عصر حاضر میں فرانس میں اردو صحافت ناپید ہے۔ حالانکہ بقول محترمہ سُمن شاہ، صدرپیرس ادبی فورم، فرانس میں انہوں نے خود اردو صحافت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہیں ۔ انہوں نے بطور چیف ایڈیٹر سنہ ۱۹۹۸ میں دو ماہنامہ میگزین ’تڑپ‘ اور ’سویرا‘ پیرس سے شایع کیا لیکن چند سالوں کے بعد یہ دونوں رسالے بند ہو گئے ۔ اُن کے مطابق فرانس کے اہل اردو مُطالعہ میں کم دلچسپی لیتے ہیں اور خرید کر پڑھنے کے تو قطعی روادارنہیں ہیں۔ ایک اردو اخبار ’جسارت‘ کے نام سے بھی 90 کے عشرے میں شایع ہوتا تھا لیکن اُس کی بھی اشاعت منقطع ہو گئی۔
انٹرنیٹ کی آمد سے جب آن لائن صحافت کا رحجان بڑھا تب فرانس میں ’جیو اردو‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ کافی عرصے تک چلی لیکن وہ بھی بند ہو گئی ۔محترمہ سُمن شاہ نے دو ویب سائٹز کے نام کا ذکر کیا ہے جو فرانس کی خبریں دیتی ہیں لیکن اُن کا ڈومین پاکستان میں ہے ۔ ایک’ گجرات لنک‘ کے نام سے ہے لیکن یہاں پر زیادہ تر خبریں پاکستان کے حوالے سے ہوتی ہیں اور ویب سائٹ دیکھنے پر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اِس کا ربط فرانس سے بھی ہے۔ دوسری ویب سائٹ ’ڈیلی پُکار‘ ہے لیکن مجھے اِس کا صرف ایک فیس بُک پیج ملا۔ ’ڈیلی پُکار‘ میں فرانس کے علاوہ خبریں دیگر یوروپین ممالک برسلز، جرمنی و دی نیڈرلینڈز سے بھی ہیں جہاں اُن کے نمائندے موجوُد اور سرگرم ہیں ۔ یہاں پر خبروں کا موضوع پاکستانی سیاست و پاکستانی سفارت خانوں میں مختلف ثقافتی پروگرام اور تقاریب پر مشتمل ہوتا ہے۔
فرانس میں اردو صحافت کے قحط کی سب سے بڑی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ اردو کو فرانسیسی سرکار کی سرپرستی نہیں مل پائی ۔بقول جناب محمد یونَس ، بیورو چیف آج ٹی وی، فرانس، ’’اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک کو دیکھتے ہیں تو جرمنی میں’ ڈی ڈبلو‘ کی اردو سروس ہے اور برطانیہ میں ’بی بی سی‘ اردو سروس بہت بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے، تو اِس طرح کی حمایت اور مالی امداد فرانس میں حکومت کی جانب سے اردو کو مُہیّا نہیں ہے‘‘۔
غور طلب یہ بھی رہے کہ فرانس میں اکثر اہل اردو کے گھروں میں ڈِش ٹیلی ویژن چینلز لگے ہوتے ہیں جن میں پاکستان یا بّر صغیر کے کم و بیش سارے چینلز دستیاب رہتے ہیں ۔ چونکہ نجی ٹیلی ویژن چینلز سے اردو میں خبریں نشر ہوتی ہیں تو ناظرین اس ذرائع سے ہی شاید مُطمئن رہتے ہوں اور انہیں اردو خبر کے مطالعے کی ضرورت نا محسُوس ہوتی ہو۔ بقول رضا چودھری، سینئیراردو صحافی، فرانس کے مقامی کیبل اوپریٹر بھی بر صغیر کے کچھ چینلز نشر کرتے ہیں جن میں ’جیو نیوز ‘اردو خبر کے لیے اہم ہے۔ مزید برآں فرانسیسی زبان کا غلبہ روز مرّہ زندگی میں مثلاً معاش یا بَچّوں کی تعلیم میں رہنے کی وجہ سے اردو کا استعمال کنبے میں کم ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی جلا وطنوں میں پنجابی طبقے کی اکثریت ہے اور ہندوستانی طبقے میں پنجابی کے علاوہ گجراتی اور ہندی بولنے والے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ جو پاکستانی مہاجرین پہلی نسل کے ہیں اور ستر کی دہائی میں فرانس آئے تھے وہ زیادہ تر پنجاب سے ہیں جو میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اُن کے گھروں میں پنجابی، اردو،سرائیکی ، پوٹھواری اور دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم اردو بر صغیر سے آئے لوگوں کے لیے مشترکہ زبان مانی جاتی ہے۔ شمالی ہند، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے بہت سارے لوگ اردو سمجھ اور بول لیتے ہیں ۔ رضا چودھری نے تجویز دی کہ اگر کوئی ایسا اردو میں اخبار، رسالہ یا ویب سائٹ ہو جو اِن سبھی ممالک کی خبر شایع کریں تو وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔
ہندوستان سے اردو صحافت کے میدان میں کوئی بھی نمائندہ فرانس میں نہیں ہے ۔ پاکستان سے اردو ٹی وی چینیلز میں ’جیو نیوز‘، ’آج نیوز‘،’اے ایر وائی‘، ’بول نیوز‘ اور ’ہم نیوز‘ کے علاوہ متعدد نیوز ایجینسیاں کے نمائندے پیرس شہر میں مقیم ہیں اور یہاں کی خبروں کو پاکستان ترسیل کرنے میں اہم کرادار ادا کرتے ہیں۔مزید براں، پاکستانی اخبارات ’جنگ ‘ اور ‘نوائے وقت‘ کے بھی نمائندے فرانس سے خبرسازی کرتے ہیں۔ محترم رضا چودھری فرانس میں ۲۲ سالوں سے اردو صحافت سے منسلک ہیں۔ ابتدائی دور میں وہ ’نوائے وقت‘ کے نمائندہ تھے لیکن ۲۰۰۴ سے انہوں نے روزنامہ ’جنگ‘ اور ’جیو نیوز‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج سے تقریباً دس پندرہ سال پہلے پاکستان سے اخبارات اور رسائل آیا کرتے تھے اور فروخت کیے جاتے تھے لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا رحجان بڑھنے سے اخبارات فرانس میں فروخت ہونا بند ہو گئے حالانکہ آج بھی روزنامہ ’جنگ‘ لندن سے روز شایع ہوتا ہے ۔ محمد یونَس صاحب نے بھی دو رسائل ’جذبہ‘ اور ’تاریخِ وطن‘ کے بارے میں ذکر کیا کہ یہ شایع تو پاکستان سے ہوتے تھے لیکن فرانس میں ایک زمانے تک انہیں فروخت کیا جاتا تھا۔ انہوں نے یہ وجہ بھی بتائی کہ فرانس میں پروفیشنل صحافی نہیں ہیں اور بیشتر صحافی کا ذریعہ معاش کچھ اور رہتا ہے اور صحافت اُنکے لیے فری لینسنگ ہے ۔ پورے یورپ میں صرف تین چار اردو صحافی ہیں جنہیں تنخواہیں ملتی ہیں اور جو پروفیشنل طور پر کام کرتے ہیں ۔محمد یونَس نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ فرانس سے بنیادی خبر رسانی نہیں ہوتی بلکہ یہاں موجود خبر ایجینسیاں مختلف سیاسی جماعتوں یاشخصیات کی مع تصاویر مارکیٹنگ میں زیادہ پیش پیش ہیں ۔
