بہت سال پہلے کی بات میں پاکستان گیا تو لاہور نسیم عادل اور ندی کو ملنے گیا۔ رات میں، نسیم عادل اور ندی بیٹھے تھے، سیگرٹوں کے مرغولے باتیں کر رہے تھے اور گلاسوں سے اٹھتی مہک میں ہم تیر رہے تھے کہ ایک دستک ہوئی ندی نے دروازہ کھولا تو ایک لڑکی اسلامی برقعہ اڑھے ایک لڑکے کے ساتھ داخل ہوئی۔ لڑکا تو ہمارے ساتھ بیٹھ گیا مگر لڑکی نے اپنا پرس کرسی پہ بھینکا اور تیزی سے واش روم میں داخل ہو گی۔ میں نے اپنے گلاس پہ نظر ڈالی اور سوچا اس پہ فاتحہ پڑھ لوں کہ اب رات برباد ہوتی نظر آ رہی تھی ۔دو منٹ بعد لڑکی سکرٹ پہنے ہاتھ میں برقعہ لیے دھڑم سے کرسی پہ گری اور میرا گلاس اٹھا کر بوٹم اپ کر گی اور نسیم کی انگلیوں میں سلگتا سگریٹ لے کر کش پہ کش لگانے لگی۔
یہ لڑکی تھی زونی اور یہ لڑکا تھا اس کا شوہر فری۔ زونی اپنے سسرال رہتی تھی جہاں نا صرف سسرال کا گھریلو ماحول تنگ نظر مذہبی تھا بلکہ سارے محلے کا ماحول بھی ایسا ہی تھا مگر پھر جب تک میں لاہور رہا زونی ہر رات زین کی پینٹ یا سکرٹ کے اوپر برقعہ پہن کر آتی اور آتے ہی برقعے کو اتار کر ادھر اودھر پھینک دیتی اور سگریٹوں کے مرغولوں میں شامل ہو جاتی۔اس کو شوہر فری ان دنوں بہاولپور میں کام کرتا تھا جو وہاں سے ہر روز آخری فوکر فلائٹ پکڑتا اور گیارہ بجے ہمارے ساتھ شامل ہو جاتا۔ ہم باتیں کرتے رہتے جسے صبح تک ہم نظم بنا دیتے۔
نسیم عادل نے غداری کی اور میرے پاکستان آنے سے پہلے ہی ہم کو چھوڑ کر چلا گیا۔
میں اس کی قبر پہ نہیں گیا نسیم عادل مٹی کی ڈھیری تو نہیں تھا میں مٹی کی ڈھیری پہ کیوں جاتا۔
اس دفعہ میں پاکستان گیا تو دوستوں نے جتنی محبت مجھے دی میں بیان نہیں کر سکتا۔لائل پور، لاہور اور کراچی سب جگہ پہ دوستوں نے پیار دیا مگر اس دفعہ میری صحت نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ میں زرا سا چلتا تو سانس لینا مشکل ہو جاتا خاص طور پہ سیڑھیاں چھڑنا بہت مشکل ہو گیا تھا، اودھر فری اور زونی کا گھر دوسری منزل پہ تھا جو پندرہ سڑھیاں چھڑنے کے بعد آتی۔
ایک دن جب میں زونی کے گھر گیا تو میری سانس بری طرح اکھڑ گئی۔ میں زونی فری اور فری کا دوست بہرام کئی گھنٹے کوشش کرتے رہے کہ میری سانس بحال ہو۔ فری ایک ڈاکٹر کو جگا کر لے ایا جس نے مجھے چیک کرتے ہی کہا۔ آپ اسے فوری ہسپتال لے جائیں۔ اب مسئلہ تھا میں اس بری حالت میں پندرہ سیڑھیاں اتروں گا کیسے؟ مگر فری اور بہرام نے میرے بازو اپنے کندھوں پہ رکھے اور سکاوٹوں کی طرح اپنے ہاتھوں کو کرسی بنا کر مجھے اس پہ بیٹھا کے نیچے اتارا، اور گھر کے قریب شالیمار ہسپتال پہنچایا۔ جہاں چار گھنٹے میں ڈاکٹروں کے نرغے میں رہا۔ ان چار گھنٹوں میں زونی نے ایک لمحے کے لیے بھی میرا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ ڈاکٹروں کے دئیے انجیکشنوں اور ٹیبلٹ نے جو کیا سو کیا مگر میں سمجھتا ہوں میں اگر ہسپتال سے واپس گھر آیا ہوں تو یہ زونی کی دوستی کا لمس تھا جس نے مجھے زندگی دی۔ مجھے لگتا تھا جب تک میرا ہاتھ زونی کے ہاتھ میں موت مجھے کہیں لے کر نہیں جا سکتی، کیونکہ زونی کی دوستی کی زندگی کا ہاتھ بہت مضبوط ہے۔
واپسی پہ پھر بہرام اور فری نے اسی طرح مجھے اپنے ہاتھوں پہ بیٹھایا اور گھر میں پہنچایا۔
زونی کے بچوں خصوصی طور پہ احمد نے جس طرح میرا خیال رکھا مجھے لگا میرے بچے میرے ارد گرد ہیں ۔
جب میں صحت مند ہوا تو زونی اور فری میری صحت یابی کی خوشی میں ایک رات اپنے گھر میں پارٹی کا اہتمام بھی۔ جو اگلے دن دوپہر ایک بجے تک جاری رہی۔
میں نے بہت بہت لبرل بندے دیکھے ہیں مگر میں نے آج تک فری جیسا لبرل، پیارا دوست نہیں دیکھا ۔
فری، زونی بہت سا پیار