ایک ملاح کی کشتی میں سوراخ ہو گیا۔ انہوں نے اپنا وقت جمیکا میں گزارا جہاں پر کشتی مرمت ہوئی۔ یہاں سے جاتے جاتے انہوں نے کیلے خریدے اور نیوانگلینڈ میں فروخت کئے۔ ان سے اچھا منافع کما لیا۔ یہ ملاح لورینزو ڈو بیکر تھے۔ جنہوں نے یونائیٹڈ فروٹ کمپنی شروع کی۔ بوسٹن اور نیویارک جیسے شہروں میں کیلے کو نفیس پھل سمجھا جاتا تھا۔ اس کو چھری اور کانٹے سے کھایا جاتا تھا۔ لیکن یہ آسان کاروبار نہیں تھا۔ کیلوں کی زندگی لمبی نہیں ہوتی۔ یہ جلد خراب ہو جاتے تھے۔ اس کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟
یہ مسئلہ صرف کیلوں کے ساتھ ہی نہیں تھا۔ بیکر کے سفر سے دو سال پہلے ارجنٹینا کی حکومت نے گائے کے گوشت کو طویل سفر میں محفوظ رکھنے کے طریقے کی ایجاد پر انعام رکھا تھا۔ بحری جہاز کو برف سے بھر لینا زیادہ کارآمد نہیں رہا تھا۔ ایک صدی سے سائنسدانوں کو یہ علم تو تھا کہ گیس کو کمپریس کر کے مائع میں بدل کر مصنوعی سردی کیسے کی جا سکتی ہے لیکن اس کے کمرشل استعمال کا اطلاق کیسے کیا جائے؟ یہ معلوم نہیں تھا۔
فرنچ انجینیر چارلس ٹیلیے نے ایک بحری جہاز میں 1876 میں ایسا ریفریجریشن سسٹم نصب کیا۔ اس کو گوشت سے بھرا اور فرانس سے ارجنٹینا بھیجا۔ 105 روز کے سفر کے بعد جب جہاز لنگرانداز ہوا تو گوشت قابلِ استعمال تھا۔ ارجنٹینا کی اخبار نے شہ سرخی لگائی “سائنسی انقلاب زندہ باد”۔ 1902 میں ریفر کہلانے والے 460 ایسے جہاز عالمی سمندروں میں پھر رہے تھے جس میں ارجنٹینا کا ملین ٹن گوشت برآمد ہوتا تھا۔ کیلے اور بہت کچھ اور۔ اب دنیا کا سب سے امیرترین ملک ارجنٹینا تھا۔
دوسری طرف، کیلوں نے لاطینی امریکہ کی سیاست تبدیل کی۔ کیلا خود دنیا کا سب سے سستا پھل بن گیا جو تمام دنیا میں پہنچ سکتا تھا۔ یونائٹڈ فروٹ کمپنی (جو ایل پولپو کہلائی) نے کیلے اگانے والے ممالک کی حکومتوں پر اثرانداز ہونے کے فن میں مہارت حاصل کی۔ گوئٹے مالا کے جنرل اوبیکو سے تعلقات بنا کر گوئٹے مالا کی تقریباً تمام قابلِ کاشت زمین حاصل کر لی۔ اس میں وہ مستقبل کے لئے رکھی جانے والی بہت بڑی زمین بھی تھی۔ اس کی قیمت تقریباً صفر ڈیکلئیر کی کیونکہ اس پر کاشت نہیں کی جاتی تھی۔ اس وجہ سے اس پر اسے ٹیکس نہیں دینا پڑا۔ اوبیکو اس پر مان گئے۔
اوبیکو کا تختہ ایک نوجوان فوجی جاکوبو اربینز نے الٹایا۔ اربینز نے یونائٹڈ فروٹ کمپنی کی کھیل پکڑ لی۔ اس بڑے رقبے کا اتنا کم ریٹ دیکھ کر حکم جاری کیا کہ حکومت اسی ریٹ پر اس اراضی کو خرید کر کاشتکاروں میں تقسیم کر دے گی۔ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی۔ لابی کرنے والوں کی خدمات حاصل کر کے امریکی حکومت کے سامنے اربینز کو خطرناک کمیونسٹ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اور سی آئی اے نے اربینز کا تختہ الٹا دیا۔ پہلے سے ہی سیاسی لحاظ غیرمستحکم ملک گوئٹے مالا میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جو چھتیس سال تک جاری رہی۔
