’’فری لنچ‘‘ کا محاورہ امریکہ سے شروع ہوا اور ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مارکیٹنگ ایک باقاعدہ مضمون تو ماضی قریب میں بنا ہے‘ جس میں ایم بی اے سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہو رہی ہے۔ مگر انسان نے جب سے کاروبار کا آغاز کیا‘ مارکیٹنگ (یعنی اشیا یا خدمات فروخت کرنے کا فن) ہمیشہ سے سرگرمِ کار رہا ہے۔ 1870ء میں امریکہ کے ریستورانوں نے ’’فری لنچ‘‘ کا نسخہ ایجاد کیا۔ ان ریستورانوں میں خوراک کے ساتھ انواع و اقسام کی شرابیں بھی میسر ہوتی تھیں۔ پیش کش یہ ہوتی تھی کہ اگر آپ مشروب خریدیں تو لنچ فری ملے گا۔ یہ لنچ سادہ اور برائے نام بھی ہوتا تھا اور بعض اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے اچھا خاصا بھی مہیا کرتے تھے۔ عملی طور پر یہ ہوتا تھا کہ اکثر گاہک ایک گلاس مشروب پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ یوں مشروبات خوب بکتے تھے۔ گاہکوں کی ریل پیل‘ شہرت‘ اشتہار بازی‘ کئی ضمنی فوائد اس کے علاوہ تھے۔ اسی زمانے میں عقل مندوں نے یہ محاورہ تراشا کہ کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا:
There is no such thing as a free lunch!!
یعنی ع
نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
یہ دنیا دارالاسباب ہے۔ غور کیجیے تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہاں کوئی شے مفت نہیں ملتی۔ ہر شے کی‘ ہر خدمت کی‘ ہر سروس کی‘ ہر جنس کی‘ کچھ نہ کچھ قیمت‘ کہیں نہ کہیں ضرور ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایک ریستوران نے اپنے دروازے پر بورڈ لگا دیا۔ اس پر لکھا تھا کہ یہاں آپ کو کھانا مفت ملے گا کیونکہ اس کا بل آپ کا پوتا ادا کرے گا۔ ایک صاحب کھا کر جانے لگے تو ویٹر بل لے آیا‘ انہوں نے اعتراض کیا کہ یہ بل آپ کے اعلان کی رُو سے میرے پوتے نے ادا کرنا ہے۔ ویٹر نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ اس کھانے کا بل ہے جو آپ کے دادا جان نے کھایا تھا۔ ہم صدقہ خیرات بھی مفت نہیں کرتے‘ ثواب کی خاطر کرتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں چور ہے‘ کوئی شرابِ طہور کے لیے اور کوئی لحد میں روشنی اور آرام کے لیے نیک کام کر رہا ہے۔ مومنؔ نے کہا تھا ؎
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں‘ رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بیزار دوزخ سے‘ نہ میں مشتاق جنت کا
لیکن سب تو مومنؔ کی طرح جزا سزا کے فلسفے میں نہیں پڑتے۔
’’فری لنچ‘‘ کے اس تصور کو اب ہم پولیس سٹیٹ سے جوڑتے ہیں۔ پولیس سٹیٹ کا مطلب ہے وہ حکومتیں جو اپنی بقا کے لیے پولیس کی طاقت کا سہارا لیتی ہیں۔ سوویت یونین اور اس سے ملحقہ حکومتیں‘ خاص کر مشرقی جرمنی کی مثالیں اس ضمن میں سب سے زیادہ دی جاتی تھیں۔ شمالی کوریا‘ شام‘ لیبیا‘ عراق سب پولیس سٹیٹس تھیں۔ پاکستان‘ بظاہر نظر آنے والے جمہوری لباس کے باوجود جوہری طور پر ایک پولیس سٹیٹ ہے۔ ’’انتخابات‘‘ میں محترمہ فاطمہ جناح کی ’’شکست‘‘ سے لے کر‘ کراچی میں طاقت
کے اس مظاہرے تک جو صدر ایوب خان کے صاحبزادے نے کیا‘ بھٹو کے زمانے میں لیاقت باغ کے جلسے میں گرنے والی لاشوں سے لے کر‘ دلائی کیمپ تک‘ ماڈل ٹائون میں چودہ شہریوں کے قتل سے لے کر کراچی میں نقاب پوشوں کے حملے اور اب ڈسکہ میں ایس ایچ او کی فائرنگ تک… سارے واقعات جمہوریت کی نفی کرتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ عملاً یہ ایک پولیس سٹیٹ ہے!
