنے کا گُر سکھاتی ہے۔ ایک تہذیب کے اُجڑنے اور دوسری تہذیب کے برگ و بار لانے کا جو خوبصورت منظر ص ۱۴۵ سے ص ۱۵۷ تک اور ص ۲۲۶ سے ۲۵۱ تک پیش نظر ہے، ایسا زندہ منظر نامہ تو میں نے حسین الحق کے کسی معاصر ناول نگار کے یہاں نہیں پایا۔ سرورؔ صاحب کہتے ہیں:’’ناول معصومیت کے علم سے تجربے کی منزل تک کے سفر کا بیان ہے۔‘‘ اِس قول پر بھی یہ ناول پورا اُترتا نظر آتا ہے۔ ناول فرات ص ۹ سے شروع ہوتا ہے۔ ص ۹ کی ہی ایک صورتِ حال ملاحظہ کیجئے:
’’بی اے۔ میں آنرس لینے سے پہلے سارے زمانے سے مشورہ کیا جاتا تھا اور متفقہ رائے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جاتا تھا۔‘‘
پھر ص ۱۰ پر ایک منظر دیکھیے:
’’وقار احمد چپکے سے باورچی خانے میں گُھس جاتے۔ اماں گرم گرم روٹیاں پکا کر دیتی جاتیں اور وہ اکڑوں بیٹھے پیالے میں رکھے شوربے میں روٹیاں بھگو بھگو کر کھاتے جاتے۔‘‘
پھر ص ۱۲ کا ایک منظر ملاحظہ کیجئے:
’’بغل کے ہال میں بچے پڑھ رہے تھے۔
’’A for Apple, B for Bag, C for Cat, D for Dog‘‘
اور تب وقار احمد آہستہ سے بڑ بڑائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’الف زبر آ، ب زبر با، ت زبر تا، ث زبر ثا، ج زبر جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ پڑاخ سے ایک جھانپڑ پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقار احمد کو سکندر مولی صاحب یاد آگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اور یہ معصومیت تجربے کی منزل تک پہنچ کر کربِ آگہی کے کسی منطقے پر مسافر کو ایستادہ کرتی ہے اِس کے لیے ناول کے آخری صفحے کی آخری سطریں ملاحظہ ہوں:
’’میں تو ایک نہایت حقیر فقیر معمولی آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ معمولی آدمی کائنات کے اتنے بڑے رزمیہ میں اپنے رول کا خود تعیّن کیسے کر سکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیتنا یا ہارجانا دونوں میں سے کسی پر بھی تمھارا اختیار نہیں ہے۔ تم زندہ رہنے اور جھیلنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور تمہاری بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی انباؔ تمہاری دشمن نہیں ہے!‘‘
کسی انباؔ کا دشمن نہ ہونا دراصل باعثِ تحرک (Motivating element)کا موجود نہ ہونا ہے۔ اور یہ آج کے عہد کا ایک بڑا المیہ ہے۔ سرورؔ صاحب کہتے ہیں:
’’ناول کا ہیرو آخر میں یہ رمز پالیتا ہے کہ ہیرو ازم کے لیے کوئی مستقبل نہیں اور وہ خود بھی ایک بالکل معمولی آدمی ہے۔‘‘ (ص۷)
’’فرات ‘‘ کا فیصل وقار احمد اعتراف کے مراحل میں کہتا ہے میں تو ایک نہایت حقیر فقیر معمولی آدمی ہوں۔ ہیروازم کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں۔ فیصل خود سے ہم کلام ہے ’’جیتنا یا ہارجانا دونوں میں سے کسی پر بھی تمھارا اختیار نہیں ہے۔‘‘ جستجو ، تلاش اور حقیقت نے بالآخر اُسے عرفان کی اُس منزل تک پہنچا دیا جہاں بد قسمتی سے کوئی انباؔ اُس کی دشمن نہیں ہے۔ متحرک رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کوئیMotivating elementنہیں ہے نتیجتاً شخصیت ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے اور سارے کا سارا منظر نامہ جبر کے حصار میں ہے۔ ایک کامیاب ناول کے لیے تکنیک کے نقطۂ نظر سے جن عناصر کو ناول کے بیان میں معاون ہونا چاہیے وہ سارے عناصر یہاں بحیثیت تکنیک رو بہ کار ہوتے نظر آرہے ہیں۔
تکنیک کے حوالے سے اِس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہے کہ جب میں ص ۱۵۸ سے ۱۶۳ تک پہنچا تو احساس ہوا کہ یہ پورا بیان محاورے ، تراکیب اور ضرب الامثال پر مبنی ہے۔ پانچ صفحات میں لگاتار بیان کے لیے جو تکنیک استعمال کی گئی ہے اور بیانیہ کا جو کلاسیکی انداز ہے وہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اس ناول میں ناول نگار شعوری طور پر بہت چوکنّا رہا ہے۔ یہاں ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ کا منظر نہیں ہے بلکہ ایک سوچا سمجھا ، ٹھہر ٹھہر کر بیان کیا ہوا بیانیہ ہے اور اس الحاظ سے یہ دلچسپ امر ہے کہ حسین الحق نے ’’فرات‘‘ کا موضوع تو زندگی کو بنایا اور زندگی ، عام آدمی کی زندگی ، بغیر کسی ارادے کے خود بخود بسر ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی تدبیر و تقدیر سب کچھ غیب کے ان دیکھے پیالے سے آپ ہی آپ قطرہ قطرہ گرتی رہتی ہے اور ہر پل اِس عام اور معمولی آدمی کو یہ احساس ہوتا رہتا ہے کہ ’’اچھا یہ ہے میرا حاصل۔‘‘ مگر اس بے ارادہ حصولیابی کی تخلیقی روداد قلم کرتے ہوئے حسین الحق بہت چوکنّا اور فنّی لحاظ سے چاق و چوبند رہے۔