غریب ممالک جہاں عجیب حکومتیں موجود ہوتی ہیں، آج انہیں “بنانا ری پبلک” کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کی کیلے اگانے والے ممالک میں کی گئی سیاسی مداخلت ہے۔ یہ سب اس وقت ممکن نہ ہوتا اگر کیلے بڑی تعداد میں برآمد نہ ہو سکتے اور یہ اس وقت تک ممکن نہ ہوتا اگر ریفر ایجاد نہ ہوئے ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنسناٹی میں نوجوان یتیم سیاہ فام فریڈرک مک کنلی جونز گاڑیاں مرمت کرنے کا کام کرتے تھے۔ ان کا شوق نت نئے تجربات کا تھا۔ ان کے باس کے ایک دوست میلکم مک لین کا ٹرک کا بزنس تھا۔ وہ 1938 میں شکایت کر رہے تھے کہ ٹرانسپورٹ کے دوران اشیا خراب ہو جاتی ہیں۔ بحری جہازوں پر استعمال کئے جانے والے ریفر سڑکوں پر کارآمد نہیں تھے۔ یہ سڑک پر لگنے والے جھٹکوں اور وائبریشن کو برادشت نہیں کر پاتے تھے۔ ٹرکوں کے سامان کو برف سے ٹھنڈا رکھا جاتا تھا اور امید کی جاتی تھی کہ سفر کے دوران برف نہیں پگھلے گی۔ یہ امید ہمیشہ پوری نہیں ہوتی تھی۔ باس نے سوال کیا کہ کیا جونز اس مسئلے کا حل نکال سکتے تھے؟
ہاں، جونز نے اس کا حل نکال لیا۔ ان کے وائبریشن پروف ریفریجریشن یونٹ نے نئی کمپنی کا آغاز کیا۔ یہ تھرمو کنگ تھی۔ یہ کولڈ چین کا آخری لنک تھا۔ اس کے بعد عالمی سپلائی سسٹم کنٹرولڈ درجہ حرارت پر کام کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کولڈ چین صحت کے سسٹم کے لئے انقلابی دریافت ثابت ہوئی۔ جنگِ عظیم میں یہ یونٹ ادویات اور زخمیوں کے لئے خون کو محفوظ طریقے سے پہنچا سکتے تھے۔ اس نے ادویات اور ویکسین کو خراب ہوئے بغیر دنیا بھر میں دور دراز کے علاقوں تک پہنچانا ممکن بنایا۔
اور سب سے بڑھ کر یہ خوراک کی سپلائی میں سب سے بڑی تبدیلیاں لے کر آئی۔ گرم موسم میں مچھلی یا گوشت چند گھنٹے تک رہ پاتا تھا۔ پھل چند روز میں گل سڑ جاتے تھے۔ گاجر زیادہ سے زیادہ تین ہفتے تک۔ کولڈ چین میں مچھلی ہفتہ بھر رہ لیتی ہے۔ پھل مہینوں تک۔ جڑ والی سبزیاں ایک سال تک۔ اور ان کو فریز کر دیا جائے تو اس سے بھی زیادہ۔
ریفریجریشن نے ہماری خوراک میں تنوع پیدا کر دیا۔ کیلوں جیسے پھل اب ہر جگہ دستیاب ہیں۔ اس نے سپرمارکیٹ میں پھل اور سبزی بیچنا ممکن کیا۔ گھریلو ریفریجریٹر کی وجہ سے روز کی خریداری کی ضرورت ختم ہوئی۔ آپ ہفتے میں ایک بار خریدار کر سکتے ہیں۔ جب لوگ غربت سے نکلتے ہیں تو خریدی جانے والی اشیا میں ریفریجریٹر اولین شے ہوتی ہے۔ چین میں دس سال میں ریفریجریٹر رکھنے والے گھروں کا تناسب پچیس فیصد سے بڑھ کر نوے فیصد تک پہنچا ہے۔
یہ ایجاد عالمی تجارتی نظام کا اہم ستون ہے۔ گوشت، پھل، سبزی کی بین البرِاعظمی تجارت سستی اور بڑے پیمانے پر ہوئی۔ نیوزی لینڈ میں بھیڑ پال کر انگلینڈ بھیجنا اب انگلینڈ میں مقامی بھیڑ کے استعمال سے زیادہ ماحول دوست طریقہ ہے!
ہم جانتے ہیں کہ تجارت ممالک کو امیر کرنے کا بہترین طریقہ ہے لیکن اس نے ہر ملک کو یکساں طور پر امیر نہیں کیا۔ گوئٹے مالا اگرچہ سینکڑوں ملین ڈالر کے کیلوں کے علاوہ مکئی، کافی، گنا، الائچی، بھیڑ کا بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن یہاں پر بچوں کی خوراک میں کمی کی وجہ سے بڑھنے کے مسائل میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ ماہرینِ معیشت ابھی تک اس کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتے کہ کچھ ممالک غربت سے باہر کیوں نکل آتے ہیں جبکہ کچھ اس گرداب میں پھنسے رہتے ہیں۔ زیادہ تر کا اتفاق ہے کہ غربت سے نکلنے کے لئے مضبوط ادارے، سیاسی استحکام، کرپشن مین کمی، قانون کی حکمرانی جیسے چیزیں ضروری ہیں۔ گوئٹے مالا غریب ہے کیونکہ وہ ان میں پیچھے ہے۔ جنرل اوبیکو، بنانا ری پبلک اور خانہ جنگی کی یادگار سے سنبھلنا بہت مشکل ہے۔
کولڈ چین کی ٹیکنالوجی کا ڈیزائن کیلوں کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لئے تھا۔ لیکن کیلوں کی ریاستیں شاید (banana republic) قدرتی طور پر ہی زیادہ طویل زندگی رکھتی ہیں۔