::: فری میسن { لاج} کا پس منظر ۔ اس کا سازشی کردار۔ اور کراچی کا فری میسن :::
فری میسن دو فرانسیسی الفاظ ’’فرانک‘‘ یعنی آزاد اور ’’میسن‘‘ یعنی مزدور سے تشکیل پایا ہے۔ بعض تحقیقات کے مطابق قرون وسطیٰ میں ’’فرانک‘‘ ان مزدورں کو کہا جاتا تھا جو کسی جبری مزدوری سے معاف تھے، قصہ کچھ یوں ہے کہ کلیسا کی معماری کرنے والے مزدوروں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ بغیر اجرت کے جبری مزدوری سے بچے ہوئے تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے وہ مزدور جن سے کسی اجرت کے بغیر جبری کام لیا جاتا تھا انہوں نے ملک کے اہم ذمہ داروں سے بات چیت ا ور اصرار کرکے اپنے آپ کو بھی جبری مزدوری سے مستثنیٰ قرار دلوایا اور پھر ان فری میسنز یعنی آزاد مزدوروں نے اپنے درمیان موجود فعال مزدوروں کو فن معماری سکھانے کیلئے کلاسز کا آغاز کر دیا اور اپنے حلقے میں شامل مزدوروں کو اس بات کا پابند کر دیا کہ وہ اس حلقہ سے باہر کسی اور کو اس حلقہ میں داخل ہونے اور اس فن معماری کو سیکھنے کی اجازت نہیں دیں گے تاکہ اس فن کے اسرار و رموز خود ان کے حلقہ کے درمیان ہی باقی رہ سکیں۔۔دستیاب معلومات کے مطابق فری میسن کی ابتدا 24 جون 1717ءکو برطانیہ میں ہوئی۔ فری میسنری کے آئین کی تشکیل اور منظوری 1723ءکو کی گئی، جس کا خالق مشہور فری میسنری شخصیت ”ڈاکٹر جیمز اینڈر سن“ تھا۔فری میسنز کی تاریخ نگاری میں ایک اور اہم نام1742 میں پیدا ہونے والا’’ولیم پرسٹن‘‘ ہے جس نے ڈاکٹر اینڈرسن کی طرح فری میسنز کی تاریخ نگاری کےساتھ ساتھ اس کے مناسک و مخصوص عبادات بھی کتابی صورت میں تحریر کی ہیں،
اس فری میسن { لاج} کی تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان میں اس پر پابندی لگا دی گی تھی ۔ جبکہ دنیا بھر میں یہ تنظیم تیز رفتاری کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم ہے- اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں، وسائل اور نشر و اشاعت کے اداروں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ خفیہ تنظیم دنیا بھر کی حکومتوں کے ذریعے اپنا راج چلائے، فری میسنری کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں، وسائل اور نشر و اشاعت کے اداروں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ ۔امریکا میں فری میسنری کے ممبروں کی تعداد 80 لاکھ سے زیادہ ہے اور اسی طرح برطانیہ سمیت دیگر مغربی و غیر مغربی ممالک میں بھی اس کے ارکان کی تعداد لاکھوں میں ہےاس تنظیم میں 20 برس سے بڑی عمر کے لوگ ممبر بنائے جاتے ہیں، اس کے رکن عورت نہیں بن سکتی۔ بس یہ تنظیم ملحد لوگوں کو اپنا رکن نہیں بناتے۔ خدا پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اس کے اجلاس خفیہ ہوتے ہیں۔ اس کے ہر مذھب کے لوگ رکن بن سکتے ہیں۔ امریکا میں فری میسنری کے ممبروں کی تعداد80 لاکھ سے زیادہ ہے-تنظیم کے 20 لاکھ برطانوی ارکان کا ریکارڈ آن لائن کردیا گیا۔ 16 بشپس اور ایک بھارتی شہزادہ بھی فری میسنری کے ارکان میں شامل ہے۔ امریکہ کے صدرو جمی کاٹر ، کلنٹن، اوبامہ اور ٹرپم کے علاوہ سب ہی صدرو راس کے رکن رہے چکے ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کے بڑے شہروں ڈھاکا، چٹاکانگ، وغیرہ میں فری میسنری لاجیں قائم تھیں، جن کا تعلق گرینڈ لاج انگلینڈ سے تھا۔ اسی طرح مغربی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بھی فری میسنری لاجز کام کر رہی تھیں۔ لاہور، سیالکوٹ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، کوئٹہ، حیدرآباد اور کراچی کی لاجیں زیادہ اہم شمار کی جاتی تھیں، لوگوں میں یہ جادو گھر کے نام سے مشہور تھیں۔ ایوب حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے دوران فری میسنوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرنے کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ مارچ 1969میں ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد مارشل لاء لگ گیا، اس دوران عالمی فری میسنری کی ہدایات پر ڈسٹرکٹ گرینڈ لارج لاہور کے ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے نام 27 اپریل 1969ء کو ایک خط لکھا گیا، جس میں فری میسنری کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا گیا تھا۔ 1971ءمیں ذوالفقار کے دور میں فری میسنری پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
1948سے 1968کے دو عشروں میں فری میسنری بھرپور طور پر پاکستان میں کام کرتی رہی ہے۔1971میں ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں فری میسنری پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا. 22 جولائی 1972کو پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد پاس کر کے مرکزی حکومت کو پیش کی گئی کہ فری میسنری پر پابندی لگائی جائے اور اس کی املاک ضبط کی جائیں۔ اس مسئلہ کو 21 سمتبر 1972 کو اکوڑہ خٹک کے مشہور عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحق{ مولانا سمیع اللہ کے والد} نے قومی اسمبلی میں اٹھایا اور یہ بتایا کہ فری میسنری یہودیوں کی عالمی تنظیم ہے، جس کا مقصد درپردہ صیہونی عزائم کی تکمیل ہے۔ یہ تنظیم عالم اسلام میں ملت مُسلمہ کے خلاف مختلف سازشوں اور سرگرمیوں کی آماجگاہ بنی رہی ہے، خلافت اسلامیہ کے زوال اور اسلامی ممالک کے افتراق و بربادی میں اس کا بنیادی حصہ ہے۔ اس کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ خان عبد القیوم خان نے فری میسن کی تنظیم پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
اس کا دفتر کراچی میں بھی تھا، فری میسنری سوسائٹی پاکستان میں بھی 25 سال تک سرگرم رہی۔ 1973میں فری میسنری کے اس مرکز کوسیل کردیا گیا تھا۔ اسٹریچن روڈ پر واقع ہوپ لاج میں فری میسنری کا مرکز تھا اب یہ عمارت وائلڈ لائف میوزیم میں تبدیل کردی گئی ہے..پاکستان میں فری میسنری پر بہت پہلے پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں ڈھاکا، چٹاکانگ، مرشد آباد وغیرہ میں فری میسنری لاجیں قائم تھیں، جن کا تعلق گرینڈ لاج انگلینڈ سے تھا..لاہور، سیالکوٹ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، کوئٹہ، حیدرآباد اور کراچی کی لاجیں زیادہ اہم شمار کی جاتی تھیں، لوگوں میں یہ جادو گھر کے نام سے مشہور تھیں
کراچی میں پی آئی اے کے دفتر کے سامنے وائی ایم سی اے گراؤنڈ کی لائن میں واقع اس عمارت میں پہنچے جس پر محکمہ جنگلی حیات کا بورڈ آویزاں ہے۔ اندر پہنچ کر ہماری نظر ایک تختی پر پڑی جس پر دجال کا نشان بنا ہوا تھا، یہ عمارت 1914ء میں فری میسنز ٹرسٹ نے بنائی تھی اور انہوں نے اس کو جادوگھر کا نام دیا تھا۔ اس عمارت کو فری میسنز کس لاج کی عمارت کہتے تھے۔
برس اپنے اجتماعات کے لیے استعمال کیا، اسوقت مقامی لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہاں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں، بلآخر 1972ء میں پاکستان میں فری میسنز پر پابندی عائد کر دی گئی ۔یہاں اب بھی کئی جگہ تختیوں دیواروں اور لکڑی پر فری میسنز کا مخصوص نشان کندہ ہے اور اس عمارت کے بارے میں لکھا ہے۔ کراچی میں فری میسن کے اراکیں میں کئی سرکاری افسر، فوجی، اساتذہ صحافی، دانشور، بزنس مین، اور وکلا شامل تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