کہا جاتا ہے کہ ادب اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور وہ اپنے عہد کی تاریخ بھی مانا جاتا ہے۔ یورپ میں جرمن ادیب فرانس کافکا کا پیش کردہ ادب بھی اُن کے عہد کی آواز اور سماجی ناہموار یوں کی داستان ہے جسے انہوں کہیں زہر اور کہیں خون میں ڈوبے قلم کی روشنائی سے تحریر کیا ہے۔
فرانز کافکا اپنے مزاحمتی ادب کی بنیاد پر یورپ کے ادیبوں میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں رمضیہ شاعری کے ساتھ ساتھ کئی مختصر اور طویل افسانے لکھے ہیں ۔ میں یہاں اُن کے ایک طویل افسانے “ پینل کالونی۔ موت کی مشین “ پر اپنے تاثرات پیش کرونگی اور ساتھ ہی یہ بھی بتانا چاہونگی کہ اس کہانی پر عالمی سطح پر کئی اسٹیج پلے اور تھیٹرترتیب دیے گئے جن میں سب سے مقبول “ فلپ گلاس “ کا تھیٹر ہے جو جرمنی اور یورپ کے دیگر شہروں سمیت امریکہ کی ریاست سیاٹل میں بھی بطور ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اگرچہ یہ او پیرا نہایت دردناک تھا لیکن اس میں فرانز کافکا کا ادب بصری سطح پر عوام کے سامنے پیش کیا گیاتو لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سے متعارف ہوئی اور بعد ازاں یہ جرمنی کے شہر ڈرمسٹڈٹ میں جرمن پریمیئر کے بعد، ایک اوپیرا کمپنی کے توسط سے یہ دو بارہ لگاتار پیش کیا جانے لگا ۔ یہ مقبولیت پانے کے بعد اس او پیرا میں کمپنی کے ہدایت کار نے معروف امریکی موسیقاروں اور سازندوں کے اس کام کو اپنے ذخیرے میں شامل کر لیا جس کے بعد یہ نیورمبرگ میں ایک تھیم ہفتہ “موت کی قطار سے لائیو” کے حصے کے طور پر کئی پیش کیا گیا اور کئی بار بے شمار داد سمیٹی۔
اس پیش کردہ بصری ادب میں، کافکا کی اس سوچ کو تصویر کیا گیا تھا جو ایک بظاہر عقلی طور پر ایک منظم دنیا میں غیر انسانی اور بے رحمی کی عکاس ہے۔ کافکا اپنے اس لازوال افسانے **” پینل کالونی “**میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف سراپا ء احتجاج نظر آتے ہیں۔
اس کہانی میں اس وقت و حالات کے تحت ہر چیز کی منطق اور وضاحت سامنے آتی ہے۔ فلپ گلاس اپنے تھیٹر میں جو بات واضح کی ہے وہ یہ ہی ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ عجیب اور افسوسناک کوئی بات نہیں ہے کہ ایک انسان قانون کے مطابق دوسرے انسان کو قتل کرنے کرئے اور وہ ایک موت کی مشین تیار کرئے۔ ساتھ ہی اس مشین کو کامیاب تجربہ میں لانے کے لیے وہ کہے کہ اب تمہیں اسے مارنا ہی پڑے گا، دوسری طرف ہم آئے دن قانون کی زبانی یہ جملہ کتنی بار سنتے ہیں کہ “بس اسے پھانسی دے دی جائے‘‘ ۔ اس ہی انسانی تمسخر کو فلپ گلاس نے اپنے تھیٹر میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے–
اس کہانی میں چند الفاظ میں انسانیت سوز جملے شاید پڑھنا یا سننا آسان ہوں لیکن لکھنے والے نے اپنی ذہانت سے اپنے سادہ مکالموں اور گفتگو کے متن کے پیچھے ایک ایسا انسانی رویہ بنا کر پیش کیا ہے جو کسی بھی حد تک غیر انسانی اور انتہائی حد تک ظالمانہ ہے اور یہی وہ منظر کشی ہے جو انسانیت کا درد رکھنے والوں کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیتی ہے۔
لیکن جو بات اس افسانے کو اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کہانی میں آگے چل کر صورت حال بہت جلد اُس جج کے خلاف ہو جاتی ہے جو پھانسی یا انسان کی جان لینے کے لیے قانونی عذر پیش کرتا ہے اور اسے خود ایک دن عوامی رائے کے مطابق پھانسی پر چڑھنا پڑ جاتاہے جس کی اس نے پہلے اتنی فصاحت کے ساتھ نمائندگی کی تھی۔
جرمنی کے کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن کے شعبہء ادب کے انچارج ا ور جرمن زبان و ادب کے ماہر مشائیل براؤن کے خیال میں کافکا کی تحریروں میں وہ اضطراب نظر آتا ہے، جو اُس دور میں نت نئی ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں موجزن تھا۔
