فن لینڑ ایک شمالی یوروپی ملک ہے۔ ہیل سنکی اسکا دار الخلافہ ہے اور 2021 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی پچپن لاکھ چالیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ معاشی نکتہ نظر سے فن لینڑ ایک خوشحال ملک ہے۔
اس ملک کا تعلیمی نظام دنیا کے دیگر ممالک یہاں تک کہ امریکی نظام تعلیم سے بھی مختلف اور انوکھا ہے۔
فن لینڑ کا موجودہ تعلیمی نظام ملک میں 1970 سے رائج ہے۔ اسکے خدو خال میں نونہالوں کیلئے سرکاری سطح پر day care کا انتظام ہے جو سات سال کی عمر تک رہتا ہے۔ اس کے بعد سولہ سال کی عمر تک ہائ سکول کی لازمی تعلیم ہے جس دوران کسی بھی امتحان کا اہتمام نہیں ہوتا۔ سکولی تعلیم کے اختتام پر دسویں جماعت کے بورڑ امتحانات پورے ملک میں ایک ساتھ منعقد کرائے جاتے ہیں جن کے نتائج کی بنیاد پر کالجوں میں داخلے کئے جاتے ہیں۔
کالجوں کے اندر دو قسم کی گریجویشن فراہم کی جاتی ہے جس کا دورانیہ تین سال کا ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی گریجویشن بالکل ہماری طرز کی ہوتی ہے جس میں طلباء اپنی پسند کے چار مضامین کے علاوہ ایک اضافی مضمون کا انتخاب کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے گریجویشن کے پروگرام میں طلباء کو تین سال میں ان پیشہ ورانہ fields کی تعلیم دی جاتی ہے جن کا وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بطور روزگار انتخاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تین سال کی گریجویشن کے بعد وہ اپنے متعلقہ میدان میں مزید ترقی کیلئے پوسٹ گریجویشن کے پروگرام کو اپناتے ہیں۔
اس طرح طلباء ہائ سکول کی تعلیم کے دوران ہی روزگار سے متعلق اپنے ارادوں اور احداف کا تعین کرتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں بارہویں جماعت تک طلباء کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آگے انکی منزل کیا ہوگی۔ اپنے احداف حاصل کرنے کیلئے طلباء ملک کی 17 عام یونیورسٹیوں اور 27 ایپلائڑ سائنس کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام UNDP نے طلباء کی عمر کی نسبت سے جو تعلیمی انڑکس طے کیا ہے اسکے تحت 2019 میں فن لینڑ چوتھی پائدان پر کھڑا نظر آیا تھا۔
فن لینڑ میں اساتزہ کی بھرتی کیلئے ایک ہی قابلیت کی ضرورت ہے وہ ہے پوسٹ گریجویشن کی ڑگری۔ اسکے علاوہ بی ایڑ یا ایم ایڑ جیسی کسی بھی ڑگری کی کوئ ضرورت نہں ہوتی ہے۔ ماسٹرس میں پاس ہونے والے طلباء میں سے سب سے زیادہ نمبر بات حاصل کرنے والے پہلے دس فیصد طلباء کو ٹیچرس کی بھرتی کیلئے دعوت دی جاتی ہے اور ان میں سے مطلوبہ تعداد کے مطابق اساتزہ کا انتخاب کیا جاتا ہے اور بغیر کسی باظابطہ ٹریننگ کے اسکولوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں متعلقہ ٹرینر اور پرنسپل ان کی کلاس روم ٹریننگ کرتے رہتے ہیں۔
اول جماعت سے لیکر نویں جماعت تک کوئ باظابطہ امتحان تو نہیں ہوتے البتہ متعلقہ کلاسوں کے اساتزہ مختلف طریقوں سے بچوں کو غیر محسوس طریقوں سے انکی قابلیت اور زہانت کے تعلق سے پرکھا جاتا ہے جس کے نتائج کا باضابطہ ریکارڑ مرتب کرکے سال کے آخر میں ان اگلے کلاسوں کے اساتزہ کے حوالے کیا جاتا ہے جہاں بچوں کو اس ریکاڑ کی روشنی میں آگے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
کلاس میں بچوں کی قابلیت کے لحاظ سے درجہ بندی نہیں کی جاتی بلکہ کم اور درمیانہ درجے کی قابلیت کا مظاہرہ کرنے والے۔ بچوں کو اونچے درجے کی قابلیت رکھنے والے بچوں کی معیت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے جو انکی قابلیت کو اوپری سطح تک لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سب کھیل کھیل کے انداز میں کلاس کے متعلقہ اساتزہ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
فن لینڑ میں انتظامیہ کی سطح پر اسکولوں کے معائنوں کا کوئ طریقہ رائج نہیں ہے۔ سکول کی انتظامیہ میں یوں کوئ محکمہ جاتی مداخلت نہیں ہوتی۔ سکول کے انتظام کی پوری زمہ داری متعلقہ پرنسپل اور اساتزہ پر عائد ہوتی ہے۔
سکول کی طرف سے بچوں کو کوئ ہوم ورک نہیں دیا جاتا بلکہ موثر طریقے سے کلاس کے اندر ہی مضامین کے اسباق ازبر کرائے جاتے ہیں۔
ہر چالیس منٹ کے کلاس پیرئیڑ کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے جسے کھیل کود اور قدرتی مناظر کے مشاہدے میں صرف کیا جاتا ہے۔
کلاس میں طلباء اور استاد کا تناسب 1:20 سے زیادہ نہیں رہتا۔
فن لینڑ کے نظام تعلیم سے متاثر ہوکر دہلی سرکار کے محکمہ تعلیم نے کچھ چنندہ اساتزہ کو تعلیمی سرگرمیوں کا مطالعہ کرکے اس کا فیض حاصل کرنے کیلئے فن لینڑ روانہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...