سیّد عاشُور کاظمی کی کتاب ’بیسویں صدی کے اُردو اخبارات و رسائل مغربی دنیا میں‘ (۲۰۰۲) سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ فرانس میں اردو صحافت کا سخت بحران ہے کیونکہ یہاں سے ایک بھی اخبار یا رسالے کا نام درج نہیں ہے جبکہ امریکہ و کنیڈا کے علاوہ یوروپ میں برطانیہ، ڈنمارک، جرمنی، سویڈین و ناروے سے متعدد مطبوعات ہیں ۔
فرانس میں یوں تو اردو تدریس جامعہ انالکو (INALCO) پیرس میں تقریباً دو سو سال سے جاری ہے لیکن اردو صحافت بہت تاخیر سے نصاب میں شامل کیا گیا ۔ انالکو میں اردو کی بی اے ڈگری میں زیادہ تر طلبہ پاکستانی نژاد کے ہیں۔
اردو صحافت سے ہمارے طلبہ بالکل ناآشنا معلوم ہوتے ہیں۔ اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ اوّل تو اردو اخبار یا اردو رسالے کا مقامی طور پر کوئی نظام نہیں ہے ، دوم، گھر میں دوسری نسل کے بَچّے فرانسیسی بولتے ہیں اور بیشتر کو اردو سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ اردو لکھنےاور پڑھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان دورے پر بھی اردو صحافت سےشاید اِن کا کوئی ربط نہیں ہوتا ۔
فرانس کی وزارتِ امور خارجہ کے مُقابلہ جاتی امتحانات میں دنیا کی کوئی بھی ایک بیرونی زبان کا انتخاب کرکے صحافت کا ایک پرچہ دیاجا سکتا ہے بشر طے کہ اُس زبان کی تدریس فرانس میں عام ہو۔ اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں نے اردو کے بی اے پروگرام میں اردو صحافت پر مُبنی دو نئے کورس جو پرنٹ میڈیا اور الکٹرانکس میڈیا پر مشتمل ہیں اور فن خطاطی ماسٹر اردو میں متعارف کرایا تاکہ اردو کے طلبہ مستفید ہوں۔
فرانس کی دارالحکومت پیرس میں موجودکتب خانہ ’بُولاک‘ (BULAC) جہاں مشرقی زبانوں کی کتابوں کا ایک نایاب ذخیرہ ہے، وہاں بقول بیدار عبّاس، سربراہ زبان اردو، پشتو و پنجابی، اردو کے کافی اخبارات و رسائل دستیاب ہیں جن سے فرانس میں رہنے والے اردو داں استفادہ کر سکتے ہیں ۔ اردو صحافت میں جو اہم ا خبارات و رسائل بُولاک میں ہیں اُن کے نام مندرجہ ذیل ہیں : ہفت روزہ ’ہماری زبان‘، نئی دہلی، ماہنامہ ’اردو دنیا‘، نئی دہلی، ماہنامہ ‘اخبار اردو‘، اسلام آباد، ہفت روزہ ’اخبار جہاں‘، کراچی ، ہفت روزہ ’ملّت ندائیے‘، لاہور و ماہنامہ ’افکار ملّی‘، نئی دہلی ہیں۔
چونکہ اردو صحافت مالی امداد کی کمی کے سبب فرانس میں ناکام ہو جاتی ہے، یہ ممکن ہے کہ اخبار کو چلانے کے لیے ایک تنظیم بنائی جائے جس کے اراکین مل جُل کر یہ ذِمّہ لیں نا کہ اخبار کی ملکیت ایک فرد کے ہاتھوں میں ہو۔ اشتہار بھی ایک معقول ذریعہ ہے جس سے آمدنی ہوتی ہے ۔ اِس کے لیے نا ہی صرف اہل اردو کاروباریوں سے بلکہ غیر اردو داں سرکاری یا پرائیویٹ اداروں سے بھی اشتہار کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
فرانس میں اردو کی ترویج و ترقّی کے لیے یہ اہم ہے کہ مواصلات کے نئے ذرائع میں برقی ذرائع اور اردو پرنٹ میڈیا دونوں اپنا پاؤں جمائے۔
یہ کالم اس لنک پر بھی دستیاب ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...