اب اس کہانی کے اردو ترجمہ کی طرف آئیے اس کہانی کو محمد عاصم بٹ صاحب نے بھی عالمی ادب کے تراجم میں اردو میں ترجمہ کیا ہے اور “پینل کالونی “ کا عنوان انہوں نے “مقتل” کے عنوان سے تبدیل کیا جو میری ذاتی رائے کے مطابق درست ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ میں بیان کر چکی ہوں کہ اس کہانی میں جنگی قیدیوں میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کا کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کہانی میں بنیادی عنصر اُس مشین کی منظر کشی ہے جس میں باندھ کر قیدیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے مشین کس کمال سے ڈیزائن کی گئی ہے، کس طرح اس میں لگی میخیں اور کیلیں انسانی جسم میں پیوست ہوتی ہیں، کس طرح انسانی گوشت کو ریزوں میں تبدیل کیا جاتا ہے، جسم سے بہنے والا خون کن نالیوں سے گزرتا ہوا کہاں پہنچتا ہے ، مشین میں بندھا قیدی پندرہ سے بیس منٹ تک اذیت کے کن مرحلوں سے گزرتا ہے اور دوسری طرف مشین آپریٹ کرنے والا فوجی کس بے نیازی سے اس اذیت ناک موت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ایک منظر میں وہ معائنہ کے لئے آئے ہوئے صحافیوں کو کس شوق سے اس خود کار مقتل کے تکنیکی پہلوؤں سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ سب نہایت لرزہ خیز ہے۔ کافکا نے مقتل میں بھی اس وقت کےسماج کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک طبقہ ظالم ہے اور دوسرا مظلوم، یعنی ایک وہ طبقہ جس کی آزادی سلب ہے اور دوسرا وہ طبقہ جو حد درجہ آزاد ہےجیسے مشین کےساتھ بندھا قیدی اور مشین کے اوپر بیٹھا فوجی جس کو انسانی زندگی کو زچ پہنچانے سے لے بے دردی سے مار ڈالنے تک کی آزادی ہے۔ بنیادی طور پر بھی کافکا کی دیگر کہانیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ انہی دو طبقوں کے گرد گھومتی ہیں۔ کافکا مظلوم اور قیدی طبقے کا کرب اپنے جذبات کی شدت کے ساتھ کہانیوں میں تصویر کرتے ہیں اور وہ اس طبقے کی عکاسی کرتے ہوئے نہایت بے رحمی، سفاکیت اور بے چینی کو کہانی میں اس طرح سموتے ہیں کہ قاری بھی اپنی ذہنی کیفیت کو اس ماحول سے نکالنےکے لیے کئی راتیں بے سکون و بے چینی سے گزارتا ہے یا کہانی کو اختتام تک پڑھنے کا حوصلہ اپنے اندر محسوس نہیں کرتا ۔ اور اس کہانی کو درمیان ہی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ شاید قاری اس کہانی کی سفاکیت کو محسوس کرکے اسے ایک اُلجھے راستے پر چھوڑ دیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ کہانی کئی ہفتے تک ذہن کے خانوں میں ادھوری ہی بھٹکتی رہی اور جب اس کا مطالعہ مکمل کیا تو بجائے بے چینی دور ہونے کے مذید بڑھ گئی۔ پینل کالونی کے علاوہ بھی آپ کافکا کی جتنی تحریریں پڑھیں تو آپ کو یہی احساس ہوتا ہے کہ کافکا ایک ماہر مصور ہے اور وہ اپنی تحریر کو اپنے جذبات و احساسات کے تمام رنگوں، چاہے وہ خون سے مماثلت رکھتے ہوں یا گلاب سے ، وہ انہیں نکھار کر اپنے قاری کے دل و دماغ پر سیدھا اثر پزیر کرنے کو چھوڑ دیتا ہے۔
آج کے ناقدین اور مبصرین نے بیس ویں صدی کے عالمی ادب میں کافکا کے تحریر کردہ ادب کو اس دور کا نادر ادب اور تخلیقی کارنامہ قرار دیا ہے جو نہ صرف اپنے عہد کا عکاس ہے بلکہ انسانیت کی سربلندی اور بقا کے لیے کی جانے والی کاوشوں میں ایک تاریخی سند بھی ہے۔ لیکن افسوس صرف اس بات کا ہے کہ آج دنیا میں کئی ممالک میں “ڈیتھ مشین “ یا “ پینل کالونی” کے لیے کوئی خاص علاقہ مخصوص نہیں ہے آج بھی کئی ملزم و مجرم پھانسی کی سزا یا سزائے موت کے زریعے اپنی جان دینے پر مجبور ہیں۔ انسانی زندگی کے نظام میں انصاف کا پیمانہ لیے ایک انسان ہی کسی کی جان لینے کا حکم نامہ جاری کرتا ہے اور کئی تماشائی اس حکم کی تعمیل کو اخبار کی سرخیوں میں انسانیت کی دھجیاں اُڑاتے دیکھتے ہیں۔
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...