قدرتِ بیان کا بہترین نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’فرات‘‘ کا ایک اور اہم پہلو ہے، میرا بائی کے دو ہوں کا استعمال۔ بظاہر یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ ناول کے واقعاتی پیرائے میں مسلسل اور متعدد دوہوں کے استعمال کی کیا ضرورت آن پڑی ۔ سر سری طور پر تو کہا جا سکتا ہے کہ یہاں نثر شاعری سے اکتساب کرتی نظر آرہی ہے مگر معاملہ کچھ اتنا سیدھا سادہ نہیں ہے۔ یہ بھی ایک شعوری عمل ہے جسے ناول نگار نے تکنیک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ منظر ص ۲۶۲ سے ص ۲۶۵ تک دستیاب ہے۔ اِس منظر کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ناول کا مرکزی کردار وقار احمد جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت دونوں سے الگ ہو چکا ہے اور اب اس کشمکش کا شکار ہے کہ وہ کدھر جائے۔ انسانی زندگی میں یہ لمحہ عام زبان میں لمحۂ جمود کہا جاتا ہے مگر یہ جمود تو دراصل تعطل ہے، ایک وقفہPauseجس میں تخلیقی اذہان ایسی اُوب اور بورڈم (Boredom)سے گزرتے ہیں جو انھیں کسی نئے منظر نامے کا ناظر بننے ، اُس سے جُڑ جانے اور پھر خود ایک نیا نظارہ خلق کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے لیے مختلف تخلیق کار مختلف Toolsاستعمال کرتے ہیں۔چونکہ حسین الحق کے ہم عصروں کے یہاں ناسٹیلجیا (Nostalgia) ایک بڑی طاقت رہا ہے اور سبھی نے اس کے سہارے وقت کی طنابوں کو کھینچتے ہوئے آگ کے دریا کو پار کیا ہے۔ حسین الحق نے بھی اس تکنیک کو بخوبی برتا ہے۔ وہ اِس معطّل لمحے میں اُلٹا چلتے ہیں اور محبوب الٰہی کی خانقاہ، بابا فرید کی محفل، شاہ ولی اللہ دہلوی، مرزا مظہر جانِ جاناں، مولانا فخر الدین دہلوی سب کی مجلسوں سے گزرتے ہوئے خود احتسابی کے کوچے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہ سارا مرحلہ رویّوں اور Attitudeکو کتھا بنانے کا ہے۔ ظاہر ہے اِس کتھا یا ترا میں ’’ہجر‘‘ بنیادیMotivating Pointہے۔ یہ ہجر جسے پورے ناول میں وقار احمد لگاتار جھیلتے ہیں، اُن کے بھائی، اُن کے ہم زاد کا ہے۔ ناول کی ابتدا سے ناول کی انتہا تک وقار احمد اِس بھائی کا ہجر جھیلتے رہ گئے، بھائی کا انتظار کرتے رہ گئے مگر بھائی نہ آیا۔ یہ ایک علامتی ہجر ہے۔ آدمی ساری زندگی کسی نہ کسی ہجر میں مبتلا رہتا ہے اور وصل کی گھڑی نہیں آتی۔ وقار احمد ’’ہجر کے اس ظالم پل میں یادوں کی سیج پر پی کی راہ تکتی دُلہن کا روپ دھارن کر چکے تھے۔‘‘ (ص۲۶۲) اور اسی مقام پر میرا بائی نے وقار احمد کا ہاتھ تھاما اور آہستہ سے سمجھایا: ’’میں ورہنی بیٹھی جاگوں، جگت سب سووے ری آلی‘‘ اور پھر میرا بائی ناول کے مرکزی کردار کو ہجر کے مہاساگر میں اِس طرح ڈبکیاں دینے لگیں کہ سارا سمندر اُن پر سارے کا سارا کھل گیا۔ ایک منجمد صورتِ حال (Static Situation)کو متحرک بنانے کے لیے اور کردار جو جمود سے کسی ممکنہ عمل یا بے خیالی سے کسی خیال اور نقطۂ نظر تک پہنچادینے کے لیے میرا بائی کا دوہوں کا یہ استعمال اپنے آپ میں کامیاب بھی ہے اور منفرد بھی۔
ناول کے اس تفصیلی جائزہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ’’فرات‘‘ اپنے موضوع کی ہمہ گیریت اور اُسلوب کی نُدرت کی بنا پر زندہ رہنے والا ناول ہے حالانکہ جس زمانے میں فرات شائع ہوا (۱۹۹۲ء)اُسی زمانے میں کچھ اور ناول بھی شائع ہوئے۔ اشاعت کے ابتدائی دو تین برسوں میں ’’فرات‘‘ کی بہ نسبت دوسرے ناولوں پر زیادہ گفتگو ہوئی مگر گزشتہ برسوں میں ناقدین اور قارئین نے آہستہ آہستہ جس طرح ’’فرات‘‘ کی طرف توجہ کی ہے اور جس طرح یہ مسلسل حوالے میں آرہا ہے اُس سے یہ بات واضح ہے کہ کچھ اور ناول جادو کی طرح سر چڑھ کر بولے ہوں تو بولے ہوں مگر حسین الحق کے ناول ’’فرات‘‘ میں ایک ایسی سچائی ہے جو آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتی ہے اور اُس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے جب جادو کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔
OO