جرمن ادب کے شائقین کی نذر (32)
ایک خواب (Ein Traum)
(فرانز کافکا کی ایک کہانی، جرمن سے براہ راست اردو میں)
جوزف “کے” خواب دیکھ رہا تھا:
وہ ایک خوبصورت دن تھا اور “کے” سیر کے لیے جانا چاہتا تھا۔ اس نے ابھی بمشکل دو قدم ہی اٹھائے تھے کہ وہ قبرستان پہنچ چکا تھا۔ وہاں بہت مصنوعی نظر آنے اور گھوم پھر کر جانے والے ایسے رستے تھے، جنہیں بناتے ہوئے عملیت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن وہ ایک ایسے رستے پر چل پڑا، جو ایسے تھا جیسے متوازن اور پرسکون انداز میں بہتی ہوئی کسی ندی کا پانی۔
اس کی نظر دور سے ہی ایک ایسی تازہ بنی ہوئی قبر کی ڈھیری پر پڑی تھی، جہاں وہ بہرحال رکنا چاہتا تھا۔ یہ قبر جیسے اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسے لگا کہ وہ جتنا بھی تیز چلے، وہ بہت جلدی سے اس قبر تک پہنچ ہی نہیں سکتا تھا۔ کبھی کبھی اسے اس قبر کی ڈھیری ان جھنڈوں کی وجہ سے نظر آنا بند بھی ہو جاتی تھی، جو اس ڈھیری کو اپنے پیچھے چھپا لیتے تھے۔ یہ جھنڈے بنانے کے لیے استعمال کیے گئے کپڑے کے ٹکڑے جب تیز ہوا میں ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے، تو زور زور سے پھڑپھڑانے لگتے۔ ان جھنڈوں کو پکڑنے والے نظر نہیں آ رہے تھے لیکن بظاہر لگتا ایسے تھا جیسے وہاں بہت خوشی، کسی جشن کا ماحول تھا۔
جب “کے” کی نظریں دور اس کی منزل پر لگی ہوئی تھیں، اس نے اچانک قبر کی اس ڈھیری کو راستے میں اپنے بالکل قریب پایا، جہاں وہ تھا وہاں سے ذرا سا ہی پیچھے۔ اس نے جلدی سے چھلانگ لگا کر گھاس پر ہو جانے کی کوشش کی۔ اس دوران اس کے چھلانگ کے لیے ہوا میں بلند ہوتے ہوئے پیروں کے نیچے سے راستہ بھی تیزی سے سرک گیا تھا۔ اس کا توازن بگڑا تو وہ گھٹنوں کے بل عین اس قبر کی ڈھیری کے سامنے جا گرا۔
قبر کے پیچھے دو آدمی کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے مل کر ایک کتبہ ہوا میں اٹھا رکھا تھا۔ “کے” ابھی ان کو بمشکل نظر آیا ہی تھا کہ انہوں نے وہ کتبہ زمین پر دے مارا اور “کے” وہاں کھڑا کھڑا ایسے تھا جیسے کسی دیوار میں چن دیا گیا ہو۔ اس کے فوراﹰ بعد قریبی جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک تیسرا آدمی نمودار ہوا تو “کے” نے اسے ایک فنکار کے طور پر بلاتاخیر پہچان لیا۔ اس نے صرف ایک پتلون اور ایک ایسی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جس کے بٹن بھی اچھی طرح بند نہیں کیے گئے تھے۔
اس نے سر پر ایک مخملیں ٹوپی پہن رکھی تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک عام سی سکے والی پینسل تھی، جس کے ساتھ وہ قریب آتے آتے ہوا میں تصویریں بناتا جاتا تھا۔ پھر وہ اس پینسل کو ہاتھ میں پکڑے کتبے پر بیٹھ گیا۔ پتھر کافی اونچا تھا، اسے نیچے کی طرف تو نہیں البتہ تھوڑا سا آگے کی طرف جھکنا پڑا تھا۔ وہ قبر کی اس ڈھیری پر پاؤں نہیں رکھنا چاہتا تھا جو اس کے اور کتبے کے درمیان تھی۔ وہ اپنے پنجوں پر کھڑا ہو کر اور بائیں ہاتھ سے خود کو سہارا دیتے ہوئے کتبے پر چڑھا تھا۔
پھر بڑے ہی ماہرانہ انداز میں وہ اس عام سی سکے والی پینسل کے ساتھ اس کتبے پر سنہری حروف لکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے لکھا: “یہ آرام گاہ -“ ہر حرف صاف اور خوبصورت لگ رہا تھا، کافی گہرائی تک کھرچ کر لکھا گیا اور بالکل سنہری۔ جب وہ یہ دو لفظ لکھ چکا، تو اس نے پلٹ کر “کے” کی طرف دیکھا۔ “کے” اس کتبے پر لکھی جانے والی تحریر میں اتنا مگن تھا کہ وہ اس آدمی پر کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی نظریں تو کتبے پر جمی تھیں۔