اب جب کوئی حکومت اپنی بقا کے لیے اور اپنے دشمنوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے پولیس کا سہارا لیتی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا پولیس یہ کام مفت میں کرتی ہے؟ نہیں! بالکل نہیں! دنیا میں کوئی لنچ ایسا نہیں جو مفت میں ملے۔ پولیس اور پولیس سٹیٹ کے حکمرانوں کا ایک غیر مرئی‘ غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے جو مکمل طور پر کامن سینس کی بات ہے۔ پولیس کو بدلے میں حکومت دو چیزیں دیتی ہے۔ اول‘ پولیس کسی بھی قسم کے احتساب سے بالا ہوتی ہے۔ اگر پولیس سے ان اقدامات کا حساب کتاب کیا جانے لگے جو وہ حکومتوں کے حق میں اور حکومتوں کے مخالفین کے خلاف اٹھاتی ہیں تو وہ آئندہ یہ ’’خدمات‘‘ کیوں انجام دیں؟ آپ ماڈل ٹائون واقعے کو دیکھ لیجیے‘ چودہ انسان قتل ہو گئے‘ کسی کو سزا نہیں ملی۔ دوم‘ حکومتیں پولیس کو مراعات دیتی ہیں۔ پاکستان بھر میں بالعموم اور سب سے بڑے صوبے میں بالخصوص۔ پولیس کے ریٹائرڈ ملازموں کو مزید ملازمتیں سب سے زیادہ ملی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے۔ حکمران ان کا سہارا لیتے ہیں۔ تعلقات سرکاری سے بڑھ کر ذاتی سطح پر آ جاتے ہیں۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ’’تفتیش‘‘ کے دوران اب تک کتنے ملزم ہلاک ہو چکے ہیں‘ کوئی شمار ہی نہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف 2010ء کے دوران 338 افراد پولیس کے ہاتھوں مارے گئے اور 174 پولیس کے حبس بیجا سے نکالے گئے۔ درماندہ اور زیریں طبقات کے جو بے نوا افراد چوری وغیرہ کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں اور تشدد کے نتیجہ میں ہلاک ہو جاتے ہیں‘ ان کا ذکر بے نام اعدادو شمار کے علاوہ اور کسی صورت میں ہوتا ہی نہیں!
یہ صرف موجودہ حکمرانوں ہی کا وتیرہ نہیں‘ پاکستان میں ہر حکومت نے ان اعلانات کا سہارا لیا:
’’مجرم بچ نہیں پائیں گے‘‘
’’غیر جانب دارانہ تحقیقات ہوگی‘‘
’’ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے‘‘
جن ملکوں میں قتل کے مجرموں کو سزائیں ملتی ہیں وہاں حکومتوں کے سربراہ رپورٹیں طلب کرتے ہیں نہ ’’واقعے کا نوٹس‘‘ لیتے ہیں۔ بھلا ایک قتل کے مقدمے کا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کیوں نوٹس لے۔ کیا قتل کے ہر واقعے کے بعد جوڈیشل کمیشن بنتا ہے؟ قانون کی کارروائی کسی صوبائی یا وفاقی سربراہ کے نوٹس لینے کی محتاج نہیں ہوتی۔ کیا سنگاپور‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا یا برطانیہ میں انصاف اُس وقت ملتا ہے جب صوبائی یا وفاقی حکمران واقعے کا نوٹس لے؟ تصور ہی مضحکہ خیز ہے! اس کا ایک اور صرف ایک مطلب نکلتا ہے کہ اگر حکمران نوٹس نہیں لیں گے تو انصاف نہیں ملے گا۔ یعنی انصاف کا خود کار نظام مفقود ہے!
تیرہ بختی کی انتہا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور حزب ہائے اختلاف‘ کوئی بھی مستقل مزاجی سے پولیس کے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ شاید اس لیے کہ کل یہ حکومت میں آئیں تو پولیس کے اسی نظام سے فائدہ اٹھائیں!
اس سرطان کا علاج ناممکن نہیں۔ نہ ہی اس کے حل کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے۔ پولیس کے بہترین نظام صرف یورپ اور امریکہ کی سفید فام اقوام کے ہاں نہیں‘ ایشیائی ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ جاپان‘ سنگاپور‘ ہانگ کانگ‘ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات میں پولیس کے نظام ایسے ہیں کہ ماڈل کے طور پر اپنائے جا سکتے ہیں۔ ہاں! اس سے پہلے قومی سطح پر اس اجماع کی ضرورت ہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے مکمل طور پر پاک کیا جائے گا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“