وہ آدمی پھر کتبے پر تحریر لکھنے میں لگ گیا لیکن لکھ نہ سکا۔ کہیں بیچ میں کوئی رکاوٹ آ گئی تھی۔ اس نے اپنی پینسل چھوڑی اور ایک بار پھر اپنا رخ “کے” کی طرف کر لیا۔ اب “کے” نے بھی اس فنکار کو دیکھا اور محسوس کیا کہ جیسے وہ کچھ شرمندہ سا تھا لیکن کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس پشیمانی کی وجہ کیا ہے۔ اس کا وہ جوش و جذبہ غائب ہو گیا تھا جو پہلے نظر آ رہا تھا۔ اس وجہ سے “کے” بھی کچھ کچھ پشیمان سا ہو گیا۔ دونوں نے آپس میں بےچارگی والی نظروں کا تبادلہ کیا لیکن بیچ میں کہیں کوئی بدصورت سے غلط فہمی تھی، جس کا حل دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھا۔
اس لمحے قبرستان کے چھوٹے سے عبادت خانے کی ننھی سی گھنٹی بھی بجنا شروع ہو گئی تھی۔ لیکن اس فنکار نے ہاتھ اٹھا کر ہوا میں لہرایا تو وہ گھنٹی بجنا بند ہو گئی۔ پھر کچھ دیر کے بعد وہ گھنٹی دوبارہ بجنا شروع ہوئی۔ اس مرتبہ بہت ہلکی آواز میں، کسی خاص ردعمل کی دعوت دیے بغیر اور پھر بند بھی ہو گئی، ایسے جیسے وہ صرف اپنی ہی آواز سن کر کوئی اندازہ لگانا چاہتی تھی۔
“کے” فنکار کو درپیش صورت حال پر دل برداشتہ تھا۔ وہ رونے لگا، اس کے ہاتھ اس کے سامنے ہوا میں اٹھے ہوئے تھے اور وہ کافی دیر تک روتا اور گڑگڑاتا رہا۔ فنکار نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک “کے” دوبارہ کچھ پرسکون نہیں ہو گیا تھا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ اس کے پاس تو اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں اور وہ پھر کتبے پر تحریر لکھنے میں مصروف ہو گیا۔
وہ پہلی لکیر جو اس نے پینسل سے پتھر پر کھینچی، وہ “کے” کے لیے جیسے نجات کا لمحہ تھی۔ لیکن یہ فنکار یہ لکیر کھینچنے میں بھی انتہائی زیادہ ہچکچاہٹ کے بعد کامیاب ہوا تھا۔ جو کچھ اس نے لکھا تھا، وہ بھی بہت خوبصورت نہیں تھا، اس کی تحریر کا وہ سنہری تاثر بظاہر ناپید ہو گیا تھا۔ جو لکیر اس نے کھینچی تھی، وہ کافی زرد پڑتے جا رہے اور عدم اعتماد کے مظہر انداز میں مکمل ہوئی تھی۔
جو حرف اس فنکار نے لکھا تھا، وہ حروف تہجی میں سے “J” تھا، جو بہت بڑا ہو گیا تھا اور تقریباً پورا لکھا جا چکا تھا۔ لیکن اسی وقت اس فنکار نے بڑی غصے سے اپنے ایک پاؤں سے قبر کی ڈھیری کو اتنے زور سے ٹھوکر ماری کہ جہاں ٹھوکر لگی، اس کے ارد گرد کی مٹی ہوا میں اڑنے لگی تھی۔ بالآخر “کے” اس کو سمجھ گیا تھا۔ اس سے معافی مانگنے کے لیے اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس نے اپنی تمام انگلیاں اس مٹی میں گاڑ دیں، جس نے ان انگلیوں کے خلاف کوئی مزاحمت تقریباً کی ہی نہیں تھی۔
لگتا تھا سب کچھ تیار تھا۔ صرف دکھاوے کے لیے مٹی کی ایک ہلکی سی تہہ رکھی ہوئی تھی۔ اس تہہ کے نیچے ایک ایسے بڑے سوراخ کا دہانہ کھل گیا تھا، جس کے چاروں طرف بنی دیواریں نیچے گہرائی تک جا رہی تھیں۔ “کے” اس سوراخ میں ڈوبتا جا رہا تھا اور اسے اپنی کمر پر نرم ہوا کے ایک جھونکے کی خنکی مسلسل محسوس ہو رہی تھی۔
پھر جب وہ نیچے ان گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا، جن میں اترنا ممکن ہی نہیں تھا اور اس کا سر خود کو زیادہ سے زیادہ سیدھا رکھتے ہوئے شانوں سے بلند تر ہو جانے کی جدوجہد میں تھا، عین اسی وقت اوپر کتبے پر اس کا نام جلدی سے تیار ہوتے جا رہے کسی زیور کی طرح تیزی سے اپنی مکمل شکل اختیار کر گیا تھا۔
کتبے پر تحریر کی تکمیل کا منظر دیکھتے ہی خوشی سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...